• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر آپ کافی محنت،عرق ریزی یا بہت تحقیق کرنے کے بعد کوئی شئے بنائیں، کوئی ایجاد کریں، کوئی انوکھا یا نیا خیال پیش کریں اورکوئی شخص اسے چُرالے،دنیا کے سامنے اسے اپنے نام سے پیش کرے یا اس کی نقل تیّارکرلے تو سوچیں کہ آپ پر کیا گزرے گی۔ تخلیق خواہ کسی بھی قسم کی ہو کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ اسی لیے دنیا بھر میں اسے تحفّظ دینے کا رواج ہے۔ہر تخلیق کے پس منظر میں مختلف سطح اور معیار کی عقل ودانش کارفرما ہوتی ہے۔

اسی لیے اس کے لیے اِملاکِ دانش کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور ہر تخلیق کار کا یہ آفاقی حق تسلیم کیا جاتا ہےکہ وہ اسے تہذیب ، اخلاق اور دنیا کے مروّجہ قوانین اور ضابطوں کے دائرے میں رہتے ہوئے جیسے چاہے استعمال کرے یا جسے چاہے اسے استعمال کرنے کا اختیار دے اور جسے چاہے اسے استعمال کرنے سے روک دے ۔ چناں چہ اسی اصول کو مدّ نظر رکھتے ہوئے تمدّن یافتہ دنیا میں تحفّظِ حقوقِ اِملاکِ دانش کا نطریہ اپنایا گیا اور اس ضمن میں قوانین وضح کیے گئے۔

حقوقِ اِملاکِ دانش کے تحفّظ کی کوششیں

ایک جانب ان حقوق کے تحفِظ کی کوشش ہے تو دوسری جانب سرقے کی مذموم حرکتیں ہیں ۔ کسی کا مال چرالینا یا اس پر چالاکی یا دھونس دھمکی سے قبضہ جمالینا انسانی تاریخ کے اوائل سے ہونے والا جرم ہے جس کی جڑیں انسان کی جبلّت میں پیوست ہیں ۔یہ جرم ہر دور میں،ہر معاشرے میں ہوتا چلا آیا ہے۔چناں چہ تمام تر کوششوں کے باوجود آج بھی ہورہاہے۔

اگر چہ آج کاپی رائٹ، ٹریڈ مارک اور پیٹینٹ کے قوانین دنیا بھر میںاچھی طرح رائج ہوچکے ہیں اور عالمی سطح کے ادارے بھی بن چکے ہیں لیکن ہم میں سے بہت سے افراد شاید یہ نہ جانتے ہوں کہ اس ضمن میں کوششوں کا آغاز اُنّیسویں صدی عیسوی کے اواخرمیں ہوچکاتھا ۔ دراصل ہوا یہ تھا کہ 1873میں ویانا میں ایجادات کی بین الاقوامی نمایش کااہتمام کیا گیا تھا،جس میں شرکت کےلیے موجدوں،تخلیق کاروں وغیرہ کو دعوت دی گئی تھی۔

تاہم انہوں نے اس خدشے کے پیشِ نظر نمایش میں شرکت کرنے اور اپنی ایجادات و تخلیقات لوگوں کے سامنے پیش کرنے سے انکار کردیا تھاکہ ان کے خیالات ، ایجادات ،مصنوعات وغیرہ کی دوسرے افراد نقل تیّار کرلیں گے یا دیگر ممالک میں ان کی اِملاکِ دانش کا استحصال کیا جائے گا۔

اس وقت ان حقوق کے تحفّظ کے لیے ایسی انجمن کے قیام کی ضرورت بہ درجہ اُتم محسوس کی گئی جس کے ذریعے مختلف ممالک کے موجدوں اور تخلیق کاروں کی اِملاکِ دانش کا ان کے ملک کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی تحفّظ ہوسکے۔اسی فکر کے تحت 1883 میں صنعتوں سے متعلق املاکِ دانش کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے’’پیرس کنونشن‘‘ کے نام سے ایک بین الاقوامی معاہدہ طے پایا۔پھر ممتاز فرانسیسی شاعر اور ناول نگار، وکٹر ہیوگو کی جانب سے ’’حقوقِ املاکِ دانش‘‘ کے تحفّظ کی مہم چلائی گئی جس کے بعدادبی اور تخلیقی کام کو تحفّظ دینے کے لیے ’’برن کنونشن‘‘ کے نام سے ایک معاہدہ 1886میں ہوا۔

