اسلام آباد (انصار عباسی) سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے لیے اضافی ریٹائرمنٹ مراعات رکھی گئیں۔ سرکاری فائلوں میں انکشاف ہوا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائرڈ ججوں کو بھاری پنشن اور دیگر مراعات ملتی ہیں،جس کی منظوری موجودہ حکومت نے دی ہے۔
تفصیلات کے مطابق، اپنی ریٹائرمنٹ سے چند ماہ قبل اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے فل کورٹ سے اپنے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد اضافی سہولتوں اور مراعات کی منظوری حاصل کی تھی اور اس کے بعد وفاقی حکومت نے بھی اس کی منظوری دیدی حالانکہ وزارت قانون اور وزارت خزانہ نے اس اقدام پر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تھا۔
کیس کی سرکاری فائل جو کہ وزارت قانون کو اس وقت کے ڈپٹی رجسٹرار سپریم کورٹ نے بھیجی تھی سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی طور پر اس تجویز پر کچھ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا گیا۔
اگست 2018ء میں عمران خان کے وزیراعظم بننے سے چند روز قبل وزارت قانون نے وزیراعظم آفس کو سمری بھیجی، جس میں سپریم کورٹ کے فل کورٹ کا 7 جولائی، 2018 کو ہونے والے اجلاس کا حوالہ دیا گیا۔
سمری میں کہا گیا کہ فل کورٹ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ چیف جسٹس کو ریٹائرمنٹ کے بعد سہولت فراہم کی جائے گی اور انہیں ایڈیشنل پرائیویٹ سیکرٹری کی خدمات سپریم کورٹ کے بجٹ سے فراہم کی جائیں گی۔
وزارت قانون نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی ہے کہ کسی ریٹائرڈ وفاقی سیکرٹری یا 22 گریڈ کے افسر کو 16 گریڈ کے اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری کی خدمات سرکاری اخراجات پر فراہم کی جائے۔
لیکن سمری میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ بار بار مجوزہ ترمیم (جو کہ 1997 کے صدارتی آرڈر 2 میں کی گئی) پر عمل درآمد کا کہتا رہا۔جب یہ کیس وزارت خزانہ بھجوایا گیا تو اس کے ریگولیشن ونگ نے سپریم کورٹ کی تجویز پر اعتراضات کیے۔
ریگولیشن ونگ نے نشان دہی کی کہ سپورٹ اسٹاف بطور ایڈیشنل پرائیویٹ سیکرٹری / پرائیویٹ سیکرٹری کی سہولت حاضر سروس افسران جو کہ جوائنٹ سیکرٹری، ایڈیشنل سیکرٹری اور سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہوں کے لیے ممکن ہے لیکن ریٹائرڈ افسران کے لیے ایسی کوئی شق نہیں ہے۔
وزارت خزانہ کی فائل میں لکھا گیا کہ وفاقی حکومت پہلے ہی اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائرڈ ججوں بشمول چیف جسٹس پاکستان کو پنشن کی مد میں ہینڈسم رقم اور متعدد سہولیات فراہم کررہی ہے۔
جب کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ نجی مقاصد کے لیے سپورٹ اسٹاف کی سہولت حاصل کرے کیوں کہ ان کا مقصد حکام کے امور انجاد دینا ہے۔
اگر اس تجویز کی منظوری دی جاتی ہے تو اس طرح کے مطالبات دیگر دفاتر جیسا کہ آئینی ادارے جس میں وفاقی شرعی عدالت، ہائی کورٹس، آڈیٹر جنرل آف پاکستان، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین نیب اور پہلے سے ریٹائرڈ اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس وغیرہ کی جانب سے بھی کیے جاسکتے ہیں۔
ایسی صورت حال میں وفاقی حکومت ان مطالبات کو رد نہیں کرسکے گی۔
سیکشن افسر نے اپنے رائے میں لکھا کہ درج بالا وجوہات کے سبب یہ تجویز دی جاتی ہے کہ فنانس ڈویژن اس تجویز کی حمایت نا کرے۔
اس کے بعد یہ فائل فنانس سیکرٹری کو بھجوائی گئی، جنہوں نے اس پر بات کرنے کا کہہ کر اسے واپس ایڈیشنل فنانس سیکریٹری (ریگولیشن) کو بھجوا دی۔
جب ان کی بات ہوگئی تو وزارت خزانہ نے موقف تبدیل کیا اور ایڈیشنل فنانس سیکریٹری (ریگولیشن)، جنہوں نے پہلے سپریم کورٹ کی تجویز منظور نہ کرنے کی تائید کی تھی اور اعتراضات اٹھائے تھے، تجویز کی حمایت کی۔
انہوں نے فائل پر لکھا کہ بات ہوگئی ہے۔ فنانس سیکرٹری سے یہ بات ہوئی کہ چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ چوں کہ ایک آئینی عہدہ ہے اور دیگر آئینی عہدے جیسا کہ صدر پاکستان، صوبائی گورنرز کو ریٹائرمنٹ کے بعد پرائیویٹ سیکرٹریز اور ایڈیشنل پرائیویٹ سیکرٹریز کی بالترتیب خدمات فراہم کی جاتی ہیں لہٰذا ہمیں اس تجویز پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
جس کے بعد ڈرافٹ انڈورسمنٹ فنانس سیکرٹری کو بھجوائی گئی، جس نے 18 ستمبر، 2018 کو اسے منظور کرلیا۔ اگلے ہی روز وزارت خزانہ نے وزیراعظم آفس کو اپنے کسی اعتراض نا ہونے سے آگاہ کردیا۔
وہ عمران خان کی حکومت ہی تھی جس نے 1997 کے صدارتی آرڈر 2 میں 2018 میں ترمیم کی (جو کہ اعلیٰ عدالتوں کی درخواستوں، پنشنز اور مراعات سے متعلق تھا) تاکہ جسٹس ثاقب نثار کو ان کی ریٹائرمنٹ پر اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری فراہم کیا جاسکے۔
اضافی مراعات کے علاوہ چیف جسٹس ریٹائرمنٹ کے بعد مندرجہ ذیل سہولتیں حاصل کرنے کا حق دار ہے ۔
۱) کم قیمت پر سرکاری گاڑی خریدنے کی سہولت۔
۲) تنخواہ کا 85؍ فیصد حصہ بطور پنشن - اس وقت ان کی پنشن 10؍ لاکھ روپے ماہانہ بنتی ہے)۔
۳) تین ہزار مفت لوکل کالز ماہانہ کے ٹیلی فون بل کی ادائیگی۔
۴) دو ہزار یونٹس ماہانہ مفت بجلی کی فراہمی۔
۵) پچیس ہیکٹو میٹرز یونٹس ماہانہ مفت گیس کی فراہمی۔
۶) پانی کی مفت فراہمی۔
۷) ماہانہ تین سو لٹر پٹرول کی فراہمی۔
۸) ایک ڈرائیور اور ایک اردلی یا پھر وہ چاہیں تو ڈرائیور اور اردلی کی تنخواہ اور انہیں ملنے والے وہ تمام الائونسز اور سہولتوں کو ملا کر اسپیشل اضافی پنشن وصول کر سکتے ہیں۔
۹) چوبیس گھنٹے کیلئے ریٹائرڈ جج کی رہائش گاہ پر سیکورٹی گارڈ کی فراہمی کی سہولیات شامل ہیں۔