رانا فوروہر
دھوپ اور کاروباری دوستانہ آب و ہوا نے متمول امریکیوں کو شمالی شہروں سے فلوریڈا اور ٹیکساس جیسی ریاستوں کی جانب طویل عرصے سے اپنی جانب متوجہ کیا ہوا ہے۔تاہم، نیویارک اور کیلی فورنیا میں ٹیکسوں، قواعدوضوابط اور بائیں بازو کی سیاست کے بڑھتے ہوئے خوف کے ساتھ کووڈ19 کے معاشی اثرات کے تصادم کے نتیجے میں موسمی پرندوں کے غول(کاروباری افراد) بڑی مقدار میں شمال سے جنوب کی جانب دولت کی نقل مکانی کررہے ہیں، جس سے ملازمتوں اور عوامی شعبوں کے بجٹ پر مضراثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
میامی خاص طور پر ان کی منزل بن گیا ہے جسے کچھ لوگ بڑے پیمانے پر ٹیک کی ہجرت کہہ رہے ہیں۔سان فرانسسکو، ہیوسٹن اور نیویارک سٹی جیسے ڈیجیٹل کاروبار کے مراکز سے ایگزیکٹو اپنے کاروبار کو ان کی نظر میں زیادہ کاروبار دوست مقامات کی جانب منتقل کررہے ہیں۔ بلیک اسٹون گروپ، ایلیٹ مینجمنٹ،آئیکن انٹرپرائزز، سیٹاڈل اور گولڈ مین ساکس جاپانی گروپ سافٹ بینک میں شامل ہوچکے ہیں اور متعدد اسٹارٹ اپ سان فرانسسکو بے ایریا سے ملازمتیں اور سرمایہ کاری جنوبی فلوریڈا منتقل کررہے ہیں۔
میامی کے میئر فرانسس سواریز ٹیکس کریڈٹ، کم شرح سود پر قرض اور کاروبار کے لئے دیگر معاشی مراعات کے ذریعے ان کے لئے آسانیاں فراہم کررہے ہیں۔ایک طرح سے یہ یہ بڑی کمپنیوں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لئے شہروں کے آپس کے مقابلے میں نئی پیشرفت ہے جس سے زیادہ سے زیادہ ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔1990ء کی دہائی سے امریکا میں ریاستی اور شہری کاروبار میں اس طرح کی سبسڈیز تین گنا بڑھ چکی ہیں،جیسا کہ ہر علاقہ نئی سلیکون ویلی ( پتلی گلی) بننے کی کوشش کررہا ہے۔
بعض اوقات یہ کاگر ہوتا ہے،جیسا کہ آسٹن، ٹیکساس یا ریلی ڈورہم، شمالی کیرولینا میں۔ تاہم اکثر اوقات یہ نچلی سطح کی دوڑ بن جاتی ہے، جس میں ترقی کے خواہشمند شہر پراپرٹی بریک یا ملازمت کے مواقع پیدا کرنے کے لئے ٹیکس کریڈٹ میں وصولی کے مقابلے میں کہیں زیادہ حصہ دیتے ہیں۔(اپجوہان انسٹی ٹیوٹ کے 2017 کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اس قسم کے وقفے پیش کردہ کل مراعات کا تقریباََ 70 فیصد بنتے ہیں)۔اس کا نتیجہ نیچے کی جانب جانے والا سائیکل ہے جس میں اچھی عوامی خدمات اور مستحکم تعلیمی نظام کا مطالبہ کرنے والی کمپنیاں ان ٹیکس بیس کو ختم کردیتی ہیں جو ان سے پیدا ہوا ہے۔
میامی شمال کے بڑے معاشی مراکز سے ملازمتوں اور سرمائے کا لالچ کرنے والا تنہا نہیں ہے۔ کام کرنے کے حقوق کے قوانین کی بدولت امریکا میں گزشتہ چند عشروں میں مینوفیکچرنگ سے متعلق متعدد ملازمتیں وسطی مغرب سے جنوب کی جانب منتقل ہوگئیں، جو مؤخرالذکر علاقوں میں کام کے مقام کی یونینوں کو کمزور بناتے ہیں۔
متعدد شمالی علاقوں کے مقابلے میں سورج کی پٹی پر واقع ٹیکساس، ایری زونا اور فلوریڈا میں کم قیمت رہائش اور کم ریگولیشن کا لالچ بھی رکھتے ہیں۔ملکن انسٹی ٹیوٹ کے ایک نئے سروے کے مطابق مختلف شہری علاقوں میں ملازمتوں، اجرتوں اور ہائی ٹیک میں اضافے سے باخبر رہنا، اعلیٰ مغربی ریاستوں اور شہروں جیسے یوٹاہ اور اوڈھایو اورجنوب میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