اس کے بعد1891میں ہسپانوی شہر میڈرڈ نے اس معاہدے پر عمل درآمد کرتے ہوئے پہلا بین الاقوامی آئی پی (انٹی لیکچوئل پراپرٹی) فائنلنگ سسٹم متعارف کرایا۔1893میں برن کنونشن پر رکن ممالک میں عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے پیرس میں BIRPI (یونائیٹڈ انٹرنیشنل بیوریکس فار دی پروٹیکشن آف انٹی لیکچوئل پراپرٹی) قایم کیا گیا۔

طویل سفر کا آغاز

یہ ایک طویل سفر کا آغاز تھاجس کے دہائیوں بعد صحیح معنوں میں حقوقِ اِملاکِ دانش کے تحفّظ کی کوششوں میں تیزی آئی۔اس جدوجہد کا ایک اہم مرحلہ 1970میں عبور کیا گیا جب ایک بین الاقوامی تنظیم نے رکن ممالک کے ساتھ بہ طور بین الحکومتی تنظیم کے کام کرنا شروع کیا۔اس کے نتیجے میں BIRPI ،ورلڈ انٹرنیشنل انٹی لیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن (وائپو) میں تبدیل ہو گئی ۔ آگے چل کر1974میں وائپو اقوامِ متحدہ کا حصہ بن گئی۔ 

یوں دنیا بھر میں اقوامِ متحدہ کی چھتری تلے’’حقوقِ املاکِ دانش‘‘ کی تمام اقسام و اشکال کا موثر طورپر تحفظ کرنے اور اس ضمن میں متعلقہ افراد اور اداروںکو راہ نمائی اور معاونت فراہم کرنےکے لیے بھرپور طریقے سے کام کا آغازہوا۔اس کے بعدسے اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو وائپو کا رکن بننے کی ترغیب تودی جاتی ہے، لیکن اس ضمن میں فیصلہ کرنےمیں ہر رکن ملک مکمل طورپر آزاد ہے۔ پاکستان1977میں’ ’وائپو‘‘ کا رکن بنا تھا۔

اس وقت 192ممالک وائپو کے رکن ہیں ۔ علاوہ ازیں 195 میں سے 177 ممالک’’برن کنونشن‘‘معاہدے کے توثیق کنندہ ہیں۔ پاکستان 5 جولائی 1948کو اس کا رکن بناتھا۔ ایسا ہی ایک اور اہم معاہدہ 1952میں ہوا تھا جو ’’یونیورسل کاپی رائٹس کنونشن‘‘ (یو سی سی)کے نام سے جانا جاتا ہے۔ہم سولہ ستمبر1955کو اس کےرکن بنے تھے۔جب ’’ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن‘‘ قایم ہوئی تو اس کے رکن ممالک کے درمیان بھی اس ضمن میں ایک بین الاقوامی معاہدہ ہواہے جس کا نام ’’ ایگریمنٹ آن ٹریڈ ریلیٹڈاسیپیکٹس آف انٹی لیکچوئل پراپرٹی رائٹس‘ TRIPS ہے۔پاکستان نے یکم جنوری1995 کو اس معاہدے میں شمولیت اختیار کی تھی ۔

باسمتی چاول اوربھارت کی عیّاری

حقوقِ اِملاکِ دانِش کے تحفّظ کے اتنے معاہدوں میں شریک ہونے کے باوجود کچھ عرصہ قبل بھارت نے عالمی سطح پر ہمارے ساتھ دھوکا کیا ۔دل چسپ بات یہ ہے کہ اس دھوکے کے لیے بھارت نے حقوقِ اِملاکِ دانِش کے تحفّظ کے عالمی قاعدوں اور قوانین کاہی سہارا لیا۔ہوا کچھ یوں کہ بھارت نے 2004 سے یہ کوشش شروع کی کہ عالمی سطح پر باسمتی چاول کو اپنی مخصوص پیداوار قرار دلوالیا جائے۔

