دنیا کے نقشے پر نظر ڈالی جائے تو ہرقوم نے آزادی کے حصول کیلئے بے شمار قربانیاں پیش کی ہیں،آج ہم پاکستان کی آزاد فضاؤں میں سانس لیتے ہیں تو اس کی بڑی وجہ بابائے قوم قائداعظم کی زیر قیادت تحریک پاکستان کی انتھک جدوجہد ہے، تاہم آزادی کے بعد جن ممالک نے اپنے بابائے قوم کے وژن کوہمیشہ یاد رکھا، وہ نہ صرف اندرونی طور پر ایک پرامن معاشرہ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے بلکہ عالمی سطح پر بھی بے مثال کامیابیوں کا حصول ممکن ہوگیا، آج ماریشس کے قومی دن کے موقع پر میرے اس کالم کا مقصد بحرِہند پر واقع قدرتی خوبصورتی سے مالامال افریقی جزیرے ماریشس کی ملکی تاریخ کے دو بڑے واقعات کا احاطہ کرنا ہے جنہوں نے ماریشس کی جدوجہد آزادی کو نیا موڑ دیا۔ ماریشس نے اپنے بابائے قوم اور پہلے وزیراعظم سر شِوساگر رام غلام کی قیادت میںآج سے 53سال قبل بارہ مارچ 1968ء کو برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کی اور ٹھیک چوبیس سال بعد بارہ مارچ ہی کے دن 1992ء میں مکمل طور پر آزاد جمہوری ملک بننے میں کامیاب ہوگیا۔مجھے دنیا کے اس خوبصورت ترین ملک کا دورہ کرنے کےکئی مواقع میسر آئے ہیں،ہر مرتبہ میں نے یہاں کے مقامی لوگوں کو پہلے سے زیادہ مہمان نواز، ملنساراور نرم دل پایا ہے، ماریشس دنیا کے نقشے پر ایک ایسا بے مثال ملک ہے جسے جغرافیائی طور پر ایک افریقی ملک سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے باسیوں کا دِل برصغیر میں بسنے والوں کے ساتھ دھڑکتا ہے، اردو زبان پورے ماریشس جزیرے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے،آبادی کے تناسب سے ہندودھرم کے ماننے والوں کی تعداد اکاون فیصدہےجو اکثریت میںہیں جبکہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں میں مسلمان، کرسچیئن، بدھ اور دیگر شامل ہیں ۔اس خوبصورت افریقی جزیرے کو 9ویں صدی عیسوی میں جب عرب تاجروں نے دریافت کیا تو یہاں ہر طرف گھنے جنگلات اور جنگلی حیات تھی، ماریشس اپنی منفرد اور جداگانہ جیو اسٹریٹیجک پوزیشن کی بناء پر نوآبادیاتی دور میں مغربی سامراجی قوتوں بشمول پرتگال، فرانس اورڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کے نشانے پر بھی رہا، یہ خوبصورت جزیرہ 18ویں صدی کے اوائل میں تاج برطانیہ کا حصہ بن گیا،برطانوی دور اقتدار میں موجودہ پاکستان اورجنوبی ایشیا کے علاقوں کے بے شمار باشندوں نے ماریشس کا رُخ کیا، بیسویں صدی کے اوائل میں مہاتما گاندھی جی نے بھی ماریشس کا تاریخی دورہ کیا، انہوں نے دو ہفتوں پر محیط اپنے دورے کے دوران ماریشس میں بسنے والوں پر زور دیا کہ وہ تمام تر تعصبات سے بالاتر ہوکر اپنے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کریں۔ماریشس میں 1966ء میں قومی انتخابات کے نتیجے میں برطانوی تسلط سے آزادی کی حامی لیبر پارٹی اور اتحادی جماعتیں کامیاب ہوگئیں، دو سال بعد بارہ مارچ 1968ء کوماریشس نے خودمختاری کے حصول کیلئے اپنا نیاآئین متعارف کراتے ہوئے برطانیہ سے آزادی کا اعلان کردیا، تاہم برطانوی ملکہ الزبتھ دوئم بدستور سربراہ مملکت رہیں جبکہ ماریشس کے پہلے وزیراعظم سر شِوساگر رام غلام منتخب ہوگئے۔