• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

توقیر عائشہ

وہ مسافر لڑکی مختصر سامان کے ساتھ بس میں داخل ہوئی اور اُسی نشست کی طرف بڑھی، جہاں زین اپنی ماں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ اس نےکچھ گھبرا کر ،الجھے ہوئے لہجےمیں کہا ’’معاف کیجیے گا، مگر یہ سِیٹ میری ہے۔‘‘ ’’اوہ شیور‘‘ زین فوراً ہی اٹھ کھڑا ہوا اور ساتھ ہی بس نے بھی روانگی کا ہارن بجا دیا۔ یوں ماں کو الوداع کہہ کر وہ بس سے اُترا اور پارکنگ میں کھڑی اپنی برانڈ نیو گاڑی میں جا بیٹھا۔ رابعہ بیگم نے اپنی ساتھی مسافر پر ایک نگاہ ڈالی اور اندازہ لگالیا کہ وہ طالبہ ہے۔

بس اندرونِ سندھ جارہی تھی۔ بس چلی تو رسمی علیک سلیک کے بعد دونوں میں باتوں کا سلسلہ بھی چل نکلا۔ یوں رابعہ بیگم کو معلوم ہوا کہ اُن کی ساتھی مسافر، شہلا شہر کی جامعہ میں شعبۂ صحافت میں زیرِ تعلیم ہے اور سیمسٹر بریک میں اپنے گھر جارہی ہے۔ رابعہ بیگم نے اپنے بارے میں مختصراً بس یہی بتایا کہ وہ اپنےسسرال جا رہی ہیں۔ اب وہ اُسے حقیقت تونہیں بتا سکتی تھیں کہ سادہ کاٹن سوٹ میں ملبوس ، ملتانی کڑھائی والی چادر اوڑھے اورمسافر کا روپ دھارے وہ کون ہیں۔

رابعہ بیگم والدین کی اکلوتی اولاد تھیں۔ان کے والد شہر کے معروف ٹرانسپورٹر تھے، ان کی انٹر سٹی کوچز دن رات محوِ سفر رہتیں۔ رابعہ بچپن ہی سے لاڈلی ہونے کے ساتھ انتہائی ذہین اور پڑھائی میں بہت اچھی تھی۔ مگر بچپن ہی میں والدہ کی مامتا سے محروم ہوگئی کہ مختصر علالت کے بعد ہی وقار احمد کی زوجہ دونوں باپ، بیٹی کو تنہا چھوڑ کر خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ وقت گزرتا گیا اور رابعہ نے گریجویشن کرلیا۔ اب سیٹھ وقار کو اپنی بیٹی کے لیے لائق فائق بَر کی تلاش تھی۔

ویسے تومنافع بخش کاروبار اور جائیداد کی اکلوتی وارث کا ہاتھ تھامنے والوں کی کمی نہیں تھی، مگر وقار احمد سب کی نظریں پہچانتے تھے۔ اسی اثنا انہوں نے بیٹی کو اپنے کاروبار میں شامل کرنے کا بھی فیصلہ کر لیا۔ رابعہ کو بھی یہ مصروفیت بہت بھلی لگی۔ اس نے بہت جلد دفتری اُمور سیکھ لیے اور اس کے نِت نئے آئیڈیاز نے سیٹھ وقار احمد کے کاروبار کو خُوب وسعت بخشی ۔ وہ ہمیشہ کہتے ’’رابعہ جیسی بیٹی ہر گھر میں ہو، تو کسی باپ کو کبھی بیٹے کی کمی محسوس نہیں ہو سکتی۔‘‘ مگر وہ اپنے فرض سے بھی جلد از جلد سبک دوش ہونا چاہتے تھے۔ اسی دوران ایک نئے رُوٹ کے آغاز پر انہوں نے پورے اسٹاف کو عشائیہ دیا۔

جہاں شائستہ اطوار، ریحان ملک ،جو تین سال سے ان کے پاس ملازمت کر رہا تھا، انہیں بھا گیا۔پھر قریبی دوست کے ذریعے معاملات بھی طے پا گئے اور وقار احمد نے بیٹی کو رخصت کر دیا۔ شادی کے سال بعد رابعہ اور ریحان کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی، جس نے بوڑھے نانا سمیت والدین کی زندگی بھی مکمل کر دی۔ وقت گزرتا گیا سیٹھ وقار احمد اپنا تمام تر کاروبار بیٹی کے سپرد کرکے ریٹائر ہوگئے، اب ان کا زیادہ تر وقت زین کے ساتھ ہی گزرتا۔اورپھر دیکھتے ہی دیکھتے گھر بھر کی آنکھوں کا تارا، ننّھا زین بھی میکینیکل انجینئر بن گیا ۔