پوسٹ کووڈ ادراک کا ایک حصہ یہ ہے کہ فاصلے پر بیٹھ کر کتنا کام ہوسکتا ہے۔وبائی مرض کے بعد کام کے مستقبل کے بارے میں مک کینسی گلوبل انسٹی ٹیوٹ کے ایک حالیہ مطالعے کے مطابق عالمی جی ڈی پی کے 62 فیصد کی نمائندگی کرنے والی آٹھ جدید معیشتوںکے 20 سے 25 فیصد کارکن اپنے گھربیٹھے فرائض ادا کرسکتے ہیں۔
سی ای او پہلے ہی ان کی درکار کمرشل رئیل اسٹیٹ کے دوبارہ جائزے کے ذریعے ان کی ممکنہ لاگت کے فوائد اٹھارہے ہیں۔اس کی ایک مثال سیلزفور ، یک ایسی کمپنی ہے جس نے اپنی لینڈ مارک آفس کی عمارتوں کو مارکیٹنگ اور بھرتی کے ٹول کے طور پر استعمال کیا، اور اس نے سان فرانسسکو ہیڈکوارٹر سمیت بہشتر شہروں میں دفاتر کی جگہ کم کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔
مشرقی و مغربی ساحل پر بڑی مالیت والے افراد کے ایک ویلتھ مینیجر نے مجھے حال ہی میں بتایا کہ وہ یوٹاہ، ٹیکساس، بہاماس اور سوئٹزرلینڈ کے پارک سٹی میں کلائنٹس کے بڑےپیمانے پر اخراج کو دیکھ رہے تھے۔ٹیکس کی کم شرح ، اسکی اور سورج کی روشنی کیلئے مواقع واضح چارہ ہیں۔
ایم جی آئی کے مطابق وسکونسن میں میڈیسن،فلوریڈا کے شہر جیکسن ویل، یوٹاہ کے سالٹ لیک سٹی میں گزشتہ سال کے دوران سب سے زیادہ اندرونی سے بیرونی بہاؤ کا سب سے بڑا تناسب دیکھا تھا۔وبائی مرض سے بری طرح متاثرچھوٹے شہر اور ریاستیں بے ٹھکانہ پوسٹ کووڈ ڈیجیٹل کے نئے کلیدی گروہ کے لئے سخت مقابلہ کررہی ہیں۔
تلسا، اوکلاہوما دور بیٹھ کر کام کرنے والے کارکنوں کو 10 ہزار ڈالر اور اگر وہ ایک سال کے لئے نقل مکانی کرتے ہیں تو کام والے مقامات تک رسائی حاصل کرنے کی پیشکش کررہی ہیں۔ہوائی مفت ہوائی جہاز کے کرائے،ہوٹل کے رعایتی کمرے اور کام کیلئے جگہ کے ساتھ مختلف شعبوں کے ماہرین کو اپنی جانب راغب کررہا ہے۔
یہاں ایک پیچیدگی ہے کہ اگرچہ جو لوگ بحرالکاہل جزیرے کی ریاست میں نقل مکانی کرتے ہیں، انہیں مقامی خیراتی اداروں کے ساتھ رضاکارانہ کام کرنا پڑتا ہے۔یہ ایک عمدہ خیال ہے، جیسا کہ اس میں بہت زیادہ خطرہ ہے کہ تمام ٹیکس بیش کارکردگی اور اسکی کے بنگلے سے کام کی منتقلی کے نتیجے میں مقامی آبادی میں عدم مساوات اور ایندھن کی آزردگی میںاضافہ ہوگا۔
آٹومیشن اور ڈیجیٹل ورک میں اضافے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا امکان ہے کہ کووڈ19 بہتر اجرت والے شعبوں میں ملازمتوں مزید اضافہ کرے گا اور کم اجرت والے کاموں کی ملازمتوں کا حصہ کم کرے گا۔یہ ایک خوشخبری بھی ہوسکتی ہے، تاہم صرف اسی وقت جب ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے تربیت یافتہ کارکن کافی تعداد میں موجود ہوں۔
صرف ٹیکس بریک کو حوالے کرنے کے علاوہ میں میامی جیسے شہروں کو اس بات پر اصرار دیکھنا پسند کروں گی کہ بڑی ٹیک اور فنانس کمپنیاں اس علاقے میں اخر مقامی تعلیم، انفرااسٹرکچر اور رہائشی سہولتوں کو بہتر بنانے کے لئے کچھ کریں۔فنانشل ٹائمز کے متعدد قارئین جنوبی ساحل کی تعیشات سے واقف ہیں، تاہم یونائیٹڈ وے کے ایک مطالعے کے مطابق میامی ڈیڈ کاؤنٹی کے 37 فیصد باشندے رہائش، نقل و حمل، صحت کی دیکھ بھال، بچوں کی نگہداشت اور مناسب براڈ بینڈ کے متحمل ہونے کی جدوجہد کررہے ہیں۔
یہ حسرت بھرے سلیکون بیچ کے لئے اچھی صورت حال نہیں ہے، آئیے امید کرتے ہیں کہ مختلف مہنگے اور غیرمساوی ساحلی مراکز کے ٹیکسوڈس آخر میں شہروں میں محض اپنے معاشی اور سیاسی مسائل کو محض دہرائیں ، حتیٰ کہ ان پر قابو پانے کی صلاحیت بھی کم ہو۔