اسلام آباد (طارق بٹ) سینیٹ انتخابات، سپریم کورٹ کی رائے کسی بھی جوڈیشل فیصلے سے کم اہم نہیں ہوگی۔ سابق چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ریاستی ادارہ بشمول الیکشن کمیشن آف پاکستان اس رائے کے خلاف نہیں جاسکتا۔ تفصیلات کے مطابق، سپریم کورٹ کی جانب سے سینیٹ انتخابات کا انعقاد خفیہ یا اوپن بیلیٹ سے ہونے سے متعلق دی جانے والی رائے کسی بھی دوسرے فیصلے کی طرح ہی اہمیت کی حامل ہوگی۔ سابق چیئرمین سینیٹ اور آئینی ماہر وسیم سجاد نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ حکومت کی جانب سے دائر کردہ صدارتی ریفرنس پر رائے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کی جانب سے آئے گی لہٰذا اس کی اہمیت معمول کے کسی بھی فیصلے جتنی ہی ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی ریاستی ادارہ بشمول الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) بھی اس رائے کے خلاف نہیں جاسکتا۔ ممکنہ طور پر یہ رائے آج دی جائے گی۔ وسیم سجاد کا کہنا تھا کہ سینیٹ انتخابات، عام انتخابات یا لوکل باڈیز الیکشنز کی طرح کا عمل نہیں ہے۔ ای سی پی کو سپریم کورٹ کی رائے پر عمل درآمد میں کوئی مشکلات نہیں ہوں گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ای سی پی کم تعداد میں بیلیٹ پیپرز لے سکتا ہے، جس کی ضرورت الیکٹورل کالج کے ارکان کے لیے ہوگی اور جو کہ حال ہی میں پرنٹ کیے گئے ہوں گے۔ ان بیلیٹس کی ضرورت ارکان قومی اسمبلی اور سندھ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے قانون سازوں کے لیے ہوگی۔ اس کی ضرورت پنجاب اسمبلی کے لیے نہیں ہوگی کیوں کہ تمام گیارہ سینیٹرز وہاں سے بلامقابلہ منتخب ہوچکے ہیں۔ ایک اور قانونی ماہر کا کہنا تھا کہ اگر ای سی پی نئے پیپرز پرنٹ کرنا نہیں چاہتا تو وہ اپنے ریکارڈ میں الیکٹورل کالج کے ہر رکن کا نام لکھ سکتا ہے، جسے موجودہ بیلیٹ پیپر جاری کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح بعدازاں پارٹی سربراہ اس قابل ہوجائے گا کہ کون سا قانون ساز تھا جو کہ پارٹی ہدایات کے خلاف ووٹ ڈال کر آیا تھا۔ حفاظتی اقدامات کے طور پر حکومت نے فروری کے پہلے ہفتے میں ایک مشروط صدارتی آرڈیننس جاری کیا تھا جو صرف اسی صورت موثر ہوسکتا ہے کہ جب سپریم کورٹ یہ رائے دے کہ سینیٹ انتخابات اوپن بیلیٹ کے ذریعے ہوں گے۔آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ یہ رائے دے کہ سینیٹ انتخابات آئین کے آرٹیکل 226 کے دائرہ کار میں نہیں آتے تو یہ انتخابات مارچ میں منعقد ہوں گے اور اس کے بعد اس کا انعقاد ای سی پی اوپن اور قابل شناخت بیلیٹ کے ذریعے کرواسکے گا۔ جب کہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان انتخابات کے بعد اگر سیاسی جماعت کا سربراہ ای سی پی سے یہ درخواست کرے کہ وہ ان کی پارٹی کے کسی بھی رکن کے ڈالے گئے ووٹ کو دکھائے تو ای سی پی اسے یا اس کے نامزد امیدوار کو ووٹ دکھائے گا۔ 1985 سے کہ جب سے سینیٹ کو دوبارہ متعارف کروایا گیا، اس کے تمام انتخابات خفیہ بیلیٹ کے ذریعے ہوئے۔ یہ سوال کہ آئین نے سینیٹ انتخابات کے حوالے سے خفیہ ووٹنگ کی وضاحت نہیں کی ہے کبھی پیدا ہی نہیں ہوا اور نا ہی یہ معاملہ کبھی اعلیٰ عدلیہ میں گیا۔ حکومت نے سپریم کورٹ میں دسمبر، 2020 کے آخری ہفتے میں ریفرنس دائر کیا تھا۔ عدالت اپنی رائے صدر عارف علوی کو بھجوائے گی۔ 25 فروری کو جب عدالت نے اپنی رائے محفوظ کی تھی۔ تو ای سی پی کے وکیل نے درخواست کی تھی کہ رائے 28 فروری سے قبل دی جائے تاکہ سینیٹ انتخابات کے انعقاد کا عمل بروقت ممکن ہوسکے۔ عدالت میں اپنے موقف پر صوبائی حکومتوں نے ان سیاسی جماعتوں کی پیروی کی جن کی حکمرانی اس صوبے میں ہیں۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا کے وکلا نے ریفرنس کی حمایت کی اور اوپن بیلیٹ کا مطالبہ کیا، جب کہ سندھ کے ایڈوکیٹ جنرل نے خفیہ رائے شماری جاری رکھنے کا مطالبہ کیا۔ جب کہ وکلا کی معروف ایسوسی ایشنز نے سپریم کورٹ سے گزارش کی کہ سینیٹ انتخابات خفیہ ووٹنگ کے ذریعے ہونے چاہیئے اور اوپن ووٹنگ کی اجازت نہیں دینی چاہیئے۔ جب سے سینیٹ انتخابات کے حوالے سے یہ تنازعہ پیدا ہوا ہے، حکومتی رہنما بار بار میثاق جمہوریت کا حوالہ دے رہے ہیں جس پر لندن میں مئی، 2006 میں بےنظیر بھٹو اور نوازشریف نے دستخط کیے تھے اور اس میں سینیٹ میں اوپن اور قابل شناخت ووٹنگ پر اتفاق کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد اپوزیشن جماعتوں کو یہ یاددہانی کروانا ہے کہ اوپن ووٹنگ کی مخالفت کا مطلب اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹ جانا ہے۔