• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک زمانہ تھا کہ محکمہ ڈاک اپنی بہت سی خامیوں کے باوجود مجموعی طور پر نیک شہرت کا حامل تھا مگر اب یہ محکمہ علم دشمنی کی علامت بن چکا ہے، اس حوالے سے پنجابی کے ممتاز افسانہ نگار اور صحافی جمیل پال نے ہماری توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے، نئی حکومت سے درخواست ہے کہ وہ مسئلے کا فوری نوٹس لے۔ خط ملاحظہ فرمائیں:
مکرمی عطاء بھائی! آپ اپنے کالموں میں پنجابی زبان کے اکھان اور محاورات بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ وہ محاورہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا کہ ’ڈگا کھوتی توں، غصہ کمھیار اتے“ یعنی گرا تو گدھی پر سے لیکن غصہ کمہار پر۔ یہ کہاوت آج کل محکمہ ڈاک، جس کا نیا نام ”پاکستان پوسٹ“ ہے، پر پوری طرح فٹ آ رہا ہے۔ محکمے کی کچھ کالی بھیڑوں کی کرتوت کی سزا رسائل و جرائد کے مدیران کو دی جا رہی ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی پڑھنے کی شرح شرمناک حد تک کم ہے، اوپر سے محکمہ ڈاک کے ایک دو حضرات نے اپنا رعب شعب ڈالنے کے لئے ہمارے ناک میں دم کر رکھا ہے۔
قصہ اس اجمال کا یوں ہے کہ انگریزوں کے زمانے ہی سے محکمہ ڈاک کی طرف سے باقاعدہ شائع ہونے والے رسائل و جرائد کو مخصوص تاریخوں میں رعایتی نرخ پر اپنی مطبوعات بھیجنے کی اجازت ہوتی تھی۔ انگریزوں کے زمانے میں دو پیسے میں ہر اخبار اور رسالہ ہندوستان بھر میں بھیجا جا سکتا تھا۔ اسے رجسٹرڈ ایل نمبر کہا جاتا تھا جس کی ہر سال مفت تجدید ہوتی تھی۔ ہمارے محکمہ ڈاک نے اس کام سے بھی پیسے کمانے کا سوچا اور اس کا نام سی پی ایل نمبر رکھتے ہوئے پہلے اس کے لئے سالانہ پانچ سو فیس مقرر کی جو جلد ہی ایک ہزار کر دی گئی۔ جہاں انگریزوں کے زمانے میں رسالہ پوسٹ کرنے کے لئے تین دن دیئے جاتے تھے۔ ہمارے محکمہ ڈاک نے نئے رسائل کے لئے صرف ایک دن مقرر کر دیا۔ پہلے جی پی او اور دیگر ڈاک خانوں سے بھی ایسی ڈاک پوسٹ کی جا سکتی تھی، اب صرف لاہور ریلوے اسٹیشن والا ڈاکخانہ ہی اس کام کے لئے مخصوصی کر دیا گیا ہے، یعنی محکمے نے اپنی آسانی کے لئے اپنے کلائنٹس کو مشکلات سے دوچار کر دیا۔
چلئے لشٹم پشتم گزارہ ہو رہا تھا لیکن کوئی دو تین برس پہلے محکمہ ڈاک ہی کے کچھ بے ایمان ملازموں نے اس سہولت کی مدد سے مال بنانے کی کوشش کی۔ انہوں نے کچھ غیررجسٹرڈ رسائل کو مکمل ریٹ کی بجائے رعایتی نرخ پر بھیجنے کی سہولت دی اور ظاہر ہے، اس کے بدلے میں مال وصول کیا۔ ایک اطلاع کے مطابق انہوں نے ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ مال بنایا۔ اس کی اطلاع اوپر ہو گئی۔ قانون حرکت میں آیا اور ریلوے سٹیشن والے ڈاکخانے میں کئی ملازموں کی انکوائری اور کئی کی بدلی ہو گئی۔