ٹھیک چوبیس سال بعد بارہ مارچ ہی کے دن 1992ء میں ماریشس نے برطانیہ کے تسلط سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کرتے ہوئے جمہوری ملک ہونے کا اعلان کردیا۔ جمہوریہ ماریشس آئینی طور پر تمام شہریوں کو یکساں مذہبی آزادی فراہم کرتا ہے ۔ یہاں دیوالی، عید، کرسمس اوردیگر مذہبی تہوارات کے موقع پرسرکاری تعطیل ہوتی ہے اور تمام مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کی خوشیوں میں بھرپور انداز میں شریک ہوتے ہیں۔ جزیرے بھر میں قائم مندر، مسجد، گرجا گھروں اور دیگر مذہبی عبادتگاہوں کی موجودگی ریاست کی مذہبی ہم آہنگی پر مبنی امن دوست پالیسی کی نشاندہی کرتی ہے، ماریشس کی پہلی مسجد مسجدالاقصیٰ اور برصغیر کے ایک صوفی جمال شاہ کے سنگِ مرمر سے تعمیر شدہ مقبرے سے ملحقہ جمعہ مسجد کو خوبصورت ترین مذہبی مقامات کا اعزاز حاصل ہے۔ ماریشس کے خوبصورت پہاڑوں میں واقع گنگا تلاؤ جھیل ہندوؤں کا مقدس ترین مقام ہے جہاں روزانہ ہزاروں یاتری حاضری دیتے ہیں، دریائے گنگا سے منسوب مقدس جھیل کے کنارے ساگر شِو مندر، ہنومان مندر، گنیش مندر اور گنگا دیوی مندر بھی قائم ہیں، مہاشِویاتری کے موقع پر ہندو زائرین اپنے گھروں سے گنگا تلاؤ تک کا سفر ننگے پاؤں طے کرتے ہیں۔ہر سال بارہ مارچ کے دن ملکی تاریخ کے ان دو بڑے اہم واقعات کو منانے کیلئے ماریشس میں قومی تعطیل ہوتی ہے، جمہوریہ ماریشس کے قومی پرچم کشائی کی عظیم الشان تقریب دارالحکومت میں منعقد کی جاتی ہے جہاں ملٹری پریڈ اور موسیقی کی دھنوں سے جذبہ حب الوطنی اجاگر کیا جاتا ہے، جمہوریہ ماریشس کا قومی پرچم چار رنگوں پر مشتمل ہے جو وہاں کے معاشرے کی کثیرالجہتی رواداری اورسماجی ہم آہنگی کی عکاسی کرتا ہے۔ ماریشس کی اقتصادی خوشحالی کی بات کی جائے تو براعظم افریقہ میں سب سے زیادہ فی کس آمدنی ماریشس کے عوام کی ہے،میں سمجھتا ہوں کہ ماضی میں مختلف اقوام کے زیراثر رہنے والا آج کا ماریشس سماجی ہم آہنگی ، مذہبی رواداری اور ترقی و خوشحالی کی جیتی جاگتی مثال ہے، تاہم میں نے اپنے گزشتہ دورے کے دوران محسوس کیاتھا کہ ماریشس میں پاکستانی سفارتخانہ غیرمتحرک ہونے کی بناء پر بھارتی لابی وہاں تیزی سے اپنا اثرورسوخ بڑھا رہی ہے۔ آج بارہ مارچ کو میں ماریشس کے عوام کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہوئے اپنے پاکستانی ہم وطنوں سے بھی اپیل کرنا چاہوں گا کہ خدارا، ہوش کے ناخن لیں، ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک ترقی و خوشحالی کی دوڑ میں ہم سے آگے نکل چکے ہیں، ہمیں سمجھنا چاہئے کہ ماریشس کی ترقی کا راز اپنے معاشرے میں برداشت اور رواداری کا کلچرعام کرنا ہے ، ہمیں ماریشس جیسے دوست ممالک کے ساتھ دوطرفہ تعاون کے وسیع مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے، اسی طرح ہمیں سفارتکاری کے محاذ پر دقیانوسی پالیسیوں کو خیرباد کہنے کی بھی ضرورت ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)