کچھ دنوں سے رابعہ کے ذہن میں ایک آئیڈیا سر اُٹھا رہا تھا، وہ اپنی ٹرانسپورٹ سروس کا معیار جانچنے کے لیے کسی پروٹوکول کے بغیر تنِ تنہا عام مسافر بن کےسفر کرنا چاہتی تھیں۔ کچھ غور وفکر کے بعد طے پایا کہ وہ مختصر رُوٹ پر دن کے اوقات میں سفر کریں گی۔ سو،اسی منصوبے کوعملی جامہ پہنانے کے لیے وہ یہ سفر کر رہی تھیں، جس میں ان کی ملاقات شہلا سے ہوئی۔ ’’یہ بس سروس کیسی ہے؟ہمیں وقت پر پہنچاتودے گی ناں؟‘‘ رابعہ نے شہلا نے سوال کیا۔’’جی، جیسی سب بسیں ہوتی ہیں، ویسی ہی ہے۔‘‘ جواب مایوس کُن تھا، گویا ان کی سروس میں کوئی انفرادیت نہیں تھی۔ 

اب بس شہری حدود کراس کرکے ہائی وے پر ہم وار رفتار سے چل رہی تھی۔ کچھ دیر بعد کنڈکٹر نےسواریوں کے پاس آکر پردے برابر کرنے کو کہا۔ ’’اُف! بس شروع ہو گئی مصیبت۔‘‘ شہلا نے تلخی سے کہاتو رابعہ بیگم چونک اُٹھیں۔ ’’کون سی مصیبت بیٹا؟‘‘’’تھوڑی دیر میں آپ کو خود پتا چل جائے گا۔‘‘شہلا نے مختصر جواب دیا۔ اورکچھ ہی دیر میں بس میں لگی ٹی وی اسکرین پر بے ہودہ گانے چلنے لگے،جنہیں دیکھ کر رابعہ کے تو ہوش ہی اُڑ گئے۔ ’’ایک مرتبہ میرا بھائی ساتھ سفر کر رہا تھا تو جب یہ گانے چلے تو اس نے ڈرائیور سے بند کرنے کو کہا، جس پر کنڈکٹر سمیت ڈرائیور نے بھائی سے خوب بد تمیزی کی اور کچھ مسافر بھی ڈرائیور کا ساتھ دینے لگے،مجبوراً بھائی کو چُپ ہونا پڑا۔ ‘‘ شہلا نے افسردہ لہجے میں کہا۔ 

رابعہ بیگم کادل توچاہا کہ اُسی وقت بس کے عملے کو جھاڑ پلا دیں، مگر انہوں نے اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے شہلا سے پوچھا ’’ بیٹا! آپ نے مالکان تک بات کیوں نہ پہنچائی؟‘‘ ’’انہیں مسافروں کی مشکلات سے کیاغرض۔ وہ تو اپنی ذاتی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔ ہاں، آئے دن کرایہ بڑھا کر اپنا منافع ضرور پورا کرتے رہتےہیں ۔ جب میں صحافی بن کر فیلڈ میں آؤں گی تو ضرور اس سنجیدہ موضوع پر آواز اٹھاؤں گی۔‘‘ باتوں باتوں میں انہوں نے اپنا نمبر بھی شہلا کو دے دیا ،لیکن شہلا نے اپنا نمبر دینے سے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ’’ابھی میں طالبہ ہوں،ایک وقت آئے گا کہ اپنا ملاقاتی کارڈ کسی کو بھی دے سکوں گی۔‘‘بات معقول تھی ، تورابعہ بیگم بھی مسکرا دیں۔

سفر ختم ہوا۔ کھڑکی سے رابعہ نے دیکھا توان کےدیور کے ساتھ زین بھی انہیں لینے آیاہوا تھا۔ ’’شریر لڑکے! تم میرا پیچھا کرتے یہاں تک پہنچ گئے۔‘‘’’ماما! کیا ہم لوگ آپ کو اکیلا چھوڑ دیتے‘‘سسرال میں کچھ دن گزار کر وہ لوگ واپس آگئے۔ آفس جاتے ہی انہوں نے میٹنگ کال کی، جس میں یہ طے پایا کہ اب کسی بھی بس میں فلمز، گانے نہیں چلیں گے کہ مسافروں، بالخصوص خواتین کومحفوظ اور پُر سکون ماحول ملنا چاہیے۔ 

