• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز کو اپنی 73سالہ تاریخ کے کم ازکم دو عشروں میں توانائی کے جس بحران کا سامنا کرنا پڑا اور اس سے ملک صنعتی لحاظ سے جس قدر پیچھے چلا گیا بلکہ 2300ارب روپے سے زیادہ کے گردشی قرضے بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ آج بجلی تو میسر ہے لیکن اس کی ہوشربا اور مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتیں گھریلو صارفین سے لیکر صنعت و تجارت تک زندگی و معیشت کا پہیہ رواں دواں رکھنے میں ایک چیلنج بنی ہوئی ہیں۔ اس وقت بجلی کی کل پیداوار کا 54 فیصد حصہ تیل وگیس جیسے مہنگے ترین ذرائع سے حاصل ہورہا ہے جن کی درآمد پر صرف ہونے والا کثیرزر مبادلہ اس کے علاوہ ہے ۔ ان حالات میں یہ نہایت حوصلہ افزا رپورٹ سامنے آٗئی ہے کہ کوئلے سے بننے والی بجلی جس کا حجم 2018 میں کل پیداوار کا 9.2فیصد تھا جنوری 2021میں بڑھ کر 32فیصد پر پہنچ گیا ہے جسے دیکھتے ہوئے شدید ترین مہنگائی تلے دبے عوام کی یہ توقع بے جا نہ ہوگی کہ حکومت مستقبل میں تیل و گیس کی بجائے اپنا انحصار مکمل طور پر ہائیڈرل ، کوئلہ، ہوا اور دھوپ پر منتقل کرتے ہوئے سستی ترین بجلی کے حصول کو یقینی بنائے گی۔ اس وقت کل حاصل شدہ بجلی کا 27فیصد ہائیڈرل ، پانچ فیصد ہوا اور شمسی توانائی اور جنوری 2021سے پہلے تک 9.2فیصد کوئلے سے حاصل ہوتا آیا ہے جس میں کئی گنا اضافے کی گنجائش موجود ہے۔ عالمی بینک بھی اپنی دسمبر 2020کی رپورٹ میں حکومت کو مشورہ دے چکا ہے کہ وہ ہوا اور شمسی توانائی سے پیدا کی جانے والی بجلی کی استعداد بڑھا کر گردشی قرضوں سے نجات حاصل کرسکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان قلیل و طویل مدتی منصوبوں میں کوئلے اور ہائیڈرل کو شامل کرکےپائیدار ترقی کی بنیاد رکھی جائے۔ بجلی ایک بنیادی ضرورت ہے جس کا سستا ہونا محض خواب نہیں ہونا چاہئے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین