• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی میں لفظی گولہ باری ختم نہ ہوسکی

سندھ سینیٹ انتخاب کے دوران جوڑتوڑ کا گڑھ رہا۔ تمام سیاسی جماعتیں جو کل تک ایک دوسرے پر سنگین کرپشن، چوری، بیڈگورنس کے الزامات عائد کررہی تھیں تمام باتوں کو بالائے طاق رکھ کر ایک دوسرے سے رابطے کئے ۔پی پی پی نے اپنے ارکان کے اعزاز میں عشائیے ، ظہرانے دیئے تو پی ٹی آئی نے ایم کیو ایم، جی ڈی اے کے ارکان کو کھانے پر مدعو کیا جبکہ جی ڈی اے کے ارکان نے ادارہ نورحق کا دورہ کرکے جماعت اسلامی سے حمایت مانگی تو پی پی پی نے ایم کیو ایم کے مرکز جاکر یوسف رضاگیلانی کے لیے حمایت مانگی اور بدلے میں انہیں سینیٹ کی دونشستوں کی پیشکش کردی اس پیشکش پر ایم کیوایم کے ارکان دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئے ایک دھڑے کا موقف تھا کہ ہم سات سال سے سندھ میں اپوزیشن میں ہیں اور اب دو نشستوں کے بدلے وفاداری تبدیل کرنے کا مطلب وزیراعظم پر عدم اعتماد ہے جبکہ دوسرا دھڑا اسے سنہری موقع قرار دے رہا تھا۔ 

ایم کیو ایم کے پاس موقع تھا کہ وہ جس معاہدہ کی بنیاد پر حکومت میں شامل ہوئی ہے اس کے بعض نکات پر عملدرآمدکرائے ۔اس ضمن میں ایم کیو ایم کے دو اجلاس ہوئے ۔ ایم کیو ایم نے پہلے ہی تاثر دیا کہ وہ حکومت کے خلاف بھی جا سکتی ہے تاہم بعد میں حفیظ شیخ ،فہمیدہ مرزا اور امین الحق نے مشترکہ پریس کانفرنس میں حکومت کے امیدوار حفیظ شیخ کی حمایت کا اعلان کر دیا۔پی پی پی نے اپنے ارکان سندھ اسمبلی کو کراچی میں رہنے کی ہدایت جاری کی جبکہ ایم کیو ایم جی ڈی اے کے ارکان کو ایک ہوٹل میں منتقل کر دیا گیا تاکہ ان ارکان سے کوئی رابطہ نہ کرسکے۔ 

اس کے باوجود تحریک انصاف کے دو ارکان سندھ اسمبلی حلقہ پی ایس 18 گھوٹکی سے شہر یار خان شہر اور حلقہ پی ایس 100 شرقی کراچی سے کریم بخش گبول نے سینیٹ انتخابات میں اپنے پارٹی امیدواروں کو ووٹ نہ دینے کا اعلان کردیا ہے اور کہاہے کہ آئین ان کو آزادانہ ووٹ کی اجازت دیتا ہے ۔ ہماری پارٹی کی سندھ پر توجہ نہیں ہے اور ہم سے امیدواروں کے حوالے سے کوئی مشاورت نہیں ہوئی ہے سینیٹ کے انتخاب نے ظاہر کردیا کہ کسی بھی سیاسی جماعت کو اپنے ارکان پر اعتماد نہیں ۔ 

پی ٹی آئی کے ارکان نے جس میں سابق وزیراعلیٰ لیاقت علی جتوئی سرفہرست ہے پی ٹی آئی کے امیدوار سیف اللہ ابڑو پر پیسے دے کر ٹکٹ حاصل کرنے کا الزام عائد کیا جبکہ سیف اللہ ابڑو نے لیاقت جتوئی کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کیا پی ٹی آئی کے ناراض ارکان نے گل محمد رند کی رہائش گاہ پر ایک اجلاس بھی منعقد کیا جہاں انہوں نے گورنرسندھ عمران اسماعیل کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ 

اجلاس میں پارٹی قیادت کو خط بھیجنے کی منظوری دی گئی، جس میں کہا گیا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات میں گورنرسندھ نے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت نہیں کی، جب کہ ملیر، سانگھڑ اور تھرپارکر میں ناقص حکمت عملی کی وجہ سے تحریک انصاف کو ضمنی انتخابات میں نہ صرف شکست ہوئی بلکہ ملیر اورسانگھڑ میں ضمانت بھی ضبط ہوئی ہے ۔سینیٹ انتخاب نے پی ٹی آئی کی تنظیمی کمزوریوں کو نمایاں کیا ادھر سندھ اسمبلی کے اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن بینچوں کے درمیان کشیدگی بدستور برقرار ہے، جمعہ کو ایوان کی کارروائی کے دوران دونوں جانب کے ارکان ایک دوسرے سے الجھ پڑے اور معاملہ ہاتھاپائی تک پہنچ گیا، ہنگامہ آرائی کے دوران فریقین نے ایک دوسرے کے خلاف غیرپارلیمانی ریمارکس بھی پاس کیے، ایک دوسرے کو دھمکیاں دیں اور مغلظات بھی بک ڈالیں، اسپیکر نے اسمبلی اجلاس ملتوی کردیا۔