وہ اس کے حقوق اپنے نام پر محفوظ کروانا چاہتا ہے،حالاں کہ پاکستان کے نزدیک یہ دونوں ملکوں کی مشترک ملکیت ہے ۔ بھارت نے 2004 میں باسمتی چاول کے حقوق اپنے نام پر محفوظ کرنے کی کوشش کی تھی تاہم وہ ایسا کرنے میں ناکام رہا تھا اور یورپی یونین نے پاکستان کے سپر باسمتی اور بھارت کے پوسا باسمتی کو زیرو ٹیرف کی یک ساں سہولت دی اور یہ بات یورپی یونین کے قواعد میں درج ہے۔

اس کے بعد بھارت نے پینترا بدلا اورمذکورہ قاعدوں اور قوانین کو دوسرے انداز سے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔اب اس نے پوری دنیا کو چھوڑکر یورپی یونین کو ہدف بنایا،کیوں کہ وہ باسمتی چاول کی بہت بڑی منڈی ہے اور بھارت کے ساتھ پاکستان بھی وہاں بہت بڑی مقدار میں باسمتی چاول برآمد کرتا ہے۔ چناں چہ گزشتہ برس کی آخری سہ ماہی میں بھارت نے یورپی یونین میں چاول کی باسمتی کوالٹی کے حقوق اپنے نام محفوظ کروانے اور اسے ایک بھارتی مصنوع قرار دینے کے لیے درخواست جمع کرائی جو یورپی یونین کے جرنل میں شائع کی گئی ۔

یہ درخواست جیوگرافیکل انڈی کیشنز (جی آئی) کے قوانین کے تحت جمع کرائی گئی جس میں باسمتی چاول کو’ ’خالصتا بھارتی مصنوع ‘‘قراردینے کی استدعا کی گئی تھی۔ اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ بھارت کو باسمتی کے لیے جی آئی ٹیگ جاری کردیا جائے ۔ پاکستان میں چاول برآمد کرنے والے شعبے کے افراد نے بھارت کےاس دعوے کو ناجائزقرار دیتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر بھارت ایسا کرنے میں کام یاب ہو گیا تو یہ ملک سے باسمتی چاول کی برآمد کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہو گا اور یورپی یونین میں پاکستانی باسمتی چاول کا نعم البدل ثابت ہو گا۔

حکومت نیند سے جاگی

بھارت نے یورپی یونین میں جب یہ دعوی کیا کہ باسمتی چاول صرف بھارت پیدا کرتا ہے پاکستان نے یورپی یونین میں بھارت کی باسمتی چاول کی رجسٹریشن کی درخواست چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا، اس ضمن میں متحرک ہوئی اورگزشتہ برس نو دسمبرکو پاکستان نے باسمتی چاول پر بھارتی دعویٰ مسترد کرتے ہوئے یورپی یونین میں درخواست جمع کرائی۔اس موقعے پر وزیراعظم کے مشیرِتجارت عبدالرزاق داؤدکاکہناتھاکہ بھارت کی بھول ہے کہ پاکستان اسے باسمتی چاول کے ملکیتی حقوق لینے دے گا۔اس کے برعکس معاملے کا بھر پور دفاع کیا جائے گا۔

