• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

سینیٹ انتخابات: حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشمکش عروج پر

سینٹ الیکشن کیلئے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان کشمکش عروج پر ہے ، دونوں فریق اپنے اپنے امید واروں کی کامیابی کیلئے بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں ، حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے درمیان بڑا مقابلہ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور حکومتی امید وار مشیر خزانہ حفیظ شیخ کے ساتھ ہو گا، پیپلزپارٹی نے سید یوسف رضا گیلانی کو کھڑا کر کے بہت بڑا سیاسی رسک لیا ہے ۔ اگرچہ پیپلزپارٹی کے قائد آصف علی زرداری اپنے سیاسی پتے اچھے طریقے سے کھیلنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں ،مگر کبھی کبھی بڑا کھلاڑی بھی مات کھا جاتا ہے ۔ 

پیپلز پارٹی کے ذرائع نے بتایا کہ سید یوسف رضا گیلانی اسلام آباد سے سینٹ کا الیکشن لڑنے سے کترا رہے تھے مگر آصف علی زرداری نے ان پر زور دیا کہ وہ کھڑے ہو جائیں ،انہیں جتوائیں گے جس پر یوسف رضا گیلانی بادل نخواستہ کھڑے ہو گئے اگر وہ جیت گئے تو انکی کامیابی اپوزیشن کیلئے دور رس نتائج کی حامل ہو گی اگر گیلانی صاحب ہار گئے تو پیپلزپارٹی کی عدم اعتماد کی تحریک کے فارمولے کو بھی دھچکا لگے گا اور پی ڈی ایم میں بلاول بھٹو زرداری کے موقف کی سہکی ہو گی اور سید یوسف رضا گیلانی کی ذاتی سیاست اور شخصیت کو بھی زبردست دھچکا لگے گا۔ 

سید یوسف رضا گیلانی کے سینٹ کا الیکشن لڑنے سے پی ٹی آئی کی حکومت دبائو میں آگئی تھی ، وزیر اعظم عمران خان ، وفاقی وزرا ، صوبائی گورنر ، وزرائے اعلیٰ پنجاب ، کے پی کے اور بلوچستان متحرک ہو گئے وزیر اعظم نے اراکین اسمبلی سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا ، وزیر اعظم عمران خان نے اتحادی جماعتوں کے قائدین سے بھی رابطے کئے ناراض لوگوں کو راضی کیا ،اب لگتا ہے حکومت پہلے سے بہتر پوزیشن میں آگئی ہے جسکی وجہ سے آصف علی زرداری نے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور پی ڈی ایم کے قائد مولانا فضل الرحمان سے بھی تازہ ترین رابطے کئے اور ان سے سینٹ الیکشن میں یوسف رضا گیلانی اور دوسرے امید واروں کو بھر پور انداز میں کامیاب کرانے کیلئے تعاون مانگا ہے ،یوسف رضا گیلانی نے بھی مسلم لیگ کی نائب صدر مریم نواز اور مولانا فضل الرحمٰن سے رابطے کیئے ہیں او راسکے بعد وہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سے اہم صلاح مشورے اور اب تک کی صورتحال سے آگاہ کرنے کیلئے کراچی گئے ، حفیظ شیخ اور یوسف رضا گیلانی کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہے۔ 

دونوں کی خرید وفروخت کی تیاریاں شروع ہیں اور مختلف آفرز اراکین اسمبلی کو دی جارہی ہیں خفیہ اداروں نے وزیر اعظم عمران خان کو جو رپورٹ دی ہے اسکے مطابق 60 سے 70 کروڑ روپے فی ووٹ قیمت لگ چکی ہے رپورٹ کے مطابق نوٹوں سے بھرے بھیگ اسلام آباد پہنچ چکے ہیں ، جن ممبران کو آفر کی گئی ہے ان میں سے کئی اراکین نے اپنے وزیر اعظم عمران خان کو بھی آگاہ کر دیا ہے ،وزیر اعظم مختلف تقاریب میں یہ باتیں واشگاف الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ ووٹوں کی خرید و فروخت کی منڈی لگ چکی ہے اور اراکین کو 70 کروڑ اور اس سے زیادہ تک کی پیشکش ہو ئی ہے۔

آصف علی زرداری کو اپنے امید وار کو جتانے کیلئے 15ووٹ خریدنے ہیں اور انکی قیمت دس گیارہ ارب روپے ہے اور پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے لئے اتنی رقم لگانا کوئی مشکل کام نہیں ، ممبران کو یہ بھی پیش کش کی جارہی ہے ،رقم ملک کے اندر دیں یا ملک سے باہر پہنچائی جائے سینٹ میں ووٹوں کی خرید و فروخت کا معاملہ سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کے دوران زیر بحث رہا اور ججوں کے ریمارکس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں ووٹوں کی فروخت کے سامنے کوئی بندتو باندھنا ہو گا۔ 

حکومت اور پی ڈی ایم میں شامل گیارہ سیاسی جماعتوں اور قوم کی نظریں سپریم کورٹ کے فیصلے پر لگی ہوئی ہیں کہ سپریم کورٹ صدراتی ریفرنس کے حوالے سے کیا فیصلہ کرتی ہے ،وزیر اعظم عمران خان صاحب کا یہ موقف درست لگتا ہے کہ پہلے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میثاق جمہوریت میں خفیہ ووٹنگ ختم کرنے کا طے کیا مگر اب اس پر قائم نہیں رہیں ، اگر اوپن بیلٹ سے کرپشن اور دھاندلی کاخاتمہ ہو سکتا ہے تو اپوزیشن کیوں مخالفت کر رہی ہے ، اسکا مطلب ہے ووٹ خرید کر سینٹ میں زیادہ نشستیں حاصل کی جاسکتی ہیں۔ 

جیسے ماضی میں کیا گیا ، بہر حال حکومت اور پی ڈی ایم میں رسہ کشی جاری ہے ،حکومتی وزرا ء 30 سیٹیں جیتنے کا دعویٰ کر رہے ہیں ،دیکھیں الیکشن میں کیا ہوتا ہے ۔پنجاب ،سندھ ،کے پی کے میں ضمنی انتخابات کا انعقاد ہوا، مگر افسو سناک بات یہ ہے کہ پنجاب کے ایک حلقے ڈسکہ میں خونی الیکشن ہوئے اور دو قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔ 

حکومت کے نمائندے عثمان ڈار نے الزام لگایا کہ رانا ثنا ءاللہ مسلح افراد کے ہمراہ پولنگ سٹیشنوں پر آئے گڑ بڑ کی اور انکے بندوں نے فائرنگ کی جسکے نتیجے میں دو معصوم لوگ مارے گئے ۔قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی کی دو دو نشستوں پر انتخاب ہوئے اور ان میں سے کرم کے علاوہ دیگر تین علاقوں سے پی ڈی ایم کے امید وار جیتے ، جبکہ ڈسکہ کا رزلٹ روک لیا گیا ہے تحریک انصاف اپنی جیت اور مسلم لیگ ن والے زپنی کامیابیوں کے وعدے کر رہے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کیا فیصلہ کرتا ہے ۔ 

بہر حال یہ بات حیرت انگیز ہے کہ جن ضمنی حلقوں میں تحریک انصاف کو شکست بھی ہوئی ہے وہاں تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کے امیدوارں کے دونوں کا فرق بہت کم ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین