• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب سے کوئی ڈھائی ہزار سال قبل یونان کے مشہور فلسفی افلاطون نے کہا تھا کہ’’ریاستیں، شاہ بلوط کی لکڑی سے نہیں بنتیں۔ریاستیں انسان کے کردار سے بنتی ہیںـ‘‘۔ صدیاں گزر چکی ہیں ،اس قول کو ادا کیے ہوئے لیکن ہر زمانے میں سیاست اور ریاست سے اخلاق و کردار کے تعلق کو تسلیم کیا گیا ہے۔اس عرصے میں ریاست سازی کے لاکھوں تجربات ہوچکے ہیں۔ریاستیں بنتی ہیں، ٹوٹ بھی جاتی ہیں۔

نئی ریاستیں بھی وجود میں آجاتی ہیں۔ریاستوں کے ، اُن کے برگ و بار لانے، ان کی توسیع، ان کے مضمحل ہوجانے اور اکثر ختم بھی ہوجانے کے بہت سے سیاسی، اقتصادی، عسکری اور بین الریاستی اسباب و عوامل ہوتے ہیں۔تاریخ نویسوں اور سماجی علوم کے دیگر ماہرین نے ایک سے ایک فکر انگیز کتاب اس موضوع پر لکھی ہے۔لیکن ان سب کتابوں میںاخلاق کا پہلوکسی نہ کسی طور زیرِ بحث ضرورآیا ہے۔کہیں اس کو سب عوامل پر فائق قرار دیا گیا ہے ، کہیں اخلاقی پہلو کو دیگر مادی عوامل کے ایک نتیجے اور ایک غیر مادی مظہر کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔عالمی شہرت یافتہ مؤرخ آرنلڈ ٹوئن بی نے بارہ جلدوں پر مشتمل اپنی شہرہ ٔ آفاق تصنیف ’مطالعہ ٔ تاریخ‘(A Study of History) میں قوموں کے عروج و زوال کی تفصیلات دینے کے بعد آخری جلد میں یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ’’تہذیبوں کی موت قتل کے ذریعے نہیں ہوتی ،خودکشی کے ذریعے ہوتی ہے ‘‘۔

سیاسی اشرافیہ کے بدلتے رجحانات

سیاسی اخلاقیات، معاشرے کی عمومی اخلاقیات ہی کا حصہ ہوتی ہیں جبکہ معاشرے مختلف پس منظر رکھنے والے افراد اور مختلف طبقوں کا مرکب ہوتے ہیں۔لہٰذا معاشرے کی اور ساتھ ہی سیاسیات کی بھی کوئی ایک اخلاقیات نہیں ہوتیں البتہ سیاسی نظاموں میں جن افراد یا گروہوں کو یا اداروں اور طبقوں کو فوقیت حاصل ہوتی ہے،انہیں کی اخلاقیات کو معاشرے میں ترویج پانے کے زیادہ مواقع حاصل ہوتے ہیں۔کہنے کو یہ ضرور کہا جاتا ہے کہ جیسی قوم ویسی قیادت لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوسروں پراثر اندازہونے اور ان کے اخلاق کی تہذیب یا تخریب کے جو وسائل برسر اقتدار افراد اور حکمران طبقات کوحاصل ہوتے ہیں، وہ عوام کو حاصل نہیں ہوتے۔اور اب جبکہ کارپوریٹ سیکٹر کو ہر شعبۂ زندگی بالخصوص سیاست و ریاست میں غیر معمولی عمل دخل حاصل ہوچکا ہے ، کارپوریٹ ادارے اور اُن کے تعاون پر انحصارکرنے والے زرائع ابلاغ بھی اُسی سیاسی اخلاقیات کی ترویج کرتے ہیں جو حکمرانوں کے مفادات کی تکمیل کا ذریعہ ہوتی ہے۔

یہی نہیں ، یہ زرائع ابلاغ یہ کام بڑے تخلیقی انداز میں کرتے ہیں۔پہلے وہ مقتدر افراد اور اداروں کی مطلوب اخلاقیات کے لیے لوگوں میں قبولیت اور طلب پیدا کرتے ہیں اور پھر اس طلب کی تسکین کا سامان فراہم کردیتے ہیں۔آخر کوئی تو وجہ ہوگی جو ہم ہر شام ٹیلی وژن کی اسکرین پر اپنے لیڈروں کی ایک دوسرے کے بارے میں دشنام سے بھرپور گفتگو سنتے ہیں۔ہم اُن کے لڑائی جھگڑے، اور بعض اوقات ہاتھا پائی تک دیکھتے ہیں لیکن اگلے روز یہی لوگ پھر ہماری اسکرینوں پر جلوہ افروز ہوجاتے ہیں۔کیا اس کا مطلب یہی نہیں کہ یہ جو اخلاق پیش کیا جارہا ہے ، یہ اتفاقاً پیش نہیں ہوجاتا بلکہ اس کا پیش کیا جاناعین مقصود ہے ، اس کاروباری طبقے کا ۔حکمران طبقات اور ان کی صفوں سے نکل کر آنے والے سیاستدانوں کی اکثریت اس کلچر کا حصہ ہوتی ہے بلکہ وہ اس کو مستحکم کرنے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں اور اس کے برابر کے فائدہ اٹھانے والے بھی ہوتے ہیں۔

