• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہماری سیاست کا معروف اصول یہ ہے کہ یہاں کوئی اصول نہیں ہے۔ پاکستانی سیاسی تاریخ کا غیر سنجیدگی سے اگر مطالعہ کیا جائے تو ایسے شاہکار لطیفے سامنے آ جائیں کہ عوارض قلب میں مبتلا صاحبان ذوق شفایاب ہو جائیں، مگر سیاست کا تعلق چونکہ حیات واحد کے بجائے قوم کے جسد اجتماعی سے ہے لہٰذا سنجیدگی بہرصورت تقاضائے وطن ہے۔ ہماری سیاست کی شاہراہ حوادث کے جس آتش سے تپتی رہی ہے، وہ خام سے خام مواد کو بھی کندن بنانے کیلئے کافی ہے لیکن ہم نے ان سارے تجربات کا ماحصل محض یہ جان لیا ہے کہ ملک و قوم کی گاڑی تو جہاں رکی ہے سو یہی اس کا مقدر ہے۔ البتہ جو موقع ہاتھ آیا ہے اسے اپنا مقدر سنوارنے کا ہی وسیلہ بنا لیا جائے اور یک نکاتی ایجنڈے کے تحت عدیم الفرصتی میں اتنا کما لیا جائے کہ جو فرصت میں کام آئے۔ باالفاظ دیگر ایسے موقع پرستوں کا پاکستان اول و آخر میاں بیوی بچوں پر مشتمل ہے۔ اب جب ”پاکستان“ اتنا محدود اور وسائل اس قدر لا محدود ہوں تو پھر اصولوں کی تجارت میں کیا مضائقہ!؟ اور یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں تو موقع پرستی کا کاروبار بام عروج سے یوں عریاں بوسہ زن ہے کہ حیا دار بھی رشک کرنے لگے ہیں اور وہ بھی دہڑا دہڑا حواس باختگی میں اپنے اصول تہہ خاک لاتے ہوئے اپنی خزاں رسیدہ زندگی کی ویرانیوں کو لالہ زار بنانے کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ جلدی میں اس لئے ہیں کہ کہیں رات بوڑھی نہ ہو جائے!؟ اب جب ماجرا یہ ہو کہ نہ صرف یہ کہ برائی کو برائی نہ سمجھا جائے بلکہ اس میں خود کو شامل رکھنے ہی میں عافیت سمجھی جائے تو پھر کسی بے اصول تیرہ خاکدان سے نجات کیونکر ممکن ہے! جب عالم، علم و فن کا یہ ہو کہ بے اصولی کو اصول قرار دینے کیلئے توجیہات کے انبار تراش لئے جائیں تو پھر برائی پر فخر کرنے والے روز افزوں کیوں نہ ہوں گے!
گزشتہ شب منیب فاروق کے پروگرام ”آپس کی بات“ میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے متعدد رجال ذی شان کی ”ایک مرتبہ پھر“ مسلم لیگ (ن) میں قبولیت کے تناطر میں جو استدلال پیش کیا اس پر پروگرام میں شریک حامد میر و میزبان زیر لب مسکراہٹ کو باوجود کوشش کے قابو میں نہ لا سکے۔
احسن اقبال کا کہنا یہ تھا کہ یہ لوگ پرویز مشرف کے وفادار تھے لیکن اب انہوں نے ہمارے نظریات سے رجوع کر لیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ نظریات ہیں کیا!؟ یہ درست ہے کہ سیاستدانوں کا کوئی جماعت چھوڑ جانا اور پھر اس میں دوبارہ شمولیت اختیار کرنا کوئی انوکھی بات نہیں۔ دنیا بھر میں ایسا ہوتا رہتا ہے لیکن یہ عمل جس قاعدے و اصول کا پابند تصور کیا جاتا ہے ہمارے ہاں اس کے شواہد نہیں ملتے۔ یوں یہ جائز عمل معیوب ٹھہرتا ہے۔ ایک سیاسی جماعت سے دوسری جماعت میں جانے اور پھر مراجعت کیلئے ضابطے متعین ہیں اور واپس آنے والا شرمساری کے بجائے وہ قوی قابل قبول دلائل بھی اپنے ساتھ لاتا ہے جس کے باعث اس کی توقیر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ نظریاتی لوگ وہ ہوتے ہیں جو کسی فکری و تنظیمی اختلاف اور مختلف امور پر برعکس رائے کے سبب ایک جماعت چھوڑ جاتے ہیں اور جب ان پر یکسانیت پیدا ہو جاتی ہے تو پھر اسی جماعت کے ہم سفر بن جاتے ہیں۔ یہ سارا عمل پارلیمانی سیاست کے بجائے تنظیمی سیاست پر اثر انداز ہوتا ہے جبکہ ہمارے ہاں آنے جانے کا مقصد ہی پارلیمانی طور پر کسی کو کمزور یا مضبوط بنانا ہوتا ہے چونکہ اس کھیل میں ملک و نظریئے کے بجائے اپنا مفاد عزیز رکھا جاتا ہے اس لئے ہمارے سماج میں ایسے لوگوں کو وہ توقیر نصیب نہیں ہوتی جو کسی فکری و تنظیمی ٹکراؤ کے باعث آنے جانے والوں کو ہوتی ہے اور یوں ایسے ابن الوقت عوامی اصطلاح میں لوٹے کہلاتے ہیں۔ ممتاز طنز نگار انور مقصود نے اس حوالے سے پروین شاکر کے ایک لافانی شعر کی طرف بھی کیا خوب اشارہ کیا ہے
