• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی ڈائری، حفیظ شیخ PTI کے رکن ہیں نہ ووٹ دینا غداری

اسلام آباد(محمد صالح ظافر/ خصوصی تجزیہ نگار) ڈاکٹر حفیظ شیخ نے تحریک انصاف سمیت حکمران اتحاد کی کسی پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کی انہیں ٹیکنوکریٹ کی پہچان دی جا رہی ہے ہر چند تحریک انصاف نے انہیں نامزد کیا ہے کوئی پارٹی کسی بھی امیدوار کو نامزد کرسکتی ہے اس کیلئے پارٹی کارکن ہونا شرط لازمی نہیں، الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق میں بھی ایسی کسی پابندی کا حوالہ موجود نہیں اگر تحریک انصاف کے ارکان انہیں ووٹ نہیں دیتے تو ان پر پارٹی سے ’’غداری‘‘ کا الزام عائد نہیں کیا جا سکے گا۔

 ضرور کہا جا سکے گا کہ انہوں نے پارٹی کے ایک حکم نامے کو نظرانداز کر دیا تھا جس پر ’’اپنے‘‘ امیدواروں کے ناموں کا اندراج تھا۔

حفیظ کو اسلام آباد سے سینیٹ کی اکلوتی مردانہ نشست کیلئے میدان میں اتارا جا چکا ہے اور فیصلے کی گھڑی بھی آن پہنچی ہے یہ سوال بار بار اٹھایا جا رہا ہے کہ انہیں پنجاب، سندھ سمیت کسی صوبے کی بجائے اسلام آباد کی نشست سے آزمائش کیلئے کیوں چنا گیا؟ جہاں مقابلہ یقیناً سخت درپیش ہے اب جبکہ انکے مدمقابل سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کھلے بندوں کہہ چکے ہیں کہ غیر مرئی قوتیں غیر جانبدار ہیں تو پھر یہ سوال اُٹھ رہا ہے کہ ڈاکٹر حفیظ کے ممدوحین انہیں سینیٹ کی رکنیت میں سرخروئی سے محروم رہنا کیونکر برداشت کر سکیں گے۔

صدارتی ریفرنس سے آرڈیننس تک کا حرف مدعا ڈاکٹر حفیظ شیخ اولین ترجیح تھے اب آئندہ دو دنوں میں دکھائی نہ دینے والی پھرتیوں کا ایک مرتبہ پھر مظاہرہ ہوا تو وہ قرار عنقا ہو جائے گا۔

جس نے ماحول کو قدرے قابل برداشت بنا دیا ہے اس سے پھر دمادم مست قلندر شروع ہونے کا احتمال ہے۔ پنجاب میں سینیٹ کی رکنیت کیلئے انتخابی مقابلہ نہ ہونے سے لاہور کی رونقوں کو گزند پہنچی ہے۔ اس کا تعلق بھی اسلام آباد کی نشست سے ہے پی ڈی ایم کو ابتدائی تخمینوں میں توقع بھی ہے کہ وہ پنجاب سے چھ اور اگر ’’دعائوں‘‘ نے اثر کیا تو سات نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیگی۔

اس نے پانچ نشستوں پر اکتفا کیا کہ ایک نشست پاکستان مسلم لیگ قاف کو مل گئی جسے ’’متناسب‘‘ کے اصول پر یہ نشست نہیں ملتی تھی یہاں مسلم لیگ نون نے قربانی دی اور مسلم لیگ، قاف کی طرف سے اسلام آباد کی نشست پر اُدھار چکانے کی یقین دہانی کرائی۔

اس سے ملتا جلتا سودا سندھ میں ایم کیو ایم سے پیپلز پارٹی، پی ڈی ایم کی طرف سے کر رہی ہے جس کھچڑی میں زیادہ مصالحے کی بات ہو رہی تھی اور جس کا ذائقہ ناپسندیدہ بتایا جا رہا تھا وہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں پک رہی ہے اس کیلئے باورچی کوئٹہ اور پشاور پہنچ چکے ہیں پیر کی دوپہر تک اس کی دیگ کا ڈھکن نکل جائے گا۔

فی الوقت توجہ کا مرکز اسلام آباد بن کر رہ گیا ہے جہاں آئندہ اڑتالیس گھنٹوں میں دیدنی اور نہ دیدنی سرگرمیوں سے قومی سیاست کا نیا رُخ متعین ہو گا۔ متحدہ حزب اختلاف پی ڈی ایم کو اپنے امیدوار مخدوم سید یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کی توقع ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ اس دوران ہونے والی ’’گفتگو‘‘ کا محور وہ حالات ہونگے جو سینیٹ کے انتخابات کے نتیجے میں رونما ہونگے۔

غیر جانبداری کا بھاری پتھر چوم کر رکھنے کیلئے نہیں سجایا گیا اور نہ ہی اس سے حاصل شدہ فوائد کو محض ایک نشست کیلئے ضائع کیا جائے گا۔ اگر ڈاکٹر حفیظ شیخ کو چن کر اسے شکریئے کا موقع نہ دیا گیا تو اس عالمی مالیاتی ادارے سے راہیں جدا ہو سکتی ہیں۔ اس تاثر کو بھی قبول نہ کیا گیا تو پھر نتائج کی ذمہ داری اس پر عائد ہو گی جو اسے سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔

تازہ ترین