ضلع خیرپور سندھ کا قدیم شہر ہے جو سکھر سے 25کلومیٹر جنوب میںجب کہ کراچی سے 345کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔قیام پاکستان سے قبل یہ آزاد ریاست تھی جسے 1955 میں پاکستان میں ضم کردیا گیا۔اس کی تاریخ انتہائی قدیم ہے۔1786ء میں میر سہراب خان تالپور نے اس شہر کو اپنا پایہ تخت بنایا۔ میر سہراب خان کے بعد میر رستم تالپور، میر علی مراد تالپور، میر فیض محمد تالپور اور میر امام بخش تالپور خیرپور ریاست کے حکمراں رہے۔ جہاںانہوں نےاپنے اقتدار کومستحکم کرنے کی تگ و دو کی ،وہیں نئے قلعے اور عمارتیں بھی تعمیر کروائیں۔
تالپور حکم راں فن تعمیر سے گہری دل چسپی رکھتے تھے اور ان کی عمل داری میں بہترین معمار اور فن نقاشی کے ماہرین رہائش پذیر تھے ۔ ان کے دور حکومت میں ’’قبو ‘‘یعنی خوب صورت مقابر تعمیر کرائےگئے، جن میں میران تالپورکے مقبرے شامل ہیں۔ میرسہراب خان تالپور نے کوٹ ڈیجی کا قلعہ تعمیر کروایا۔ان کا ایسا ہی تعمیراتی شاہکار’’ فیض محل‘‘ ہے۔خیرپور شہرکے شمال مغرب میں واقع فیض محل سابقہ خیرپور ریاست کے تالپور حکمرانوں کی وہ عظیم یادگار ہے، جس کی مثال پورے برصغیر پاک و ہند میں کم ہی ملے گی۔
اس خوب صورت محل کی تاریخ دو سوسال پرانی ہے، اس کی تعمیر خیرپور کے شاہی خاندان تالپور میرس نے 1798 میں کروائی ۔یہ آرام گڑھ اور ’’لکھی محل ‘‘ کے نام سے بھی معروف ہے۔ اسے مغلیہ طرز تعمیر اور آرٹ ورک کا بہترین شاہکار سمجھا جاتا ہے۔
میر فیض محمد خان تالپور ریاست خیرپور کےچوتھےحکم راں تھے،جوہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ انہیں فنون لطیفہ سے بےانتہا لگائو تھاجس کا لازوال عکس فیض محل میں دکھائی دیتا ہے۔ یہ پرشکوہ عمارت اپنے حسن اور طرز تعمیر کے باعث میران خیرپور کے تاریخی ورثے کا ایک نادر نمونہ ہے۔ میر فیض محمد خان تالپور 1894ء سے 1909تک ریاست خیرپور کے حکمران رہے۔ان کے اس تعمیری شاہ کار کو ان کے نام کی مناسبت سے فیض محل کا نام دیا گیا۔ کیوں کہ اس دور میں اس عظیم الشان عمارت کی تعمیر پر ایک لاکھ روپے لاگت آئی تھی اس لیے اسے ’’ لکھی محل ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔
فیض محل دو منزلہ عمارت ہے، جو لال اینٹوں سےتعمیر کی گئی ہے، جب کہ اس کا اگلا حصہ ہندوستان کے شہر جے پور سے منگوائے گئے زرد پتھروں سے سجایا گیا ہے، ان پتھروں کی سجاوٹ اور چمک دمک میں اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی کوئی فرق یا تبدیلی نہیں آئی ۔ محل کا مرکزی ہال سرکاری تقاریب اور دربار کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، روشن دانوں سے سجائے گئے اس خوب صورت ہال میں اس دور کا فرنیچر، جھولے اور نایاب اشیاء آج بھی موجود ہیں۔دروازے، کھڑکیوں سمیت جتنی بھی چیزیں اس میں ہیں وہ سب دیار، ساگوان، پرتل اور چلغوزے کی لکڑی سے بنی ہوئی ہیں، اتنا عرصہ گزرجانے کے باوجود یہ اشیاء آج بھی نئی لگتی ہیں۔
فیض محل میں ڈائننگ ہال بھی بنا ہواہے۔ ہال کے دونوں اطراف اخروٹ کی لکڑی سے بنوائی گئی ، ڈائننگ ٹیبل بناوٹ کے لحاظ سے بے حد عمدہ اور بے مثال ہے۔اس شان دار محل کے آگے مغلیہ طرز کا ایک باغ بھی بنایا گیا ہے، جو تقریباً بیس ایکڑ رقبےپر پھیلا ہوا ہے، کشادہ باغ میں املتاس، شیشم، کھجور کے درخت فضاء کو اور بھی خوش گوار بناتے ہیں۔ محل کی دائیں اور بائیں جانب توپیں نظر آتی ہیں۔ مرکزی ہال کی دیواروں پر تالپور حکمرانوں سے لے کر ان تمام ملکی شخصیات کی تصاویر آویزاں ہیں ، جنہوں نےفیض محل کے دورے کیے۔ ان میں پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم لیاقت علی خان اور فیلڈ مارشل محمد ایوب خان بھی شامل ہیں۔
اگرچہ حکومت اور محکمہ قدیم آثار و محکمہ ثقافت کی عدم توجہی کے باعث ہمارا تاریخی ورثہ زبوں حالی کا شکار ہے، مگر کچھ عمارتیں وقت کے ستم کےباوجود اپنا وقار اور شناخت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ آج بھی فیض محل میں ہر ایک شے کو اپنی اصل حالت میں برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے، تاکہ اس تاریخی ورثے کو دیکھ کر گزرے زمانے کی یاد تازہ کی جاسکے۔ اسے دیکھنے والے اس دور کو یاد کرتے ہیں جب یہ عمارت ایک ریاست کی شان و شوکت کی علامت تھی۔اس میں عجیب سا سحر ہے، جو خیرپورکی سیر کے لیے آنے والے افراد کو اپنی طرف کھینچ لیتاہے۔
اس محل کی بناوٹ اور فن تعمیر کی مہارت کو دیکھ کر کوئی بھی شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا، اس کے مختلف حصوں میں گھومنے کے دوران اس خوب صورت محل کی کشش آنے والوں کو جکڑ لیتی ہے۔مغلیہ فن تعمیر کا نمونہ ، یہ عمارت خیرپور ریاست کی سب سے نمایاں عمارت رہی ہے۔ خیرپور ریاست کے دفاع کے لیے فوج بھی تھی مگر ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کے بعد اس ریاست کو 1955ء میں پاکستان میں شامل کیا گیا جس کے بعد خیرپور ریاست کا وجود ختم ہوا اور اس نے ایک شہر کی حیثیت حاصل کرلی۔
آج بھی فیض محل میں ہر ایک شے کو اپنی اصل حالت میں برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے تاکہ اس تاریخی ورثے کو دیکھ کر گزرے زمانے کی یاد تازہ کی جاسکے۔