پی ٹی آئی کے رکن خرم شیر زمان نے نشاندہی کی کہ شہر میں کتے کاٹنے کے واقعات بڑھ گئے ہیں اور لگتا ہے کہ سندھ میں کتوں کا راج ہے، خرم شیرزمان کے اس جملے پر حکومتی ارکان بپھرگئے اور وزیر پارلیمانی امورمکیش چاؤلہ نے اسپیکر سے کہاکہ فاضل رکن سے کہیں کہ وہ اپنی زبان قابو میں رکھیں۔ ایوان میں شور شرابہ شروع ہوگیا اور حکومت اور اپوزیشن کے ارکان ایک دوسرے سے الجھ پڑے کشیدگی کے دوران پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کے ارکان ایک دوسرے کے سامنے آگئے اور معاملہ ہاتھا پائی تک پہنچ گیا، پیپلزپارٹی کے چوہان چانڈیو مشتعل ہوکر پی ٹی آئی کے ارکان کی جانب بڑھے تو انہیں پی ٹی آئی کے عمرعمری نے آگے بڑھنے سے روکنے کی کوشش کی، فیاض بٹ بھی آپے سے باہر ہوگئے اس موقع پر صوبائی وزیر تیمور تالپور نے پی ٹی آئی کے رکن سے کہاکہ ادھر آؤ تمہیں بتاتا ہوں ، اس دوران اسپیکر آغا سراج درانی ارکان کو مسلسل یہ کہتے رہے کہ پلیز بیٹھ جائیں اور دعا کا احترام کریں لیکن ارکان نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔

سندھ اسمبلی کے دوسرے اجلاس میں بھی یہی فضا رہی اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ کے خطاب پر ایوان میں شورشرابہ برپا ہوا حلیم عادل شیخ نے خطاب میں حکومت سندھ، پیپلزپارٹی کی قیادت اور وزیراعلیٰ سندھ کو آڑے ہاتھوں لیااور اپنی گرفتاری اور خود کو تشدد کا نشانہ بنانے پر پولیس اور سندھ حکومت پر سنگین الزامات عائد کئے جس پر پیپلزپارٹی کے ارکان جن میں خواتین اراکین بھی شامل تھیں سخت اشتعال میں آگئیں اور انہوں نے اپوزیشن لیڈر کے خلاف مخالفانہ نعرے اور قابل اعتراض ریمارکس دینا شروع کردیئے جس سے ایوان میں شدیدشورشرابہ شروع ہوگیا اور ہنگامہ آرائی کے دوران کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ 

حلیم عادل شیخ شورشرابے کے دوران تقریر کرتے رہے ان کا کہنا تھا کہ میں نے مرادعلی شاہ کی کرپشن بے نقاب کی ہے۔ اس کی وجہ سے سندھ حکومت میری دشمن بن گئی ہے ، اسپیکر نے اپوزیشن لیڈر سے کہاکہ انہوں نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے آپ کے پروڈکشن آرڈر جاری کئے جس پر آج آپ یہاں موجود ہیں، آغاسراج درانی نے کہاکہ ہماری قیادت کا یہ حکم ہے کہ کسی بھی رکن اسمبلی کو اس کے آئینی حق سے محروم نہ کیا جائے، اسپیکر کی گفتگو کے دوران بھی ایوان میں شورشرابے کا سلسلہ بند نہ ہوا تو آغاسراج درانی نے ایوان کی کارروائی ملتوی کردی۔

سندھ اسمبلی اجلاس کے دوران تادم تحریر مفاد عامہ کی کوئی بات نہیں ہوسکی، حکومت اوراپوزیشن آپس میں دست وگریباں رہے۔ ادھر مسلم لیگ(ن) کے سینئرنائب صدر شاہدخاقان عباسی نے کراچی کا دورہ کیا اور ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئےشاہد خاقان عباسی نے کہا کہ (ن) لیگ ملک میں جمہوریت کی بقاء کے لئے کھڑی ہے کل تک ملک دشمن کہلانے والی سیاسی جماعتیں آئین کی بحالی کے لئے پی ڈی ایم کا حصہ ہیں۔ جمہوریت ہی ملکی ترقی کی ضامن ہے۔ ملک تجربات سے نہیں آئین پر عمل کرنے ے چلے گا ۔

تازہ ترین
تازہ ترین