آج ہماری سیاست میں جو لب و لہجہ اختیار ہورہا ہے ، ہمارے سیاستدان جس قسم کی سطحی زبان استعمال کرنے لگے ہیں، اُس کے اسباب پر تو ہم آگے چل کر بات کریں گے مگر یہاں مختصراً یہ عرض کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بدقسمتی سے بحیثیت مجموعی ہماری سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادت خواہ وہ برسر اقتدار ہو یا حزب اختلاف سے اُس کا تعلق ہو، اس کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ زیادہ ہے ہی نہیں۔کچھ تو اس قیادت کی اپنی کمزوریاں اور نااہلیاںہیں اور کچھ وہ محدود دائرہ کار ہے جس میں رہ کر ان کو کام کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے ۔یہ سیاسی قیادت ، کوئی بااختیار قیادت نہیں ہے بلکہ ایک طرح کی ماتحت اور تابعدار قیادت ہے جس کی باہمی لڑائی زیادہ سے زیادہ یہی مفہوم رکھتی ہے کہ اس قیادت کے مختلف گروہ ایک دوسرے کی جگہ لینا چاہتیں ہیں۔

آئیں دیکھتے ہیں کہ ہماری سیاسی اخلاقیات کی تاریخ کیا رہی ہے۔ہم یہ کام اجمالاً ہی کرسکیں گے کہ ہمارا مقصد چند بنیادی تاریخی حقائق کو اجاگر کرنا اور اُن کے حوالے سے سیاسی اخلاقیات کے سفر کا جائزہ لینا ہے ۔

برعظیم میں نئی طرز کے سیاسی ادارے انگریز کے زمانے میں آئے۔برطانیہ میں پارلیمانی نظام کئی صدی قبل اپنی شروعات کرچکا تھا اوروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خود کو مضبوط بنارہا تھا۔اس نوع کے ادارے ہندوستان کی نوآبادی میں بھی متعارف کیے گئے، گو ان کے اختیارات برطانیہ کے مقابلے میں بہت محدود تھے۔مقامی سطح سے شروع ہونے والے یہ ادارے بتدریج اوپر کی طرف یعنی اضلاع اور پھر صوبوں کی سطح تک پہنچے۔مرکز میں منتخب ادارے تو تقسیمِ ہند تک قائم نہیں ہوسکے مگر نامزد کردہ قانون ساز اور انتظامی کونسلیں مرکز میں بھی قائم ہوتی رہیں۔

ان سب اداروں کے حوالے سے دو باتیں قابلِ ذکر تھیں۔ایک تو یہ کہ ان کا دائرہ کار اور ان میں کاروائی کے اصول و ضوابط یا رولز آف بزنس انگریزہی کی مرضی اور منشا سے طے پاتے تھے اور یہ ایک حد تک برطانوی اداروں ہی سے مستعار لیے جاتے تھے۔دوسری اہم بات یہ کہ ان اداروں میں جس مقامی اشرافیہ کو فعال ہونے کا موقع دیا گیا وہ یا تو دیہی معاشرت سے آنے والا زمیندار طبقہ تھا، یا پھر کاروباری طبقے کے نمائندہ تھے یا پھر شہروں کے پڑھے لکھے لوگ بالخصوص وکلاء تھے جن میں سے بہت سے برطانیہ سے وکالت کی سند لے کر آتے تھے۔

اس سیاسی اشرافیہ کے سیاسی اور دیگر شعبوں سے متعلق خیالات اور فیصلوں سے قطع نظر، اس کا طریقۂ کار اور باہمی اختلافات طے شدہ ضابطوں کے اندر ہی رہتے تھے۔قانون سا زکونسلیں ہوں ، صوبائی اسمبلیاں ہوں یا عدالتیں، ان سب کے اندر زبان و بیان کا لحاظ رکھا جاتا تھا۔یہی نہیں جب کانگریس اور مسلم لیگ کی قانونی اور سیاسی آویزش شروع ہوئی، اور بات تقسیم ہند تک پہنچی تب بھی ان جماعتوں کی قیادتوں کی طرف سے کم از کم اظہار خیال کے وقت کسی جذباتی رو میں بہہ جانے اور اپنے مخالفین کے خلاف ہر زہ سرائی تو دور کی بات، منفی الزام تراشی سے بھی احتراز کیا جاتا تھا۔

آزادی کے بعد کیا ہوا ؟

آزادی کے بعد ہماری اشرافیہ کی سیاست میں نئے پہلواجاگر ہوئے۔ریاستی اقتدار پر فوراً ہی افسر شاہی کو تصرف حاصل ہوگیا اور سیاسی ادارے ثانوی حیثیت اختیار کرگئے۔نو سال تک ملک کا آئین نہ بننے کے نتیجے میں بنیادی سیاسی امور تعطل کا شکار رہے۔ملک کو وفاق بننا ہے تو کیسا؟ پارلیمانی نظام ہو تو اس کی صورت کیاہو؟ریاست اور مذہب کے تعلق کی نوعیت کیا ہو؟ جداگانہ انتخاب ہو یا مخلوط؟ جب کچھ طے نہیں تھا اور نت نئے مسائل بھی سر اٹھارہے تھے، تو سیاسی ماحول اُس چیز سے جس کو سیاسی اشرافیہ کا تفاق رائے (elite consensus) کہا جاتاہے، اُس سے محروم رہا۔تب اقتدار پر قابض افسر شاہی اور اُس کی شریکِ اقتدار سیاسی اشرافیہ نے اپنے مخالفین کو غدار کہنا شروع کردیا۔