ان کا موقف تھا کہ پاکستان اس وقت بھی یورپی یونین کو اپنے چاول باسمتی کے نام سے برآمد کررہا ہے۔بھارت کے ملکیت سے متعلق مؤقف پر مختصر اختلافی درخواست کے بعد پاکستان کوتفصیلی جواب کے لیے مزیددو ماہ مل جائیں گے ۔ خیال رہےکہ یورپی یونین کے 2006 کےقواعد کے مطابق باسمتی چاول اس وقت تک پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کی پیداوار کے طور پر رجسٹرڈ ہے۔حقیقت یہ ہےکہ باسمتی چاول پاکستان میںبھی بڑے پیمانے پرکاشت ہوتا ہے اوراپنی بہترین خوش بو اور ذائقے کی وجہ سے اسے بھارت کےباسمتی پرفوقیت حاصل ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان ہر سال پانچ تا سات لاکھ ٹن باسمتی چاول دنیا کے مختلف ممالک کو برآمدکرتاہے اوربڑی مقدارمیں یورپی ممالک کو بھی برآمد کیا جاتا ہے ۔ امکان یہی ہے کہ بھارت اور پاکستان کی جانب سے پیش کیے گئے موقف پر فیصلہ کرنے میں یورپی یونین کوچند ماہ لگیں گے۔

بھارت کی جانب سےجی آئی ٹیگ کو ہتھیار بنانے کی کوشش کے بعد ہمارے لوگوںکوکبھی عقل آئی اور ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان( ٹڈاپ)نےانٹی لیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن سے اس بارے میں رجوع کیاجس نے رواں برس ستّائیس جنوری کو باسمتی چاول کو پاکستان کی جغرافیائی شناخت کا حامل قرار دیا۔

یاد رہے کہ ٹڈاپ نے باسمتی چاول کا جی آئی ٹیگ حاصل کرنےکیے لیے آئ پی او کے دفتر میں درخواست جمع کرائی تھی۔آئی پی او نے باسمتی چاول اگانے والے علاقوں کی نقشہ بندی بھی کی ہے۔ اس فیصلے سے یورپی یونین میں باسمتی چاول کےجغرافیائی اشارے کے ضمن میںبھارتی دعویٰ کم زورہو گا۔واضح رہے کہ باسمتی چاول کے جی آئی ٹیگ کا حصول ملک کےنجی اورسرکاری شعبوں کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہے۔

آئی پی آر اورجی آئی قوانین

دنیا بھر میںحقوقِ اِملاکِ دانِش کونوانداز سے تحفّظ فراہم کیا جاتا ہے۔ان میں پیٹنٹ،کاپی رائٹ،انڈسٹریل ڈیزائن کاپی رائٹ، انٹیگریٹڈ سرکٹس، جیو گرافیکل انڈی کیشن، پلانٹ بریڈرز رائٹس، جنیٹکس ریسورسز (جی آر ٹی کے ایف) اور نیشنل انٹی لیکچوئل رائٹس شامل ہیں۔

جیوگرافیکل انڈی کیشن کاقانون ہمارے ہاں گزشتہ برس مارچ کے مہینے میں منظور ہوا تھا۔ یہ قانون کسی بھی ملک کو اس کی سرزمین پر پیدا اور تیار ہونے والی مصنوعات کی ملکیت کا بین الاقوامی حق دیتا ہے۔ مثال کے طور پر برطانیہ میں تیّار ہونے والی ایک دوا کو اس قانون کے تحت تحفظ حاصل ہے۔چناں چہ پوری دنیا میں کوئی بھی ملک یا ادارہ اس دوا کو اس مخصوص نام سے فروخت نہیں کر سکتا۔ البتہ اس کا جینرک نام کوئی بھی ادارہ استعمال کرسکتا ہے۔

پاکستان میں جیو گرافیکل انڈی کیشن کا قانون نہ ہونے کا سب سے زیادہ فائدہ بھارت اور چین کو پہنچتا تھا۔اس وقت چین اس قانون سے سب سے زیادہ مستفید ہو رہا ہے۔ بھارت نے نے یورپی یونین میں اپنی درخواست جی آئی قوانین کےتحت ہی دی ہے۔جی آئی قوانین ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے رکن ممالک کو بنانے ہوتے ہیں جن کے تحت ایک خاص مصنوع کے اصل محلِ وقوع اور اس کی خصوصیات کی نشان دہی کی جاتی ہے۔ یہ قوانین کسی ملک میں پیداشدہ یا تیار شدہ شئے یا مصنوع کو اس بنیاد پر تحفظ فراہم کرتے ہیں کہ یہ اس ملک میں پیدا یا تیار ہونے والی شئے یا مصنوع ہےجس کا رنگ، ذائقہ، خوش بو،معیار ،وغیرہ تاریخی طور پر ایک خاص جغرافیائی حدود سے وابستہ ہے۔واضح رہے کہ بھارت نے جی آئی قوانین کا نفاذ ہم سے چند برس قبل کر لیا تھا۔

