• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پختونخوا کی اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف سرگرم

ملک بھر کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی سینٹ اور حالیہ ضمنی نتخابات کے باعث جہاں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم اندرونی محاذآرائی کا شکار ہوچکی ہے وہاں پی ڈی ایم اور حکومت کے درمیاں بھی محاذ آرائی شروع ہوچکی ہے ،ضلع نوشہر میں سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے آ بائی حلقہ پی کے 63کے ضمنی انتخابات میں پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار اختیار ولی کے مقابلے میں اے این پی کی جانب سے امیدوار میدان میں اتارنے سے پی ڈی ایم اور اے این پی کے درمیان سیاسی فاصلے بڑھنے لگے ہیں کیونکہ مشترکہ فیصلے کے باوجود اے این پی کی جانب سے پی ڈی ایم کے امیدوار کے مقابلے میں امیدوار لانے سے پی ڈی ایم میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے اور عین ممکن ہے کہ پی ڈی ایم سینٹ انتخابات کے بعد اس حوالے سے کوئی قدم اٹھائے۔

ادھر نوشہرہ سے مسلم لیگ ن کے منتخب امیدوار صوبائی اسمبلی اختیار ولی نے صوبائی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے حلف اٹھالیا ہے اور صوبائی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں انہوں نے حکمران جماعت تحریک انصاف کی خوب کلاس لی ہے، انہوں نے جب اجلاس میں پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے کارکنوں کا شکریہ ادا کیا تو صوبائی وزیر شوکت علی یوسفزئی نے شکوہ کیا اور کہا کہ اختیار ولی کو پی ڈی ایم کے کارکنوں کے علاوہ تحریک انصاف کے ان کارکنوں کا بھی شکریہ اداکرنا چائیے جنہوں نے آپ (اختیارولی ) کو ووٹ دیا ہے،ضمنی کے انتخابات میں حکمران جماعت کی پے درپے شکست کے بعد سینٹ کے انتخابات کے حوالے سے بھی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی محازآرائی کا آغا ز ہوچکا ہے اور دونوں ایک دوسرے پر سینٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کےا لزامات لگارہے ہیں۔

تاہم اس حوالے سے صورت حال سینٹ انتخابات کے بعد واضح ہوگی ،تاہم سینٹ انتخابات کا سب سے زیادہ صوبے میں پی ٹی آئی کے ناراض اراکین کو وہاں جنہیں حکومت نے دوبارہ منالیا ہے اورعین ممکن ہے کہ سینٹ انتخابات کے بعد صوبائی کابینہ میں مجوزہ ردبدل کی صورت میں کچھ نئے وزرا کو بھی شامل کیا جائے،جہاں تک سینٹ انتخابات کا تعلق ہے تو ماضی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے تبدیلی کی دعویدار حکمران جماعت سمیت اپوزیشن جماعتوں نے بھی پارٹی کے دیرنہ اورنظریاتی کارکنوں کی بجائے ارب پتی امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے۔

صوبائی الیکشن کمیشن کی جانب سےان انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی فہرست جاری کی جاچکی ہے جس کے بعد خیبرپختونخوا سے سینٹ کی بارہ نشستوں میں 7جنرل نشستوں کے لئے گیارہ،خواتین کی دو مخصوص نشستوں کے لئے پانچ ،ٹیکنوکریٹس کی د و مخصوص نشستوں کے لئے بھی پانچ جبکہ غیرمسلم اقلیتوں کےلئے مخصوص دو نشستوں کے لئے چار امیدوار میدان میں رہ گئے ہیں،صوبائی الیکشن کمشن کی جانب سے جاری ہونےوالی امیدواروں کی حتمی فہرستوں کے مطابق صوبےسے سینٹ کی سات جنرل نشستوں کے لئے تحریک انصاف کے وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز، ذیشان خانزادہ،فیصل سلیم رحمان ،محس عزیز ،لیاقت ترکئی،اے این پی کے ہدایت اللہ خان ،جے یو آئی کے مولانا عطاالرحمان ،طارق خٹک،مسلم لیگ ن کے عباس خان ،بلوچستان عوامی پارٹی کے تاج محمد آفریدی ،جماعت اسلامی کے عطا الرحمان، ٹیکنو کریٹس کی دو مخصوص نشستوں کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر ،تحریک انصاف کے دوست محمد خان ،محمد ہمایون مہمند ،اے این پی شوکت جمال امیرزادہ ،اور جماعت اسلامی کے محمد اقبال خلیل،خواتین کی دو مخصوص نشستوں کے لئے تحریک انصاف کی ثانیہ نشتر،فلک ناز،اے این پی کی تسلیم بیگم، جے یو آئی کی نعیمہ کشور اور جماعت اسلامی کی عنایت بیگم ،غیرمسلم اقلیتوں کے لئے مختص دو مخصوص نشستوں کے لئے جماعت اسلامی کے جاوید گل ،اے این پی کے آصف بھٹی ،جے یو آئی کے رنجیت سنگھ جبکہ تحریک انصاف کے گوردیپ سنگھ شامل ہیں۔

