• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن
یہ ویک اینڈدنیا میں عورتوں کے عالمی دن کے حوالے سے منایا جارہا ہے اور اس کی تقریبات آنےوالے ویک اینڈ تک جاری رہیں گی۔ کورونا کی وجہ سے برطانیہ اور یورپ میں تو خواتین کے اجتماعات کم ہونے کا امکان ہے۔ البتہ پاکستان اور دیگر ایشیائی ممالک میں ذرا کم اور محتاط تو ہے لیکن یورپ کی طرح بالکل معطل نہیں ہے۔ یورپ میں ٹیکنالوجی سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئےWebinarsکا سلسلہ جاری ہے۔ دنیا بھر کی خواتین اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی نہ کسی پلیٹ فارم سے کرۂ ارض کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک اپنی آواز پہنچا رہی ہے۔ آج فقط یورپ ہی نہیں دنیا بھر کی عورت کو احساس ہوچکا ہے کہ نہ تو وہ آدمی ہے اور نہ ہی وہ مردوں کے اس معاشرے میں کسی کلنک کے ساتھ جی سکتی ہے۔ نہ ہی وہ اپنے اوپر کسی قسم کا تشدد برداشت کرسکتی ہے، نہ ہی وہ اپنے بارے میں پرانے اور روایتی کمتر مخلوق سمجھنے کے تصور کو قبول کرنے کیلئے تیار ہے۔ وہ برابری کے مواقع اور حقوق کے ساتھ پر امن طریقے سے رہنا چاہتی ہے۔ اس سال کے عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر کووڈ کی وبا سے اس نے لڑکے دنیا بھر میں جو عظیم الشان مثالیں قائم کی ہیں۔اس سے ثابت ہوگیا ہے کہ عورت نہ صرف لیڈر شپ کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے بلکہ دنیا کو برابری کا مستقبل دکھا سکتی ہے۔ گو کہ آج بھی اتنے شعور اور آگہی کے باوجود بے شمار شعبہ ہائے زندگی میں عورت کی نمائندگی بہت کم ہے۔ اس جنسی برابری کے لئے ابھی عورت کا کافی لمبا سفر باقی ہے۔ کورونا نے طرز زندگی تبدیل کرکے رکھ دیا ہے جس میں ہم نے دیکھا ہے کہ اس وبا کے خلاف لڑائی میں عورت کے کردار کو بہت قابل تعریف گردانا گیا ہے۔ عورت نے فرنٹ لائن پر رہتے ہوئے ہسپتالوں اورہیلتھ سنیٹرز میں اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہوئے بڑھ چڑھ کے حصہ لیا اور تاحال یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ ابھی یہ لڑائی تو کافی دیر تک لڑنی ہے۔ اسی لیے آج اس تحریک میں فقط جنسی فرق نہیں بلکہ پوری نسل کی برابری کی بات ہورہی ہے۔ عورت کا اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد کا اظہار کوئی بہت پرانا قصہ نہیں ہے جبکہ استحصال کی تاریخ گزشتہ صدیوں پر محیط ہے۔ جب عورت نے پہلی بار نیویارک میں 1909 میں اپنا نیشنل وومن ڈے منایا۔ اس سے پہلے روسی تاریخ میں بیان کیا گیا ہےکہ روس کی ٹیکسٹائل ورکز نے اپنے کام کے اوقات اور میڈیکل سہولتوں کے حوالے سے ہڑتالیں تو کیں لیکن ابھی عورت کا عالمی دن منانے کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ یہ دن مانا فقط تہوار نہیں ہےبلکہ یہ ہمہ وقت عورت کے حقوق کی تحریک کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ جس میں جنسی حوالے سے عورت کے مقام اور حقوق کے حصول کیلئے ریاستی سطح پر احساس دلانا مقصود ہےتاکہ عورت کو کمتر اور کمزور سمجھ کے اس کو حقوق سے محروم نہ کیا جائےعورت کے بارے میں معاشرے میں اس کی Perceptionکو تبدیل کرنا ہے۔ کچھ معاشروں میں جب عورت کے حقوق کی بات کی جاتی ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے تو مرد عورت کو تقدس اور احترام کا درجہ دینا شروع کردیتا ہے کہ عورت، ماں، بیٹی، بہن ہے لیکن وہ اس لئے مقدس ہے کہ وہ مرد کی غیرت ہے۔ عورت وہی آزادی اور مقام مانگتی ہے جو مرد کو معاشرہ پیدائشی طور پر دیتا ہے مرد اسے احترام اور تقدس دینے کو تیار ہے لیکن حقوق نہیں۔ عورت کو وارثت سے محروم رکھنا بھی عام سی بات ہے بلکہ عورت کے حصہ مانگنے پر بھائی حضرات زندگی بھرکی ناراضگی مول لے لیتے ہیں۔ برصغیر میں یہ مرض عام ہے۔ عورت اپنے بارے میں آزاد انہ فیصلہ کرنا چاہیے تو اس کے کردار پر زبان کھلنا شروع ہوجاتی ہے۔ تعلیم کا حصول اس کی فیملی کی رضا پر منحصر ہے۔ یہی صورتحال اس کی ملازمت اور دوست احباب کا سرکل منتخب کرنے پر ہے۔ اسے کسی سے اور کب ملنا ہے کتنی دیرکیلئے ملنا ہے۔ وہ اس میں اس طرح سے آزاد نہیں جس طرح لڑکے کو آزادی حاصل ہوتی ہے ۔ یہ کوئی ایک دو یا چند چیزیں نہیں بلکہ ایک پورا مائنڈ سیٹ ہے جس کےخلاف عورت کی جدوجہد جاری و ساری ہے۔ غریب اور پسماندہ معاشروں کے مقابلے میں آج کے ترقی یافتہ معاشروں عورت نے کچھ شعبوں میں حقوق حاصل کئے ہیں۔ لیکن دنیا کی بہت بڑی آبادی کے حصے میں حقوق اور آزادی کے حصول کی جدوجہد کا سفر کا طویل ہے جو باقی ہے۔ پاکستان میں ابھی عورت مارچ کا اہتمام کیا جارہا ہے ،سوشل میڈیا پر ان کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ ان کے نعروں کو بے حیائی سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ انہیں مادر پدر آزاد معاشرے کی نمائندہ کہا جاتا ہے۔ اس کو بےنقاب کرنا اور عورت کی آواز کو سمجھنا آج کے روشن خیال لوگوں اور مین اسٹریم میڈیا کا فرض ہے۔
تازہ ترین