وہ جہاں بھی گیا ”لوٹا“ تو میرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی میرے ہرجائی کی
انور مقصود کی حسِ ظرافت کی داد دیتے ہوئے یہاں یہ وضاحت بھی نوٹ فرما لیں کہ اس شعر میں جس ”لوٹے“ کی بات ہے یہ وہ ”لوٹا“ ہے جو ”نظری“ اختلاف کے خاتمے کے بعد لوٹ آیا ہے اور ہم جن ”لوٹوں“ کی بات کر رہے ہیں وہ چوہدری صاحبان اور پرویز مشرف کا دسترخوان خالی پا کر دوسری پارٹیوں کے دسترخوان پر ”لوٹ“ آئے ہیں۔یوں تو سیاسی وفاداریاں بدلنے کا موسم رنگ رنگیلا اب بھی جوبن پر ہے اور گزشتہ روز ہی سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی جن کا تخلص جبل یعنی پہاڑ ہے، اپنی جگہ سے ذرا کھسک گئے ہیں تو دوسری طرف ارباب غلام رحیم کی وارفتگی بھی دیدنی ہے۔ انتخابات سے قبل جن سابق اراکین اسمبلی نے اپنی سیاسی وابستگیاں تبدیل کرتے ہوئے مختلف جماعتوں میں شمولیت اختیار کر لی تھی ان میں 42/اراکین اسمبلی کو ٹکٹ سے نوازا گیا۔ ان میں ق لیگ کو خیر باد کہنے والے 18 سابق اراکین اسمبلی بھی شامل تھے۔ اب اگر یہ نظریاتی بنیاد پر واپس آئے ہوتے تو اصولی طور پر انہیں حالیہ انتخابات میں ٹکٹ نہیں دیا جاتا اور ان پر ثابت قدم اور قربانیاں دینے والے کارکنوں کو ترجیح دی جاتی۔ اگر یہ درحقیقت نظریات سے لگاؤ کی خاطر ”لوٹے“ ہوتے تو صبر و شکر سے5 سال تک تنظیم سے بے لوث نباہ کرتے اور یوں ازاں بعد نظریاتی ہدف کے حصول پر وہی استحقاق حاصل کر لیتے جو دیگر وفاداروں کو حاصل ہے لیکن چونکہ نظریات محض دکھاوا اور مفاد اصل تھا اس لئے وہ جو سودا جس بھاؤ طے کر کے آئے تھے، اسی قیمت پر وصول کیا اور مزید وصول کریں گے۔ ہمارے ہاں کی پارلیمانی سیاست میں نظریاتی لوگوں کی ضرورت کم اور سیٹ جیتنے والوں کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔ یہ قصہ تو قومی اسمبلی کے اراکین کا ہے۔ صوبائی اسمبلیوں کی فوج ظفر موج تو اس کے علاوہ ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہر دور میں ”لوٹے“ ہی معتبر ٹھہریں گے تو پھر تبدیلی کا نعرہ کیونکر عملی تعبیر پا سکے گا! ایسی پارٹیاں بھی جو ملک میں فعال تنظیمی نیٹ ورک رکھتی ہیں اور اہل اور ساتھ نباہنے والوں کی کثیر تعداد بھی ان کی قیادت کے پہلو میں ہمہ تن گوش تھی۔ سیاسی فضا ان کے حق میں تھی، ملکی و بین الاقوامی ادارے ان کی راہ سے کانٹے ہٹانے کیلئے بروئے کار تھے۔ مگر عوامی مقبولیت کے باوجود بھی انہوں نے یہ موقع غنیمت جان کر اسکندر مرزا کے دور سے دراز ”لوٹوں“ کی اس سیاسی بدعت پر کاری ضرب لگانا کیوں مناسب خیال نہیں کیا!؟ تاثر یہ تھا کہ مستحکم سیاسی پارٹیاں سیاسی ابن الوقتوں کیلئے ناساز گار حالات کا فائدہ اٹھا کر مستحکم سیاسی پارٹیاں ان انتخابات میں ایسے عناصر کو اسمبلی سے باہر کھڑا کر کے یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جائیں گی کہ آمروں کا ساتھ دینے والوں کا انجام ہمیشہ بخیر نہیں ہوتا لیکن ان پارٹیوں کے موجودہ طرز عمل سے جہاں ایسے ابن الوقتوں کی اس سوچ کو تقویت ملے گی کہ وہ ہر دور کی ضرورت ہیں، وہاں مہم جوئی کرنے والے بھی بے خوف و خطر یہ سوچ کر آئین کو پامال کر سکیں گے کہ ان کے غیر آئینی اقدامات کو تحفظ دینے والے موجود و توانا ہیں۔ ملک و جمہوریت کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ جب بھی سیاستدانوں کو سیاست سے آلائشیں پاک کرنے کا موقع ہاتھ آیا، وہ انہوں نے وقتی مصلحت کی خاطر گنوا دیا۔
تازہ ترین