ملکی تاریخ میں ہونے والے سینٹ کے ان غیر معمولی انتخابات میں کس کا پلڑہ بھاری ہے اور کس کاکمزور،کامیابی کا تاج کس کے سر سبجے گا اور ناکامی کس کا مقدر بنے گی،یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا اگرصوبائی اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کی عددی اکثریت پر نظر ڈالی جائے توبات واضح ہوجاتی ہےکہ ترازو کا پلڑہ کس کے حق میں بھاری ہے،مگر اس کے باوجود حکمران سیاسی جماعت سمیت بعض دیگر جماعتیں بھی خوفزدہ ہیں کہ کہیں ان کے اراکین سلپ نہ ہوجائے۔

اسی خوف کے باعث خیبرپختونخوا میں ہونےوالے سینٹ کے ان انتخابات میں سیاسی’’ اپ سیٹ‘‘ کےامکان کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے،یہی وجہ ہے کہ صوبے میں سینٹ انتخابات کے حوالے سے،کہیں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں تو کہیں حکمرن جماعت سمیت بعض سیاسی جماعتیں اپنے اراکین کو قابو کرنے میں مصروف میں، انہی انجانے خوف کے باعث پنجاب کے بعد خیبرپختونخوا میں بھی سینٹ امیدواروں کے بلامقابلہ انتخاب کے لئے بھی پس پردہ کوششیں کی جارہی ہیں،تاکہ مطلوبہ اہداف حاصل کئے جاسکے،حیرت کی بات یہ ہے کہ سینٹ کے انتخابات پورے ملک می ہیں مگر حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ بعض اپوزیشن جماعتوں کی نظر یں خیبرپختونخوا سے سینٹ کی بارہ نشستوں پر مرکوز ہیں،وزیراعظم سینٹ انتخابات کے حوالےسے صوبے کادورہ کرکے واپس جاچکے ہیں۔

سابق وزیراعلیٰ اور سیاسی جوڑتوڑ کے ماہر وزیر دفاع پرویزخٹک کئی روز پشاور میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں ،پی پی پی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی پشاورکا دورہ کرکے پہنچ پارٹی کی قیادت اوراراکین کے ساتھ ملاقاتوں کے علاوہ اے این پی کی صوبائی قیادت کے ساتھ بھی ان کی ملاقاتوں کی اطلاعات ہیں کیں۔

دیگر سیاسی جماعتیں بھی ان انتخابات کے حوالے سے سرگرم عمل ہیں ہر جماعت کی کوشش ہے کہ اپنے اپنے امیدواروں کی کامیابی یقینی بنائے، مگر سینٹ کے انتخابات کے لئے سیاسی سرگرمیوں اور رابطوں سے قطعہ نظر بعض غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی سینٹ انتخابات کے حوالے سے ووٹوں کی خرید وفروخت کی اطلاعات آرہی ہیں ان غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق ارب پتی امیدواروں نے تجویریوں کے منہ کھول رکھے ہیں ,جو بعض سیاسی جماعتوں کے اندرونی اختلافات او راراکین کی ناراضگی سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں ،خصوصاًحکمران جماعت تحریک انصاف میں سینٹ کے لئے پارٹی ٹکٹ کی تقسیم اور پارٹی کے نظریاتی کارکنوںکی بجائے ارب پتی اور پیراشوٹر ز کو میدان میں اتارنے سے پی ٹی آئی کوسیاسی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین