• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اردو دنیا کی ممتاز افسانہ نگار شمع خالد دُنیا چھوڑ گئیں۔ ان کا انتقال راولپنڈی میں ہوا۔ گزشتہ کئی برسوں سے علیل تھیں۔ اُن کے افسانوں میں زندگی کی شمع ہر رنگ میں جلتی تھی۔

خُوب صورت ذہن اور مثبت سوچ، زندگی کی تلخ حقیقتوں کو سمجھنے میں آسانی پیدا کردیتی ہے۔ کسی بھی فن سے کئی دہائیوں تک وابستہ رہنا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی۔

راول پنڈی سے تعلق رکھنے والی شمع خالدنے اپنا قلم سے رشتہ اس وقت جوڑا تھا، جب بچے کھلونوں اور گڑیوں سے کھیل پر اپنا دل خوش کرتے ہیں۔

انہوں نے زندگی کی جنگ قلم سے لڑنے کا فیصلہ کیا۔ وہ اس جنگ میں ہار جیت کی پروا کیے بغیر آگے بڑھتی رہیں، انہیں شہرت اور کامیابی کا کبھی لالچ نہیں رہا۔ وہ لکھتی رہیں اور آگے بڑھتی رہیں۔ اس تخلیقی سفر میں اپنے پڑھنے والوں کو کتابوں کے تحائف دیتی رہیں۔

شمع خالد نے ساری زندگی قلم کی آب یاری میں گزاری۔ پتھریلے چہرے 1985ءگیان کا لمحہ 1990ء بے چہرہ شناسائی 1995ءگمشدہ لمحوں کی تلاش 2003ءاور بند ہونٹوں پہ دھری کہانیاں نے 2007ء میں شائع ہوکر مقبولیت حاصل کی۔

اُن کے فن پر اب تک 8 تھیسز اور ایک بار ایم فِل ہوچکا ہے۔ وہ کہتی تھیں کہ’’ ابھی تک میں نے دو سو کے لگ بھگ افسانے لکھے ہیں۔ میں اکثر اپنے آپ سے سوال کرتی ہوں کہ میں نے افسانے کیوں لکھے اور دل سے جواب آتا ہے کہ اس کے علاوہ اور کیا کرتی۔ جی ہاں! اگر میں افسانے نہ لکھتی تو میرے پاس زندہ رہنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ بظاہر میں ایک کامیاب براڈ کاسٹر ایک ماں بیوی اور بہن ہوں اور عورت کے لیے یہ ہونا ہی بہت ہوتا ہے۔ لیکن میں سوچتی ہوں کہ اگر میں افسانے نہ لکھتی تو مرچکی ہوتی۔

میرے افسانوں نے ہی مجھے زندہ رہنے کا حوصلہ دیا ہے۔ ان کے کردار میری روح میری سوچ کا حصہ ہیں کہ یہ کردار میری خوشی کے وقت رقص کرتے ہیں۔ اور دُکھ کے وقت میرے غموں کو آہستہ آہستہ چُن کر مجھے خاموش کردیتے ہیں۔‘‘

اردو دنیا کے ممتاز افسانہ نگار اور ادیب احمد ندیم قاسمی نے تقریباً 40 برس قبل شمع خالد کے پہلے افسانوی مجموعے ’’پتھریلے چہرے‘‘کی اشاعت کے موقع پر لکھا تھا کہ ’’شمع خالد کے افسانے حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں اور وہ یہ افسانے حقیقت پسندانہ انداز میں یوں لکھتی ہیں کہ فن کے تقاضے بھی پورے ہوتے ہیں اور معاشرے کے بارے میں بعض ڈھکی چُھپی سچائیوں کے انکشاف کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ کہانی سنانے یا لکھنے کا یہی وہ خوبصورت انداز ہے جو چیخوف، موپساں، منٹو اور بیدی سے ہوتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے۔


شمع جانتی ہیں کہ کسی بھی صنف کے امکانات ختم نہیں ہوسکتے اور اس لیے حقیقت پسندانہ کہانیوں کے امکانات آج بھی بھرپور فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔

شمع کے مطالعہ و مشاہدہ کی کوئی حد مقرر نہیں۔ ہر وہ واقعہ یا کردار جو ان کے تجربے میں آتا ہے۔ ایک گُھٹی ہوئی کہانی کی صورت میں ‘انتہائی سادگی اور قرینے سے اظہار پاتا ہے۔ شمع بات چیت کے انداز میں کہانی سُناتی ہیں۔ اس لیے نہ کہیں فن کی نمائش ہے اور نہ وہ کسی واقعے کی انفرادیت یا کسی کردار کی پوری پوری ترجمانی یا اتراہٹ کا اظہار کرتی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ وہ سچی اور کھری کہانی کار ہیں اور اس لیے ان کے بارے میں اعتماد کے ساتھ پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ اگر انہوں نے فنی ریاضت جاری رکھی تو ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے ان کا مستقبل تابناک ہوگا۔‘‘ اب وہ اس دُنیا میں نہیں رہیں، لیکن ان کا تخلیقی کام ان کو ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ میرا رب ان کی مغفرت فرمائے۔ (آمین)

تازہ ترین