آناً فاناً خان عبدالغفار خان ، جی ایم سید ، حسین شہید سہروردی اور عبدالصمد اچکزئی غدار قرار پائے۔وزیراعظم لیاقت علی خان نے ایک تقریر میں بنگال کے سابق وزیراعلیٰ اور تحریک آزادی کے سرکردہ رہنما حسین شہید سہروردی کو ہندوستان کا بھیجا ہوا ایجنٹ قرار دے دیا۔’پاکستان‘کے لفظ کے خالق چودھری رحمت علی پاکستان تشریف لائے تو ان کے لیے یہاں ٹھہرنا ناممکن بنا دیا گیا اور وہ واپس انگلستان چلے گئے۔وفات کے بعد اُن کی تدفین بھی کیمبرج میں ہوئی۔ان واقعات سے قطع نظر آزادی کے بعد ہمارا سیاسی کلچر اخلاقی طور پر بہت زیادہ پراگندہ بہرحال نہیں ہوا تھا۔اسمبلیوں میں بھی سنجیدہ گفتگو کا ماحول پایا جاتا تھا۔

استثنائی مثالیں الگ ہیں۔مثال کے طور پر مشرقی پاکستان کی اسمبلی میں ایک موقع پر ہنگامہ آرائی بڑھی او رکرسیاں چلنے کی نوبت آگئی۔اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر زخمی ہوئے اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ایسی ایک دو مثالوں سے قطع نظر اسمبلیوں میں طویل تقریروں ، سرکاری دعووں ،اعدادو شمار کے گورکھ دھندوں، محرومیوں اور ناانصا فیوں کی شکایتوں کی بازگشت تو ضرور معمول تھی مگر گالم گلوچ کااس کوچے سے گزر نہیں ہوتا تھا۔

ایوب خان کے زمانے میں ہمارے سیاسی کلچر میں مزیدنئے عناصر داخل ہوئے۔افسر شاہی کی سرپرستی میں غیر جماعتی انتخابات اور بنیادی جمہوریت کے نظام نے سیاسی جماعتوں کو سیاسی عمل سے دور کردیا۔یہ حلقوں کی اُس سیاست کا آغاز تھا جو پارلیمانی نظام کی حلقہ جاتی سیاست سے مختلف تھی۔پارلیمانی نظام میں اراکین کے حلقہ ہائے نیابت میں سیاسی جماعتیں اور سیاسی کارکن بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔

غیرجماعتی نظام کے انتخابی حلقے سیاسی عمل اورسیاسی کردار سے محروم اور صرف تھا نہ کچہری، داخلوں اور تبادلوں، سڑکوں کی استر کاری اور نالوں کی صفائی کے امور تک محدود ہوکر رہ جاتے ہیں اور یہ کام بھی برادریوں اور نسلی اور قبائلی رشتوں کے پس منظر میں سرانجام دیے جاتے ہیں۔معاشرے کے لیے کسی اجتماعی سوچ کی اہمیت، بنیادی حقوق کے تصور، سماجی انصاف کی جدوجہد ، ملک کے معاشی، تعلیمی اور سماجی تحفظ سے متعلق تفکرات، یہ اور ایسے ہی دوسرے بنیادی امور، ان محدود اساس کے حامل انتخابی حلقوں کا دردِ سر نہیں ہوتے۔یہی نہیں بلکہ جو سیاسی رکھ رکھائو اور معاملہ کاری ، سیاسی جماعتوں کے تحت ان حلقوں میں ،ان سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہی کی وجہ سے دیکھنے میں آتی ہے ، وہ غیر جماعتی انتخابی حلقوں میں مفقود ہوتی ہے۔

1965ء کے صدارتی انتخاب کی انتخابی مہم1964ء کے آخری مہینوں میں شروع ہوئی۔ایوب مخالف اتحاد’کمبائنڈ اپوزیشن پارٹی‘ نے محترمہ فاطمہ جناح کو ایوب خان کے خلاف میدان میں اتارا تو سرکاری مشینری نے فاطمہ جناح کی کردار کشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔فاطمہ جناح کو نیشنل عوامی پارٹی اور عوامی لیگ کی حمایت حاصل تھی جس کے رہنما سہروردی اور غفار خان کو پہلے ہی غدار کا لقب دیا جاچکا تھا، سو فاطمہ جناح بھی غدار قرار دے دی گئیں۔

ایوب خان نے بعد ازاں اپنی کتاب’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘ میں لکھا کہ ہم نے قائداعظم کی بہن ہونے کے ناطے فاطمہ جناح کا خیال رکھا ورنہ ہم بہت کچھ کہہ سکتے تھے۔گویا بانی ٔ پاکستان کی محترم المقام ہمشیرہ کو غدار قرار دینے کے بعد بھی کچھ گنجائش باقی تھی ایوب خان اور اُن کی انتظامیہ کے پاس ان کی کردار کشی کے لیے ۔