حقوقِ اِملاکِ دانِش کی وسعت

ماہرین کے مطابق پاکستان میں حقوقِ اِملاکِ دانش کے بارے میں شعور بہت ہی کم ہے۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ چند برسوں سےچھوٹےاور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں میںاور انفرادی سطح پر اس بارے میں شعوربے دار کرنے کا آغازہوا ہے۔ تاہم اب بھی ہمارے یہاں لوگوں میں حقوقِ املاکِ دانش کے تحت کاپی رائٹ، ٹریڈ مارک، ڈیزائن یا پیٹنٹ رجسٹرڈ کرانے کی شرح اس خطے کے دیگر ممالک کی نسبت کم ہے۔ 

دسمبر 2014 میں محکمہ قانون اور انصاف نے انٹی لیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن آف پاکستان‘ کے ایکٹ 2012 کی دفعہ 16(1)کے تحت تین شہروں کراچی لاہور اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں انٹی لیکچوئل پراپرٹی ٹریبونل قائم کیے،لیکن اس معاملے میں بلوچستان کو نظرانداز کیا گیا ۔حالاں کہ وہاں بھی تخلیقی کام ہورہا ہےاور وہاں بھی بہت سے ادارے ایسے ہیں جنہیں کاپی رائٹ، ٹریڈ مارک،پیٹنٹ اور انڈسٹریل ڈیزائن کی خلاف ورزی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

ماہرین کے بہ قول حقوق پاکستان میں معیاری تخلیقی کام کرنے والوں کی کمی نہیں ہے،لیکن معلومات نہ ہونے ،طویل کاغذی کارروائیوں اور دیگر وجوہات کی بنا پر وہ اپنےتخلیقات کو آئی پی او میں رجسٹرڈ نہیں کراتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ قانونی طور پر اپنا دفاع کرنے کے اہل نہیں رہتے۔قانون کہتا ہے کہ جب کسی شخص نے اپنی تخلیق کو قانون کے مطابق رجسٹرڈ ہی نہیں کرایا تووہ اس کی خلاف ورزی پر قانونی جنگ کیسے لڑسکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں عموما تحریر یا تصویر کی حدتک ہی لوگوں کو حقوقِ املاکِ دانش کی یاد آتی ہے لیکن اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔اور اس قانون پر عمل کرنے والوں کو ان کی سوچ سے کہیں زیادہ حد تک تحفّظ مل سکتا ہےکیوں پاکستان میںچربہ سازی اورسرقے کا رجحان عام ہے۔اس ضمن 2003میں صورت حال اتنی خراب ہوگئی تھی کہ عالمی انٹی لیکچوئل پراپرٹی الائنس (آئی آئی پی اے) نے نقلی سی ڈی ، وی سی ڈی اور ڈی وی ڈی تیار کرنے والے ملکوں کی فہرست میں پاکستان کو پہلے نمبر پر رکھا تھا اوراس وقت کے امریکی صدر بش کی انتظامیہ سے کہا گیاتھا کہ عمومی ترجیحات کے تحت پاکستان کو فراہم کی جانے والی تمام سہولتیں معطل کر دی جائیں۔

آئی آئی پی اے کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آٹھ کمپنیاں ، پانچ مقامات پر نقلی سی ڈی ، وی سی ڈی اور ڈی وی ڈی بنا رہی ہیں اور خام مال کے درآمدی اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہےکہ سالانہ ساڑھے چھ کروڑ سے زیادہ ڈسکسں تیار کی جارہی ہیں۔ آئی آئی پی اے نے امریکی تجارتی ادارے یو ایس ٹی آر سے کہاتھاکہ وہ پاکستان کو ترجیحی واچ لسٹ پر رکھے کیوں کہ یہ کاپی رائٹ رکھنے والے مواد کی نقلی ڈسکس تیار کرنے والے صف اول کے ملک کی حیثیت سے سامنے آ رہا ہے جس میں موسیقی ، آڈیو وژول ، کاروباری سافٹ وئیر اور وڈیو گیمز شامل ہیں۔

