وفاقی وزیر پرویز خٹک اور ان کے بھائی صوبائی وزیر لیاقت خٹک کے درمیان اختلافات شدت اختیار کرنے کے بعد وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کی طرف سے صوبائی وزیر آبپاشی لیاقت خٹک کو وزارت سے برطرف کردیا گیا جس کے بعد پرویز خٹک اور ان کے بھائی صوبائی وزیر لیاقت خٹک کھل کر ایک دوسرے کے خلاف میدان میں اتر پڑے ہیں۔ وفاقی وزیر پرویز خٹک کے داماد و ممبر قومی اسمبلی عمران خٹک وفاقی وزیر پرویز خٹک کا ساتھ دے رہے ہیں جبکہ عمران خٹک کے بھائی سابق ناظم عبدالرحمان خٹک لیاقت خٹک گروپ کی حمایت کر رہے ہیں۔
لیاقت خٹک کے قریبی ذرائع کے مطابق لیاقت خٹک نے صوبائی اسمبلی پی کے 64نوشہرہ سے مستعفی ہونے اور ضمنی الیکشن میں ان کی طرف سے دوبارہ الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے اگر لیاقت خٹک نے مستعفی ہو کر ضمنی ایکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو پی ڈی ایم کی طرف سے وفاقی وزیر پرویز خٹک کو حالیہ ضمنی الیکشن میں سیاسی دھچکا دینے کے بعد پی کے 64نوشہرہ کے ضمنی الیکشن میں لیاقت خٹک کی حمایت کا امکان ہے اس طرح ضمنی الیکشن میں لیاقت خٹک کی کامیابی وفاقی وزیر پرویز خٹک کے لئے دوسرا بڑا سیاسی دھچکا ہو گا۔ ڑھتی ہوئی مہنگائی عوامی مشکلات اور بے روزگاری میں مسلسل اضافہ سے حکمرانوں کے لئے مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ ضمنی انتخابات عوام کو حکمرانوں کی کارکردگی اور حکمران جماعت کی عوامی مقبولیت جانچنے کا موقع ملتا ہے۔
سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں وفاقی وزیر پرویز خٹک کے گھر میں حکمران جماعت کی شکست اور پی ڈی ایم کی شاندار کامیابی حکمرانوں کے لئے بہت بڑا سیاسی دھچکا ہے جس کے اثرات آئندہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات پربھی پڑیں گے۔ پی کے 63نوشہرہ کی صوبائی اسمبلی کی نشست حکمران جماعت کی نشست تھی۔
صوبائی وزیر میاں جمشید الدین کووفاق کے بعد پی کے 63نوشہرہ کے خالی ہونے والی نشست کے لئے وفاقی وزیر پرویز خٹک کی سفارش پر حکمران جماعت کی طرف سے میاں جمشید الدین کے صاحبزادے میاں محمد عمر کا کا خیل کو امیدوار نامزد کیا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے پی کے63نوشہرہ میں2008،2013 اور2018کے الیکشن میں رنر اپ رہنے والے امیدوار اختیار ولی خان کوامیدوار نامزد کیا گیا۔
جبکہ قومی وطن پارٹی کے قائد آفتاب احمد خان شیرپائو، جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی طرف سے اصولی طور پر رنر اپ رہنے والے امیدوار کے مقابلہ میں اپنی اپنی جماعتوں کے امیدوار نامزد کرنے کی بجائے اختیار ولی خان کی حمایت کا فیصلہ کیا گیا جبکہ اس حلقہ سے بھاری اکثریت سے منتخب ہونے والے سابق صوبائی وزیرو ڈویژنل صدر پیپلز پارٹی لیاقت شباب، جے یو آئی کے صوبائی امیر سینیٹر مولانا عطاءالرحمن، مفتی حاکم علی حقانی اور قومی وطن پارٹی کے ڈسٹرکٹ چیئرمین ولی الرحمن کی طرف سے پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار اختیار ولی خان کی کامیابی کو یقینی بنانے اور حکمران جماعت کو ناک آئوٹ کرنے کے لئے بھر پور انتخابی مہم چلائی گئی۔