1970ء کے انتخاب آزادی کے بعدملک کی تاریخ کے پہلے عام انتخابات تھے جو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منعقد ہوئے ۔ایک سال تک انتخابی مہم چلی۔برسوں سے رکے ہوئے سیاسی عمل کو جاری ہونے کا موقع ملا تو ملک کے افقی اور عمودی سب ہی مسائل سیاسی بیانیوں کا موضوع بن گئے۔مرکز او رصوبوں کے تعلقات ، صوبوں کے باہمی تعلقات ، صوبوں میں اقتصادی تفاوت،ا مارت اور غربت کے فاصلے ، یہ سب مشکل مسائل تو تھے ہی ، ایک نظریاتی لڑائی بھی شروع ہوگئی۔ایک سو سے زیادہ علماء نے ایک فتوے کے ذریعے سوشلزم کو کفر قرار دے دیا ۔سو وہ جماعتیں جن کے منشور میں سوشلزم کا لفظ شامل تھا، وہ اور اُن کے رہنما کافر قرار پائے۔

ذاتی الزام اس کے علاوہ تھے۔پیپلز پارٹی کے رہنما ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی والدہ پر جماعت اسلامی کے ہم خیال ایک جریدے نے انتہائی قابلِ اعتراض الزام لگائے تو بھٹو صاحب نے اس جریدے سے وابستہ ایڈیٹروں کو انتخابات کے بعد فکس اپ کرنے کا اعلان کردیا اور پھر اقتدار میں آنے کے بعد یہ کام کر بھی گزرے۔خود بھٹو نے دوسری جماعتوں کے لیڈروں کو القاب دینے سے گریز نہیں کیا۔مولانا مودودی کو ’اِچھرہ کا پوپ‘، میاں ممتاز دولتانہ کو’چوہا‘ اور قیوم خان کو ’ڈبل بیرل خان‘ کے القابات انہوں نے ہی دیے۔

پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں ملک کو ایک متفقہ آئین ملا جس کو آئین ساز اسمبلی میں موجود سب سیاسی جماعتوں کی تائید حاصل تھی۔حکومت کے کئی اقدامات اور پالیسیاں اپنے مجموعی اثرات کے حوالے سے بہتر بھی ثابت ہوئیں مگر ملک میں اور پارلیمان کے اندر جمہوری فضا قائم نہیں ہوسکی۔بھٹو ، حزب اختلاف کے حوالے سے جمہوری فراخ دلی کا مظاہرہ نہیں کرسکے تو حزبِ اختلاف کی کئی جماعتوں نے بھی حساب برابر کرنے میں کوئی تکلف نہیں کیا۔انہوں نے اپنی اسٹریٹ پاور کا بھرپور مظاہرہ کیا۔اپنی طلبہ تنظیموں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔حکومت نے حزب اختلاف کی اہم ترین جماعت نیشنل عوامی پارٹی کو غدار قرار دے کر اس پر پابندی لگادی اور اس کی پوری قیادت کو حیدر آباد جیل میں بند کردیاگیا۔

1977ء کی پیپلز پارٹی اور پی این اے کی انتخابی مہم اخلاقی زوال کی طرف ایک اور قدم ثابت ہوئی۔کراچی میں ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان نے بھٹو کوکوہالہ کے پُل پر پھانسی دینے کا اعلان کیا تو پی پی پی کی طرف سے اصغر خان کو ’آلو‘ قرار دیا گیا۔پی این اے نے ’گنجے کے سر پر ہَل چلے گا‘ کا نعرہ لگایا(ہَل، پی این اے کا انتخابی نشان تھا)۔بھٹو کے خلاف اور بھی نعرے گھڑے گئے جن کو ضبطِ تحریر میں لانا معیوب ہی ہوگا۔

الیکٹیبلز کا ورود

جنرل ضیاء الحق کے طویل دورِ حکومت میں سیاسی عمل ایک مرتبہ پھر رکا رہا۔ بھٹو کی پھانسی کے کوئی پانچ سال بعد انہوں نے غیر جماعتی انتخاب کروائے تو ایک اور نوعی تبدیلی ہمارے سیاسی کلچر میں درآئی ۔قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب سے بہت پہلے،1979ء میں بلدیاتی انتخاب کروائے جاچکے تھے۔لہٰذا بالکل نچلی سطح پر ایسے متحرک افراد کی ایک بڑی کھیپ تیار ہوچکی تھی جس کے مفادات اور دلچسپیاں بالکل مقامی نوعیت کی تھیں۔

ان کا قومی سیاسی امور کے حوالے سے کسی وژن کا حامل ہونا بالکل ضروری نہیں تھا۔یہ سرکاری فنڈز پر نظریں جمائے رکھنے والے لوگ تھے جنہیں ان فنڈز سے مقامی نوعیت کے اور ذات برادری کے مسائل حل کرنا تھے۔یہی عناصر 1985ء کے انتخاب میں جبکہ سیاسی جماعتیں اس سے باہر رکھی گئی تھیں، ملکی اور صوبائی سطح کی سیاسی قیادت کے طور پر ابھرے۔

بعد کے برسوں میں یہی عناصرایک مستقل سیاسی قوت بنتے چلے گئے۔یہ اپنے حلقوں میں پیسے کے ذریعے اور مقامی بااثر گروپوں کی پشت پناہی سے انتخاب جیتنے میں کامیاب ہوتے رہے۔یہی لوگ بعد میں ’جیتنے کے امکان رکھنے والے امیدوار‘ (Electables) کہلائے۔ جوں جوں ان کی حیثیت مسلّم ہوتی چلی گئی ویسے ویسے سیاسی جماعتیں مذکورہ حلقوں میں غیر اہم بنتی چلی گئیں۔پھرالیکٹیبلز نے انتخابات کے موقع پر سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے اُن کو اپنے وسائل بتائے۔چونکہ یہ اب سیاسی جماعتوں کی ضرورت بھی بن گئے تھے لہٰذاسیاسی جماعتیں بجائے خود وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ الیکٹیبلز کی مرہونِ منت بنتی چلی گئیں۔