ادارے نے امریکی حکومت سے کہاتھاکہ اگر پاکستان ، نظام کی خرابیاں دورکرنے کے لیے اقدامات نہ اٹھائے،جن سے امریکی کاپی رائٹ مالکان کو نقصان پہنچ رہا ہے،تو پاکستان کو ملنے والے فواید مکمل یا جزوی طور پر معطل کر دیے جائیں۔ ادارے کا کہنا تھا کہ لگ بھگ ساڑھے چھ کروڑ ڈسکس سالانہ تیار کرنے والے پاکستان کی مقامی مارکیٹ میں صرف ستر لاکھ ڈسکس کی طلب ہے جس کی وجہ سے یہ نقلی سی ڈی ساری دنیا میں پہنچ رہی ہیں۔

اس ضمن میں پاکستان سے کہا گیاتھا کہ وہ آرٹیکل ڈسکس کے لیے ایک موثر قانون منظور اور لاگو کرے تاکہ سی ڈی کی تیاری میں لائسنسنگ اور کنٹرول کے مراحل طےکیے جا سکیں جس میں خام مال اور سازو سامان کی درآمد پر کنٹرول اور تیار کنندگان کا سراغ لگانے کا نظام بھی شامل ہو۔ پاکستان سے یہ بھی کہا گیاتھاکہ وہ عارضی حکم نامےکےذریعے نقلی ڈسکس تیار کرنے والی فیکٹریز بندکرے اور سی ڈی کی تیاری کے لیے درکار خام مال کی درآمد کے لیے نگرانی کا نظام سخت کرے۔

آئی آئی پی اے کے مطابق اس وقت پاکستان میں کاپی رائٹ موادکی نقلی ڈسکس بارہ ہزار سے زاید دکانوں پر فروخت ہو رہی تھیں۔ ادارے کا کہنا تھاکہ کراچی کے رینبو سینٹر اور لاہور کے حفیظ سینٹرمیںسیکڑوں دکانیں ان سی ڈیز سے بھری ہوئی ہیں۔ یہاں موسیقی سے لے کر مائیکرو سافٹ آفس ایکس پی کی سی ڈی تک تیس تا پینسٹھ روپے میں مل جاتی ہے۔اور 2002 سےپاکستان کی تیار کردہ نقلی ڈسکس امریکا، کینیڈا، بھارت، برطانیہ، سری لنکا ، بنگلادیش، کینیا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ،موز مبیق، جنوبی افریقا ، مالدیپ ،کویت ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر، شام، جرمنی، ہانگ کانگ، انڈونیشیا، سنگاپور اور تھائی لینڈ میں کسی نہ کسی پیمانے پر دست یاب ہیں۔

اس کے بعد اپریل 2016میں بھی اس ضمن میں پاکستان کے حصے میں کافی بدنامی اور سبکی آئی تھی۔اس وقت امریکا نے پاکستان کو انتہائی سخت نگرانی والے ممالک کی فہرست میں رکھنے کا فیصلہ کیا تھا اور ہم سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ جعلی ادویات، عالمی پبلشرز کی کتابوں کی جعلی نقول کی طباعت ، سافٹ ویئر کے غیر قانونی استعمال اور ڈیجیٹل کونٹینٹ کی خلاف ورزی یہاں زوروں پرہے لہذا حکومت پاکستان از خود حقوق دانش کی خلاف ورزی پر کارروائی کرے۔ اس صورت حال میں امریکا نے پاکستان میں حقوقِ املاکِ دانش کے عدم تحفظ کی وجہ سے پاکستان کو انتہائی سخت نگرانی میں رکھے جانے والے ممالک کی فہرست (Priority Watch List) میںرکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ 