نیز، تمام بسز میں خواتین کی نشستیں بھی مقرر کر دی جائیںگی۔ یہ فیصلہ اُن کے حق میں اس قدر بہترین ثابت ہوا کہ زیادہ سے زیادہ خواتین نے ان کی بس میں سفر کرنا شروع کردیااور ان کی کمپنی پاکستان کی ٹاپ ٹرانسپورٹ کمپنی بن گئی۔

آج شہر کے پنج ستارہ ہوٹل میں کاروباری شخصیات کو ایوارڈز دینےکی تقریب منعقد ہو رہی تھی، جس میں مُلک کی دس ممتاز بزنس ویمن کو بھی اعزازات سے نوازا جا رہا تھا، انہی خواتین میںایک نام رابعہ بیگم کا بھی تھا ۔میزبان انہیں خواتین کا رول ماڈل قرار دے رہی تھی کہ کیسے مَردوں کے اس معاشرے میں انہوں نے سر پہ چادراوڑھ کر ایک منفرد مقام بنایا اور اپنے والد کے کاروبار کو دوام بخشا۔ پھر رابعہ بیگم کو دعوتِ خطاب دی گئی۔ رابعہ نے حاضرین میں بیٹھے اپنے اہلِ خانہ کو دیکھا اور گویاہوئیں ’’جس طرح میرا شعبہ یہاں موجود کئی خواتین کے شعبوں سےمختلف ہے، اسی طرح میرے خیالات بھی ان سے خاصےمختلف ہیں۔ 

عورت اور مرد ایک دوسرے کے حریف نہیں اور نہ ہی ان کے درمیان کوئی محاذ آرائی ہے۔ اگر ٹرانسپورٹ کی زبان میں مثال دوں تو کوئی بھی گاڑی چاروں پہیے آگے لگا کر نہیں چل سکتی، دو کو تو لازماً پیچھے لگنا ہی ہوتا ہے۔ کبھی آپ نے سوچا کہ اللہ نے عورت کی تخلیق کے لیے پسلی کا انتخاب کیوں کیا؟ اس لیے کہ شانوں کی مضبوط ہڈیاں پسلی کی حفاظت کرتی ہیں اور دل سے قربت ،محبت اور نگہداشت کا تقاضا کرتی ہیں۔ مجھے یہ دونوں حصار میّسر آئے، ورنہ مَردوں سے برابری کی جنگ مجھے احترام، توجہ اور حفاظت سے محروم کر دیتی۔آج مَیں جس مقام پر ہوں، وہاں پہنچنے میں میرے والد اور شوہر نے قدم بہ قدم ساتھ دیا۔ 

کبھی جو مَیں لڑکھڑائی تووہی میری ڈھال بنے۔دنیا کا کوئی کام ایسا نہیں، جوعورت نہ کر سکےاور ہمارے معاشرے کی عورت تو ویسے بھی بہت مضبوط اور خود دار ہے۔ سو، ہمیں خواتین کو آگے بڑھانے میں مدد دینی چاہیے، انہیں مَردوں کا حریف بنا کر مغرب کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔ ‘‘ ان کی باتیں ختم ہوئیں تو پورا ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔ 

تقریب کا اختتام ہوا تو اس سے پہلے کہ رابعہ اپنی نشست سے اُٹھتیں ، ایک خاتون صحافی ان کی طرف بڑھی اور ان کے خیالات کی تعریف کرتے ہوئے اپنا ملاقاتی کارڈ رابعہ کی طرف بڑھایا۔ ’’دیکھیے، اب مَیں اس قابل ہوگئی ہوں کہ اپنا وِزیٹنگ کارڈ کسی کودے سکوں۔ کیا آپ کے انٹرویو کے لیے وقت مل سکتا ہے؟‘‘

انہوں نے وزِیٹنگ کارڈ پر نام پڑھا’’شہلا صدیق‘‘ اور شناسائی کی مسکراہٹ دونوں کے لبوں پر دَوڑ گئی۔ کچھ دن بعد شہلا صدّیق رابعہ کے گھر پر ان کا تفصیلی انٹرویو لے رہی تھی اور رابعہ بھی ایک ’’خاص زاویے‘‘ سے اس کا انٹرویو لے رہی تھیں کہ آخر وہ بزنس وومن ہونے کے ساتھ ساتھ ایک برسر ِروزگار بیٹے کی ماں بھی تو تھیں اور پھر… کچھ ہی دن بعد شہلا اُن کے گھر کی فرد بن گئی۔

تازہ ترین