یہ امیدوار باآسانی سیاسی وابستگیاں تبدیل کرسکتے تھے، یہ ایک انتخاب کسی جماعت سے اور دوسرا کسی اور جماعت سے جیتنے کی صلاحیت بھی حاصل کرچکے تھے۔ہمیں حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ موجودہ وفاقی کابینہ میں کتنے ایسے وزرا موجود ہیں جو اس سے پہلے مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور جنرل مشرف کے زمانے میں مسلم لیگ (ق) میں شامل تھے اور اسی طرح وزارتوں میں براجمان تھے۔ان افراد کی اگر کوئی سیاسی اقدار نہیں ہیں تو ان کا اخلاقی اقدار سے محروم ہونا بھی ناقابل فہم نہیں ہونا چاہیے۔ہم آئے دن ان کی زبان سے وہ جملے سنتے ہیں جن کو سننا کسی بھی مہذب شہری کی طبیعت پر گراں گزرنا چاہیے۔

سیاسی اخلاقیات کا زوال مزید اس وقت آگے بڑھا جب ضیاء الحق کی موت کے بعد اسلامی جمہوری اتحاد اور پیپلز پارٹی کے درمیان اگلے دس سال کی آویزش کا دور دورہ ہوا۔یہ وہ زمانہ تھا جب مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں نے تمام اخلاقی حدود کو پامال کرکے رکھ دیا۔ بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو صاحبہ کی تصاویر کو جعلسازی کے ذریعے بے ہودہ رنگ دے کر ہزاروں کی تعداد میں تقسیم کیا۔ملک میں باقاعدہ مہم چلائی گئی کہ ایک عورت کسی اسلامی مملکت کی حکمرانی نہیں ہوسکتی ۔ماضی میں بھی مہم محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف چلائی گئی تھی۔

عورت کی حکمرانی کی مذمت کرنے والوں نے ضروری سمجھا کہ عورت کو برا اور بدکردار بھی ظاہر کیاجائے۔ایک مذہبی پس منظر رکھنے والے رسالے نے بے نظیر کے ایک جلوس کی تصویر سرورق پر شایع کی جس میں وہ دونوں ہاتھ اٹھا کر تالیاں بجارہی تھیں۔اس تصویر کے نیچے سرخی لگائی گئی تھی_’ٹھمکے پہ ٹھمکہ‘۔ اُسی زمانے میں ایک اور لفظ ہماری لغت میں شامل ہوا اور وہ تھا’سیکیورٹی رِسک‘۔ بے نظیر بھٹو سیکیورٹی رِسک قرار پائیں۔گویا اب وہ ملک دشمن بھی تھیں۔

اسی زمانے میں نواز شریف کے اُس وقت کے قریب ترین رفقاء میں سے ایک شیخ رشید صاحب نے بے نظیر بھٹو کے حوالے سے ذو معنی فقرے کہنے اور اشاروں کنایوں میں ان کی کردار کشی کی شہرت حاصل کی۔پیپلز پارٹی کی قیادت اس حد تک تو نہیں گئی اور شاید بے نظیر بھٹو کا پارٹی کی قیادت پر فائز ہونا پارٹی کو تہذیب کے دائرے میں رہنے میں مددگار بھی ثابت ہوا لیکن بے نظیر صاحبہ نے جب پارلیمینٹ میں صدر غلام اسحٰق خان کے خلاف’’گوبابا گو‘‘ کے کورَس کی قیادت کی تو یہ بھی اُن کے امیج کو نقصان پہنچانے کا ذریعہ بنی۔

2006ء میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط ہونے کے بعد کم از کم ان دو جماعتوں کے درمیان مستقبل میں ایک دوسرے کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کرنے کے رجحان کو کسی حد تک کنٹرول کرلیا گیا مگرمختلف اوقات میں پرانی عادتیں پلٹ پلٹ کر واپس بھی آتی رہیں۔مسلم لیگ (ن) کی طرف سے سب سے زیادہ ہدفِ تنقید آصف زرداری بنے۔شہباز شریف ایک موقع پر یہ کہتے پائے گئے کہ وہ زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔؎

سب لیڈر کنٹینر پر اور قوم ڈی چوک میں ہے

ایک دوسرے کے خلاف طعن و تشنیع اور الزام تراشیوں کا یہ کلچر 2013ء کے انتخابات کے بعد اور بھی مضبوط ہوا۔اب تحریکِ انصاف کے چیئرمین سیاست کے مرکزی دھارے میں نمودار ہوئے ۔ماضی میں بھی وہ اپنے مخالفین کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کرتے رہے تھے۔ایک موقع پر انہوں نے چوہدری پرویز الٰہی کو جو جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے، سب سے بڑا ڈاکو قرار دیا تھا۔ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں انہوں نے شیخ رشید کے بارے میں کہا تھا کہ میں اس کو اپناچپڑاسی بھی بنانا پسند نہیں کروں گا۔واضح رہے کہ یہ دونوں مضمرات اس وقت عمران خان کے قریب ترین حلیف ہیں۔

