پیارےبچو! آج ایسے سے ملیں جو گھروں سے کچرا اٹھا کر سرجانی ٹاؤن کی پہاڑی پر واقع لینڈ فل سائٹ لے جاکر ٹھکانے لگاتا ہے۔ اس کی عمر ابھی صرف چار سال ہے لیکن، سردی ہو یا گرمی ، فجر کی اذان سے پہلے ، جب لوگ اپنے نرم بستروں پرمیٹھی نیند کے مزے لے رہے ہوتے ہیں، یہ گھروں کا کچرا اٹھانے آتا ہے۔ نماز کے لیے اٹھنے والے لوگ گلابی اردو میں اس بچے کی مہین اور باریک سی آواز میں صدائیں سنتے ہیں ۔ زیادہ تر لوگ کوڑا کرکٹ رات کو ہی گھر سے باہر رکھ دیتے ہیں۔
محمد اسماعیل جس کے ہم عمر بچوں کی طرح کھیلنے کودنے، فرمائشیں پوری کرانے کے لیے ماں باپ سے ضد کرنے کے دن ہیں۔ لیکن یہ اپنے ماں ، باپ، بہن ، بھائیوں کا پیٹ پالنے کے لیے ، والد اور بڑے بھائی کا دست بازو بننے پر مجبور ہے۔اسماعیل خان،خیبر پختون خوا کے ضلع بٹ گرام میں پیدا ہوا، جہاں اس کے والد ہیبت خان ،محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کو پیٹ بھر کے کھانا مہیا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ کبھی کبھار کام نہ ملنے کی وجہ سے انہیں خالی ہاتھ گھر واپس آنا پڑنا تھا۔
اس کی ماں کے علاوہ ایک بڑا بھائی ہے، جو دس سال کا ہے جب کہ اس سے چھوٹی ایک بہن ہے۔ رشتے کے ایک چچا نے ان لوگوں کو کراچی بلا لیا اور وہ یہاں منگھو پیر میں رہنے لگے۔ اسماعیل کے والد کو نارتھ کراچی میں گھروں سے کچرا اٹھانے والے ٹھیکیدار کے پاس ملازمت مل گئی تواس نے مزدور کے طور پر اپنے دونوں بیٹوں کو بھی ساتھ رکھنے کی اجازت لے لی۔ ٹھیکیدار نے اس کے والد کو ایک گدھاگاڑی دے رکھی ہے جس پر تقریباً ایک ٹن کچرا رکھنے کےلیے بڑا سا ٹوکرا رکھا ہوا ہے۔گزشتہ ایک سال سے، سردی ہو یا گرمی ، اسماعیل صبح اذان سے قبل بستر چھوڑ دیتا ہے اوراپنے باپ اوربھائی کے ساتھ گدھا گاڑی پر سوار ہوکر نارتھ کراچی، خواجہ اجمیر نگری آتا ہے۔
یہاں انہیں سیکٹر 2میں200 گلیوں کےتقریباً چھ ہزار مکانوں کا کچرا اٹھانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ علاقے میں داخل ہوتے ہی دونوں بھائی گاڑی سے نیچے اتر کر اپنے ننھے ننھے ہاتھوں میں ٹوکریاں پکڑ کر گھروں کے باہر رکھی ہوئی ڈسٹ بن خالی کرتے ہیں۔ اس دوران نماز فجر کے لیے جاگنے والے افراد کو ننھے اسماعیل کی باریک اور مہین سی آوازسنائی دیتی ہے جو وہ ٹوٹی پھوٹی اردو میں ’’گیت ‘‘ کی صورت میں لوگوں سے کچرا گھروں کے باہر رکھنے کی درخواست کرتے ہوئے گاتا ہے۔
باپ گدھا گاڑی لیے ان کے ساتھ ساتھ پیدل چلتا ہے اور ان کے ہاتھ سے کچرے سے بھری ٹوکریاں لے کر گاڑی پر رکھے ٹوکرے میں خالی کرتا ہے۔تمام گھروں سے کچرا اٹھانے کے بعد تینوں باپ بیٹے سرجانی کی پہاڑی سے آگے لینڈ فل سائٹ میں پھینکنے جاتےہیں۔یہ ان کا روز کا معمول ہے۔ ہیبت خان سے بچوں کی تعلیم کے بارے میں سوال کیا گیا تو اس کاجواب تھا کچرا اٹھانے کی مزدوری سے دو ووقت کی روٹی مشکل سے کھا پاتے ہیں کیوں کہ زیادہ تر رقم گھر کے کرائے میں چلی جاتی ہے، ایسےاسکول کی فیس، کتابوں ، کاپیوں کا خرچہ کیسے اٹھائیں؟
پھر انہیں پڑھانے کا کیا فائدہ، لکھنے پڑھنے کے بعد اچھی نوکری تو ملنے سے رہی، آج کل تعلیم یافتہ لڑکوں کوبغیر رشوت یا سفارش کے ڈھنگ کی نوکری ملنا مشکل ہے تو کچرا چننے والے بچوں کو کون ملازمت دے گا۔ اس کا کہنا بھی ٹھیک ہے لیکن کیا معصوم اسماعیل اور ابراہیم ساری زندگی علاقوں کا کوڑا کرکٹ اکٹھا کرتے ہوئے ، اپنی زندگی کچرے کے ڈھیر میں ہی گم کردیں گے؟