خراب کارکردگی کی بنیاد پر اس فہرست میں پاکستان، کے علاوہ الجزائر، ارجنٹائن، چلی، چین، ایکواڈور، بھارت ، انڈونیشیا، کویت، روس، تھائی لینڈ، یوکرین اور وینزویلاکو بھی رکھا گیا تھا۔یونائیٹڈ اسٹیٹ ٹریڈ ریپریزنٹیٹیو (یو ایس ٹی آر) کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ برائے سال 2015 میں انٹی لیکچوئل پراپرٹی رائٹس آرگنائزیشن پاکستان کی کارکردگی کا بھانڈا پھوڑا گیا تھا۔ 

رپورٹ میں پاکستان کے بارے میں کہا گیا تھا کہ حکومت پاکستان اور دیگر ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ممالک میں حقوق املاک دانش کے احترام کی صورتحال پیدا کریں تاکہ ان کے ہاں بین الاقوامی کمپنیوں کے حقوق املاک دانش کا تحفظ بھی فروغ پاسکے ۔ 

امریکا نے اس ضمن میں پاکستان سمیت ان تجارتی پارٹنرز کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے ہاں صرف قانونی تحفظ کے تحت دست یاب سافٹ ویئرز کا استعمال یقینی بنائیں۔رپورٹ میں یو ایس ٹی آر نے پاکستان میں حقوق املک دانش کے تحفظ کی صورت حال پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہاتھا کہ پاکستان میںان حقوق کے تحفظ کی صورت حال بہتر نہیں ہوسکی لہٰذا پاکستان کو مزید ایک سال کے لیے (Priority Watch List) میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔

اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے انٹی لیکچوئل پراپرٹی رائٹس آرگنائزیشن ایکٹ2012کی ان شقوں پر تا حال عمل درآمد نہیں کیا ہےجن کے تحت حقوق املاک دانش کی خلاف ورزی کرنے والوں کے مقدمات کی سرسری سماعت کر کے انہیں سزائیں دینے کے لیےاسپیشل انٹی لیکچوئل پراپرٹی ٹریبونلز چار سال گزرنے کے باوجود نہیں بنائےگئے۔امریکا نے خواہش ظاہر کی تھی کہ پاکستان میں حکومت از خود ان حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرے۔

اس صورت حال کے تدارک کے لیے امریکا نے پاکستان کو اپنے کاپی رائٹ ایکٹ میں ضروری ترامیم کرنے کی سفارش کی تھی۔ اس کے ساتھ پاکستان میں امریکی کمپنیوں کی جانب سے جمع کرائی گئی تفصیلات کی پاکستان کی نجی کمپنیوںکوغیرقانونی صورپرفروخت اوراس کے استعمال کی صورت حال کو بہتر بنانے کی بھی بات کی گئی تھی۔تاہم 2021 میں یہ صورت حال نہیں ہے۔

اچھی خبر

پاکستان میں تحفظِ حقوقِ املاکِ دانش کے ضمن میں ایک اچھی خبر گزشتہ ماہ کی ستائیس تاریخ کو یہ آئی کہ پاکستان میڈرڈ ٹریڈ مارک سسٹم آف ورلڈ انٹی لیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن میں شامل ہوگیا ہےجس کی وجہ سے 107منڈیوں میں ٹریڈ مارک کی حفاظت ہوگی۔ واضح رہے کہ یہ عالمی سطح پر ٹریڈ مارکس کے آسان اور سستے تحفظ کا طریقہ کارہے۔

اس آرگنائزیشن میں شمولیت سےہمارے برآمد کنندگان 107 برآمدی منڈیوں میں اپنے ٹریڈمارک کی حفاظت کر سکیں گے۔ ہمارے برآمدکنندگان کو ایک درخواست دینی اور ایک فیس اداکرنی ہوگی۔ اس سے عالمی سر فہرست برانڈز کو پاکستان کی مارکیٹ میں آنے کی ترغیب ملے گی اور پاکستانی برانڈز کو عالمی سطح پر آگے بڑھنے میں مدد ملے گی۔

تازہ ترین