جو صاحب ان کے چپڑاسی بننے کے اہل نہیں تھے وہ اس وقت وزیر داخلہ کی حیثیت سے قوم کی جان و مال کی حفاظت پر مامور ہیں۔ 2014میں انہوں نے اسلام آباد میں دھرنا دینے کا فیصلہ کیا۔ان کے اس اقدام میں پاکستان عوامی تحریک اپنے قائد علامہ طاہرالقادری کے ساتھ شامل تھی۔اس موقع پر پارلیمنٹ ہی کو ہدفِ تنقید بنالیاگیااور چونکہ حکومت اور حزب اختلاف کی باقی جماعتیں اس دھرنے کی مخالفت کررہی تھیں لہٰذا یہ سب جماعتیں چور اور ڈاکو قرار پائیں۔

عمران خان جو آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ ہیں اور جن کو مغربی دنیا کا بہت زیادہ exposureبھی حاصل ہے اُن سے توقع تھی کہ وہ ملک کے سیاسی کلچر کو اُس کے غیر اخلاقی عوامل سے پاک کرنے کا کام کریں گے لیکن انہوں نے تو اس کلچر کو اور بھی بڑھاوا دے ڈالا۔ایک پولیس افسر کو جس نے مبینہ طور پر دھرنے کے شرکاء کی پارلیمنٹ کی طرف پیش قدمی کو روکنے کی کوشش کی تھی، دھمکی دی کہ وہ خود اپنے ہاتھ سے اس کو پھانسی دیں گے۔اُس موقع پر اور 2018ء میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد توانہوں نے غیر پارلیمانی اور منتقمانہ زبان استعمال کرنے کو اپنی مستقل عادت بنالیا ہے ۔چور۔ ڈاکو ، بھگوڑا، یہ الفاظ وہ زرداری اور نواز شریف کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمن کو بھی ’مولانا ڈیزل کہتے ہیں ‘۔وہ مخالفین سے مخاطب ہوکر یہ نہیں کہتے کہ وہ ان کے خلاف عدالتوں میں مقدمات قائم کریں گے بلکہ وہ انصاف کا کام اپنے ہاتھ لے لیتے ہیں اور انفرادی انصاف کی اُس روش کا مظاہرہ کرتے ہیں جو انصاف نہیں بلکہ انتقام کی روش ہوتی ہے۔وہ اپنے مخالفین کو کہتے ہیں کہ میں ان کو چھوڑوں گا نہیں، میں ان کو جیلوں میں بند کروں گا،میں ان کو جیلوں میں اے سی نہیں لگانے دوں گا، یا ان سب لوگوں کو عبرت ناک سزا دوں گا۔یہ ساری باتیں کرتے وقت ان کو ایک لمحے کے لیے بھی یہ خیال نہیں آتا کہ سزائیں دینا عدالتوں کا کام ہوتا ہے اور مہذب ملکوں کے وزرائے اعظم بھولے سے بھی کوئی ایسی بات نہیں کہتے یا کرتے جس سے عدالتوں کے کام میں دخل اندازی کا پہلو نکلتا ہو۔

موجودہ حکومت کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد حکومت اور اپوزیشن کی جماعتوں کے درمیان الفاظ ، الزامات اور جو ابی الزامات کی ایک جنگ مستقل جاری ہے ۔حکومت کے بعض وزراء اب اپنی یہی پہچان رکھتے ہیں کہ ان کو اپوزیشن کی جماعتوں کے لیڈروں پر سخت لفظی وار کرنے ہیں۔پنجاب کے صوبائی وزیرفیاض الحسن چوہان،اور اسی طرح ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ، انتہائی قابلِ اعتراض زبان اپنی پریس کانفرنسوں اور ٹی وی کے پروگراموں میں استعمال کرتے ہیں ۔ٹی وی چینلوں کے ناظرین کو شاید وہ بدقسمت پروگرام یا د ہو جس میں ڈاکٹر صاحبہ اور کشمالہ طارق الجھ پڑی تھیں اور پھر ڈاکٹر صاحبہ کے منہ سے وہ فقرے ادا ہوئے جو ادا نہ ہوتے تو بہتر ہوتا۔ڈاکٹر صاحبہ نے اب مریم نواز صاحبہ کے لیے مسلسل ’راجکماری‘ اور ن لیگ کے خواتین کے لیے’ کنیزیں ‘کے الفاظ مختص کر چھوڑے ہیں۔

قومی اسمبلی کے اندروفاقی وزیر مراد سعید کی شاید ذمہ داری لگادی گئی ہے کہ انہوں نے بلاول بھٹو کی گفتگو کا توڑ کرنا ہے جس کے لیے وہ جائز اور ناجائز ہر طرح کی زبان استعمال کرتے ہیں۔جب وہ دلائل اور اعدادوشمار کے ذریعے گفتگو کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایسی گفتگو بھی کرسکتے ہیں جس کی ایک پارلیمینٹیرین سے توقع کی جاتی ہے لیکن اُن کو سطحی گفتگو کا رخ کرنے میں بھی دیر نہیں لگتی۔