جبکہ حکمران جماعت پی ٹی آئی کے ناراض کارکنوں وفاقی وزیر پرویز خٹک کے بھتیجے و سابق تحصیل ناظم احد خٹک اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے بھر پور انتخابی مہم چلائی گئی جس کی وجہ سے پی ڈی ایم کے امیدوار اختیار ولی خان کی کامیابی یقینی ہوئی تاہم پیپلز پارٹی ، قومی وطن پارٹی اور جے یو آئی کی طرف سے حکمران جماعت کی شکست کو یقینی بنانے کے لئے مسلم لیگ کے امیدوار اختیار ولی خان کی حمایت کے باوجود اے این پی کی طرف سے پی ڈی ایم کے امیدوار اختیار ولی خان کی حمایت کرنے کی بجائے پی ڈی ایم کے چار جماعتوں کے مشترکہ امیدوار کی حمایت کرنے کی بجائے پی کے 63 نوشہرہ کے ضمنی الیکشن میں انجینئرمیاں وجاہت کو مقابلہ کے لئے نامزد کیا گیا لیکن اے این پی کے امیدوار نے مسلم لیگ اور پی ٹی آئی کے امیدوار سے کم ووٹ حاصل کئے اور اے این پی کے امیدوار تیسرے نمبر پر رہے جس کی وجہ سے پی کے 63نوشہرہ میں سب سے کم ووٹ حاصل کرنا اے این پی کے لئے بھی بہت بڑا سیاسی دھچکا ہے۔
ضمنی الیکشن میں شاندار کامیابی سے پی ڈی ایم کے کارکنوں کے حوصلے مزید بڑھ گئے ہیں اور پی ڈی ایم کے کارکنوں کی طرف سے پی ڈی ایم کے حوصلے مزید بڑھ گئے ہیں اور پی ڈی ایم کے کارکنوں کی طرف سے پی ڈی ایم کی 26مارچ کو مہنگائی کے خلاف نکالی جانے والی ریلی کےلئے عوام کو متحرک کرنے کے لئے عوامی مہم تیز کر دی گئی ہے۔ چاروں صوبوں میں ضمنی الیکشن میں حکمران جماعت کی شکست سے پی ٹی آئی کے کارکنوں میں مایوسی پھیل گئی ہے پی ڈی ایم کے کارکنوں کی طرف سے کامیابی پر جشن منایا جا رہا ہے جبکہ حکمران جماعت عبرتناک شکست پر ماتم کر رہی ہے۔
پی ٹی آئی کے کارکنوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے عوام نے ایسا ہی کرنا تھا۔ قومی وطن پارٹی کے قائد دو بار وزیراعلیٰ اور دو بار وفاقی وزیر رہنے والے سینئر سیاستدان آفتاب احمد خان شیرپائو قومی وطن پارٹی کو صوبے کی مقبول سیاسی جماعت بنانے کے لئے شطرنج کے ماہر کھلاڑی کی طرح بڑی کامیابی سے سیاسی چال چلتے ہوئے اپنے مہرے آگے بڑھا رہے ہیں۔
سابق وفاقی وزیر نثار محمد خان کے صاحبزادے، پی ٹی آئی کے ریجنل چیئرمین و رکن قومی اسمبلی فضل محمد خان و سابق رکن صوبائی اسمبلی سعید خان کے بھائی اور دو بار ضلع چارسدہ کے بھاری اکثریت سے ڈسٹرکٹ ناظم اعلیٰ منتخب ہونے والے ممتاز سیاسی رہنما نصیر محمد خان کے کئی رہنمائوں و ہزاروں ساتھیوں سمیت قومی وطن پارٹی میں شمولیت، سابق صوبائی وزیر سید ظفر علی شاہ کے بھتیجے، پیپلز پارٹی کے سابق صوبائی صدر و سابق صوبائی وزیر سید ظاہر علی شاہ اور پیپلز پارٹی کی صوبائی ترجمان سینیٹر روبینہ خالد کے کزن فخر سادات سید فیاض علی شاہ، اے این پی کے رہنما سعید خان، پیپلز پارٹی کے سابق رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر فائزہ رشید، پیپلز پارٹی کے رہنما ڈاکٹر افضل فاروق اور پیپلز پارٹی کے بانی رہنما میاں فاروق شاہ کی کئی سیاسی رہنمائوں اور ہزاروں کارکنوں کی قومی وطن پارٹی میں شمولیت کے بعد ہزارہ کے ممتاز سیاسی رہنما و سابق صوبائی وزیر حاجی ابرار حسین تنولی کی کئی سیاسی رہنمائوں اور ہزاروں ساتھیوں سمیت قومی وطن پارٹی میں شمولیت بہت بڑی کامیابی ہے۔
مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نوجوان رہنمائوں و طالب علم رہنمائوں کی قومی وطن پارٹی میں دھڑا دھڑ شمولیت سے اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ آنے والے انتخابات کے بعد صوبے کی سیاست میں قومی وطن پارٹی کا اہم کردار ادا ہو گا۔