نئے آنے والوں نے اپنا غصہ ”کمہار“ پر ڈالنے کا فیصلہ کیا اور رسائل کے ذمہ داران کو روز نئے نئے قوانین بتائے جانے لگے۔ رسائل عام طور پر مطبوعہ لفافوں میں بھیجے جاتے تھے۔ نیا حکم ہوا کہ سادہ لفافہ استعمال کیا جائے جس پر نہ تو ”بک پوسٹ“ کے الفاظ لکھے جائیں اور نہ ہی رسالے کا رجسٹرڈ نمبر (سی پی ایل نمبر) لکھا جائے۔
مدیران جرائد نے بلاچون و چراں یہ مطالبہ مان لیا تو محکمہ ڈاک کے افسران کو احساس ہوا کہ یہ تو کوئی رعب ہی نہیں پڑا۔ افسری تو اس حد سے زیادہ بھی منوائی جا سکتی ہے، چنانچہ رسائل کو تلقین کی گئی کہ رسالے کے ہر صفحے پر رسالے کا نام، صفحہ نمبر اور تاریخ یا مہینہ لکھا جائے۔ ڈاکخانے میں دو تین ملازم صرف اس کام کے لئے وقف کر دیئے گئے جو عینک لگا کر ہر صفحے کا نمبر چیک کرتے ہیں اور مس پرنٹ یا صفحہ نمبر نہ ہونے کی صورت میں رسالے والوں کو ”قانون“ سکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر صفحے پر رسالے کا نام اور تاریخ وغیرہ لکھنے کی پابندی دراصل اخبارات اور ایسے رسائل کے لئے تھی جن میں پن نہیں لگی ہوتی لیکن محکمہ ڈاک نے یہ پابندی تمام رسائل پر لگا دی۔
عطا بھائی! رسائل کے جن صفحات پر اشتہارات شائع کئے جاتے ہیں، ان پر روایتی طور پر اشتہار کے سوا کچھ اور نہیں شائع کیا جاتا کیونکہ مشتہر نے اس صفحے کو ”خریدا“ ہوتا ہے، لیکن محکمہ ڈاک کا اصرار ہے کہ اس صفحے پر بھی رسالے کا نام، مہینہ اور صفحہ نمبر شائع کیا جائے۔ یہ بات مشتہرین کے لئے پسندیدہ نہیں ہے، خود میرے ساتھ ایسا ہوا کہ اشتہار کے نیچے رسالے کا نام وغیرہ شائع کرنے پر مشتہر نے اشتہار کے پیسے نہیں دیئے۔ یہ بات سکھا شاہی سے کم نہیں ہے کہ صفحے کے ایک طرف دی گئی معلومات ہمارے پاکستان پوسٹ کی تسلی نہیں کرتی، یعنی صفحہ نمبر 26 پر سب کچھ لکھا ہوا ہو تب بھی وہ نہیں مانتے کہ اس سے پچھلا صفحہ 25 نمبر ہی ہے۔ وہی سرکاری تصدیق کہ آپ نے ماہ مارچ میں تو زندہ ہونے کا سرٹیفکیٹ دے دیا لیکن جنوری اور فروری میں زندہ ہونے کا سرٹیفکیٹ بھی دینا لازم ہے۔
اس سے بڑھ کر سنئے رسالے کا سرورق، پس ورق اور ان کے اندرونی صفحات عام طور پر ایسی معلومات سے خالی ہوتے ہیں لیکن ہمارے محکمے کے ملازمین کا اصرار ہے کہ سرورق اور پس ورق کے اندرون میں بھی رسالے کا نام وغیرہ دیا جائے۔ دو ماہ سے مجھے اسی مشکل کا سامنا ہے۔ بے مغز لوگوں کی بحث سننی پڑ رہی ہے۔ دنیا بھر میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا، بین الاقوامی رسائل نیوز ویک سے لے کر ریڈرز ڈائجسٹ تک اور روسیوں کے ”سپوتنک“ تک دنیا بھر کے کسی بھی رسالے میں ایسی بدسلیقگی نہیں ہوتی کہ اشتہار والے صفحات اور ٹائٹل کے اندرونی صفحات پر بھی رسالے کا نام لکھا جائے نہ ہی اشتہارات والے صفحات پر رسالے کا نام لکھا جاتا ہے لیکن پاکستان پوسٹ کے ریلوے سٹیشن پر مرکز والوں کا خیال ہے کہ ان سے زیادہ عقل مند دنیا بھر میں کہیں بھی نہیں پائے جاتے۔