بلاول بھٹو بالعموم شیخ رشید کی اشاروں کنایوں کی گفتگو کا بھی موضوع بنتے ہیں۔پیپلز پارٹی کی طرف سے بظاہر عبدالقادر پٹیل کی ذمہ داری ہے کہ وہ مراد سعید اور دیگر بلاول بھٹو مخالف تیروں کا جواب اپنے تیروں سے دیں۔خود بلاول حکومت کے خلاف وہ زبان تو استعمال نہیں کرتے جو اُن کے خلاف بعض وزراء استعمال کرتے ہیں لیکن ’بے غیرت‘ کا لفظ اب ان کی زبان پر بھی چڑھ گیا ہے اور یہ اکثر حکومت کے خلاف ہوتا ہے ۔یہ تو صرف چند مثالیں ہیں لیکن اگر ملک کی سیاسی فضا میں پھیلے ہوئے غیر پارلیمانی اور نازیبا الفاظ کی تلاش اور اُن کے شمار کا ناخوشگوار کام کیا جائے تو شاید یہ سلسلہ ختم ہونے کا نام نہ لے۔

قابلِ اعتراض اور غیر پارلیمانی زبان کیوں استعمال کی جاتی ہے ؟

سوال یہ ہے کہ کبھی کھل کر اور کبھی اشاروں کنایوں میں مخالفین کے خلاف نازیبا گفتگو کیوں کی جاتی ہے ؟اس کا ایک سبب تو وہی ہے جس کی طرف اشارہ کیا جاچکا ہے کہ بدقسمتی سے ہماری سیاسی قیادت کے پاس قوم کے سامنے رکھنے کے لیے نہ تو کوئی ٹھوس پروگرام ہوتا ہے ، نہ ہی انہوں نے ملک کے حقیقی معاشی،اور سماجی مسائل کے بارے میں سنجیدہ تحقیق اور مطالعے کی زحمت گوارا کی ہوتی ہے۔ہماری سیاسی قیادت پہلے اقتدار میں آنا چاہتی ہے ۔اقتدار میں آنے کے بعد اُس کو اس سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ مختلف شعبوں میں اب وہ کیا کرے۔

چنانچہ ٹیکنوکریٹ ڈھونڈے جاتے ہیں، ملک میں وہ دستیاب نہ ہوں تو باہر سے منگوائے جاتے ہیں۔ٹیکنوکریٹس، تیاری کے بغیر وزارتوں میں براجمان ہوجانے والے وزراء کا کام آسان کردیتے ہیں انہیں اعدادو شمار کے گورکھ دھندوں کے ذریعے پوری کابینہ کو شیشے میں اتارنے کا ہنر آتا ہے ۔کابینہ کے سیاسی پس منظر رکھنے والے اراکین اپنے محکموں کے سرکاری افسروں پربھی انحصار کرتے ہیں۔جب اپنے پلّے کچھ علم ، اور شعبہ جاتی مہارت نہ ہو تو پھر اپنی موجودگی صرف بیان بازی اور مخالفین پر شخصی حملوں کے ذریعے ہی ثابت کی جاسکتی ہے۔ اور اگر اس کارکردگی پر اگلے روز شاباشی بھی ملتی ہو تو پھر یہی کام ان وزراء کو زیادہ حوصلہ افزا اور سود مند محسوس ہونے لگتا ہے۔

گالم گلوچ : کیا یہ عوامی زبان ہے ؟

اخلاقی زوال کے مظہر فقروں ، جملوں اور تبصروں کاایک جواز بعض سیاستدان یہ کہہ کر پیش کرتے ہیں کہ وہ تو عوامی لوگ ہیں اور عوامی زبان بول رہے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ اُن کا یہ خیال عوام کی توہین کے مترادف ہے۔ یہ ہماری اشرافیہ اور مڈل کلاس کا تاریخی وطیرہ ہے کہ وہ ہر برائی کو، ہر برے رویے ،خیال کواوریہاں تک کہ بری زبان کوبھی عوام سے منسوب کردیتے ہیں ۔وہ پسماندہ ، ناخواندہ اور نیم خواندہ لوگوں کو برائیوں کی جڑ سمجھتے ہیں اور یوں خود اپنی صفوں کی برائیوں اور اپنے ذہن کے گند کو بھی عوام سے منسوب کردیتے ہیں۔

وہ یہ دیکھنے سے قاصر ہوتے ہیں یا وہ عمداً اس حقیقت سے آنکھیں چراتے ہیں کہ ایک چیز عوامی دانش بھی ہوتی ہے ۔عوام نے بھی اپنے تلخ تجربات سے، اور زندگی کی اونچی نیچی گھاٹیوں سے گزر کر بہت عقل اور سمجھ بوجھ اصل کی ہوتی ہے ۔اُن کو بھی سود و زیاں کا ایک بہتر فہم حاصل ہوتا ہے ۔لیکن ہمار ی سیاسی قیادت اس عوامی دانش سے نہ تو استفادہ کرتی ہے ۔اورنا ہی وہ اس سے کسی بھی قسم کا تعلق رکھنا چاہتی ہے۔

جب شیخ رشید یہ کہتے ہیں کہ وہ روز لال حویلی کے باہر دکانداروںاور کوچوانوں کے ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کرتے ہیں تو یہ واقعی خوشی کی خبر ہوتی ہے لیکن پھر ذہن یہی سوچتا ہے کہ ان محفلوں میں صرف ہنسی مذاق اور ٹھٹھے بازی تو نہیں ہوتی ہوگی، لوگ بتاتے ہوں گے کہ آٹے دال کے بھائو کیا ہیں ، صبح سے شام کرنا ایک عام آدمی کے لیے کتنا دشوار ہے اور ہوسکتا ہے کہ کوئی سادہ لوح ، غریب آدمی اُن کویہ بھی بتادیتا ہو کہ چھ سات مرتبہ وزیر رہنے والے سیاستدان سے لوگ کسی بڑی کارکردگی کا ریکارڈ جاننا چاہتے ہیں بجائے سیاسی موشگافیاں ، اور مستقل کی پیشن گوئیاںسننے کے ۔