رسائل و جرائد کے مدیران میں بہت پڑھے لکھے حضرات ہی نہیں، ماہ ناز شعراء اور ادیب بھی شامل ہیں۔ ان میں بہت سے ایم اے پی ایچ ڈی بھی ہیں لیکن پاکستان پوسٹ میں میٹرک تھرڈ ڈویژن کلرک کی ذہنیت ہی چل رہی ہے۔ ایک آدھ شخص نے اسے شاید ذاتی انا کا مسئلہ بنایا ہوا ہے یا پھر وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کا رعب کیسے کیسے لوگ ماننے پر مجبور ہیں۔ دراصل ہم سب لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کا مسلسل شکار رہنے کی وجہ سے اذیت پسند ہو چکے ہیں اور ایک دوسرے کو حسب توفیق تنگ کر کے لذت محسوس کرتے ہیں، لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ہمیں جتنی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ہم دوسروں کو اس سے زیادہ اذیت دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسی طرح ایک اور عقلمندی محکمے کے افسران کی طرف سے یہ بھی ہو چکی ہے کہ محکمے کو معاشی طور پر کامیاب بنانے اور خطوط کی آمد و رفت بڑھانے کے لئے پاکستان پوسٹ کی طرف سے مضامین کے مقابلے کا اہتمام کیا گیا۔ عوام نے اسے مقابلے میں دلچسپی نہیں لی، چنانچہ پوسٹ مین حضرات اور ڈاکخانے کے عملے کو حکم دیا گیا کہ ہر شخص انعامی مقابلے کے موضوع پر دس دس رجسٹرڈ خط محکمے کو بھجوائے۔ نوکری بچانے کے لئے عملے والوں نے خود ہی دس دس رجسٹرڈ خط بھجوا کر اپنی عزت بچائی۔
اس معاملے کو آپ کے واسطے سے سامنے لانے کا مقصد یہ ہے کہ شاید پاکستان پوسٹ کے افسران بالا کو بات سمجھ میں آ جائے اور مجھے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت نہ پڑے۔ پاکستان پوسٹ ایک قومی ادارہ ہے یہ انا کے مارے ہوئے اور ذاتی احکامات چلانے کے شوقین کسی نیم افسر کا ذاتی ادارہ نہیں ہے اور نہ ہی کسی کو اپنی ذ اتی پسند یا مرضی چلانے کا اختیار ہے۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ پاکستان پوسٹ کا باوا آدم علیحدہ ہو جو دنیا بھرمیں ہو رہا ہے، وہی پاکستان میں بھی ہونا چاہئے۔ پہلے ہی ای میل اور پرائیویٹ کوریئر سروسز نے پاکستان پوسٹ سے نوے فیصد کام چھین لیا ہے، کیا محکمے کے بے مغز کلرکان اور چھوٹے افسران باقی دس فیصد سے بھی ہاتھ دھونا چاہتے ہیں؟
آخر میں ظفر اقبال کی تازہ غزل:
گمشدہ بھی رہی اور ڈھونڈ نکالی بھی ہے
ایک تصویر جو اصلی بھی، خیالی بھی ہے
سوچتا ہوں تو بہت دور ہے دنیا تیری
دل میں ہمت بھی نہیں، بے پرواہی بھی ہے
دل کی دیوار پہ تصویر بھی تیری ہے ابھی
یہ وہ گھر ہے جو تیرے خواب سے خالی بھی ہے
اختیار اس کا نہیں گھاس کی پتی پر بھی
یہ جو کہنے کو ترے باغ کا مالی بھی ہے
یہ محبت جسے برباد بھی کرنا ہے کبھی
دل کے اندر کسی گوشے میں سنبھالی بھی ہے
آج پھر اس سے تعارف مرا کروائے کوئی
دیکھی بھالی بھی ہے صورت جو نرالی بھی ہے
بات پر بعد میں قائم جو نہیں رہتا ہوں
اسی خاطر مرا کردار مثالی بھی ہے
اس کے لوگوں سے تو کچھ اتنا سروکار نہیں
پوچھنا تھا، کوئی اس شہر کا والی بھی ہے
دل جو ٹوٹے گا تو آواز بھی آئے گی ظفر
کانچ کی چیز ہے اور ٹوٹنے والی بھی ہے
تازہ ترین