سیاستدانوں کی قابل اعتراض زبان، معاشرے پر مضر اثرات

ہمارے بعض غیر ذمہ دار سیاستدانوں نے اپنی قابلِ اعتراض زبان سے معاشرے میں سیاسی کلچر کو جو پراگندہ کیا ہے اس کے بڑے دوررس نتائج سامنے آرہے ہیں۔یہ نتائج معاشرے کی اتھاہ گہرائیوں تک پہنچ رہے ہیں اور معاشرے کے سب ہی طبقے ، مردو خواتین اور نئی نسل سب اس سے متاثر ہورہے ہیں۔پارلیمانی نظام کے بارے میں سیاسی مفکروں نے یہ رائے قائم کی تھی کہ یہ قوم کی تربیت کا ایک بہت اچھا ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔پارلیمان میں ہونے والی سنجیدہ گفتگو ، سیاسی جماعتوں کے درمیان رواداری کا چلن اور ایک دوسرے کے اوپر تنقید کا مہذب اسلوب ، یہ ایسی چیزیں تھیں جو سیاسی جماعتوں کے کارکنوں تک پہنچتیں اور ان سے ان کی ترسیل عوام تک ہوتی۔

اب سے تیس پینتیس سال قبل جب برطانیہ میں ہائوس آف کامنز کی کاروائی کو ٹیلی وژن پر پیش کرنے کے بارے میں ایک ڈیڑھ سال تک غورو فکر ہوا تو اس دوران اکثریت کی یہی رائے بنی کہ ٹیلی وژن پر یہ کاروائی دکھانے سے ایک تو رائے دہندگان کو اپنے منتخب نمائندوں کی کارکردگی سے آگاہی حاصل ہوگی اور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ایوان کے اندر اختلاف ِ رائے کے مہذب طریقے معاشرے کی نظر میں آئیں گے اور یوں معاشرے کی اخلاقی صحت پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

دنیا کے سب ہی پارلیمانی ایوانوں میں بحث و مباحثے کا معیار بہت اچھا نہیں ہے لیکن پھر بھی ایسے ہر ایوان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ قوم کی اخلاقی تربیت کا ایک مناسب فورَم ثابت ہوگا۔بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایوان ہی لڑائی جھگڑوں کا اور بدکلامی کا مرکز بن چکے ہیں نتیجتاً سیاسی جماعتوں کے دوسری اور تیسری صفوں کے رہنما بھی گلی محلوں میں یہی زبان استعمال کرتے ہیںاور اب چینلوں کی بہتات نے اس عمل کو او ر بھی زیادہ توسیع دے دی ہے۔بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو اب سیاسی اخلاقیات کے زوال کا سب سے بڑا مظہر سوشل میڈیا بن چکا ہے جس میں سیاستدانوں کے بارے میںانتہائی غلیظ زبان استعمال کی جاتی ہے ۔اور بھی افسوس ناک بات یہ ہے کہ ملک کی اکثر بڑی جماعتوں نے خود اپنے ایسے سوشل میڈیا سیل بنارکھے ہیں جن کا مقصد مخالفین کی کردار کشی کرنا ہے۔

اس مسئلے کا حل کیا ہو؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی اخلاقیات کے زوال کے اس رجحان کے آگے بند کس طرح سے باندھا جائے اور اپنی نئی اور آنے والی نسلوں کو یہ کیونکر باور کرایا جائے کہ سیاست ایک مقدس عمل ہے اور انسان کی انفرادی نشوونما اور معاشرے کے ارتقا کے لیے سیاست ناگزیر چیز ہے ۔سیاست اور ریاست کے حقیقی مفہوم کو اجاگر کرنے کے لیے اور سیاسی جماعتوں کے حقیقی جمہوری کردار کو نمایاں کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اول تو موجودہ سیاسی جماعتوں کے سنجیدہ اور مخلص رہنما اور کارکن اپنی جماعتوں کی سطح پر اپنا کردار ادا کرنے کی اہمیت کو سمجھیں۔

ملک کی سیاسی جماعتوں کو بھی مل کر اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ سیاسی کلچر کی بربادی کا نقصان صرف ان کی حریف جماعت کو نہیں بلکہ ان کی اپنی جماعت کو بھی پہنچ رہا ہے ۔اس سلسلے میں رائے عامہ کو بیدار کرنے کے لیے سول سوسائٹی بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہے ۔سول سوسائٹی کا یہ کام بھی ہونا چاہیے کہ وہ ٹی وی چینلوں کے منتظمین اور سوشل میڈیا سے متعلق قوانین پر عملدرآمد کرانے والے اداروں کومجبور کریں کہ وہ بداخلاقی کو عام ہونے سے روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ظاہر ہے کہ یہ ایک بڑا اور مشکل کام ہے لیکن یہ کام کیے بغیر ہم اپنے سیاسی اخلاق کے زوال کے عمل کو روک بھی نہیں سکتے ۔

تازہ ترین