نہایت خوبصورت لکھاری اور میرے عزیز دوست فاروق عادل نے گزشتہ روز میرے چند کالم مجھے وٹس ایپ کئے اور میں نے جب ان کی تاریخ اشاعت پڑھی تو حیران رہ گیا، یہ میرے 45سال پہلے کے لکھے کالم تھے جو ایک موقرمعاصرروزنامہ میں باقاعدگی سے شائع ہوتے تھے ۔ان میں سے ایک کالم قندِمکرر کے طور پر درج ذیل ہے جو 6مئی 1977ء کو شائع ہوا تھا ۔
’’ہم نے لاہور چھوڑا تو یہاں کرفیو بھی لگ گیا اور مارشل لابھی لگ گیا اور جب ہم واپس پہنچے تو شام کے ساڑھے پانچ بجے تک کرفیو اٹھا لیا گیا تھا اور اس دوران سڑکیں زندگی کے ہنگاموں سے معمور ہوگئی تھیں ۔صرف یہی نہیں بلکہ ہمارے لاہور پہنچنے کے اگلے روز کرفیو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا او ریوں کرفیو پاس جیب میں ڈال کر سونی گلیوں میں مرزا یار کی طرح پھرنے کی خواہش پوری نہ ہو سکی ۔
جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا ہم کرفیو کی نعمتوں سے بہرہ ور نہیں ہو سکے، ہمارے دوستوں نے بتایا ہے کہ ان دنوں ان کا سارا وقت گھر میں بسر ہوتا تھا۔ وہ ریڈیو پاکستان سے گانے اور بی بی سی سے خبریں سنتے تھے ۔ ٹی وی سے فلمیں دیکھتے تھے اور لکھنے پڑھنے میں لگے رہتے تھے ۔شادی شدہ دوستوں کے مطابق یہ ان کی ازدواجی زندگی کے خوشگوار ترین دن تھے کیونکہ وہ گھر سے باہر قدم نہیں رکھتے تھے ، ان کے دوست ان کے گھر نہیں آتے تھے اور بیوی کو چائے تیار نہ کرنا پڑتی تھی ۔بچوں نے اپنے باپ کی شکلیں پہچاننا شروع کر دی تھیں کہ اب وہ انہیں دن کی روشنی میں بھی دیکھتے تھے ۔سب سے بڑی بات یہ کہ سارا دن اور ساری رات چند مربع فٹ زمین میں مقید رہنے کے باعث وہ ’’بیکار مباش کچھ کیا کر‘‘ کے مصداق کچھ نہ کچھ کرتے رہتے تھے مثلاً یہ کہ گھر کے کام کاج میں بیوی کا ہاتھ بٹاتے تھے اور اس کی دعائیں لیتے تھے ۔سو صورتحال یہ تھی کہ کرفیو کے باعث یار لوگ ایک کمرے میں بند تھے اور چابی کھو گئی تھی۔چنانچہ اس کرفیو کے کچھ نتائج تو ابھی ہمارے سامنے آ گئے ہیں اور باقی نتائج کچھ مہینوں بعد ’’ڈلیور‘‘ ہوں گے!
اور اس چابی کھو جانے سے ہمیں یاد آیا کہ سہالہ کے ر یسٹ ہائوس میں بھی کچھ ’’لو برڈز ‘‘ (LOVE BIRDS)جمع ہیں اور چابی کھو گئی ہے مگر یہ چابی کھو جانے و الی بات یہاں کچھ متنازعہ فیہ ہے ۔کہا جا رہا ہے کہ جس ریسٹ ہائوس میں یہ لوگ بند ہیں ، وہ اندر سے بھی کھلتا ہے اور باہر سے بھی کھل جاتا ہے ،چنانچہ چابی کھوئی نہیں ہے بلکہ ایک چابی اندر والوں کے پاس ہے اور ایک چابی باہر والے کی جیب میں ہے۔ اندر والے جب چاہیں باہر آ سکتے ہیں اور باہر والا جب چاہے یہ تالہ کھول سکتا ہے ۔جو لوگ ریسٹ ہائوس کے اندر ہیں وہ باہر آنا چاہتے ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ اسیری اور رہائی میں کچھ فرق ہونا چاہئے ۔یہ نہ ہو کہ وہ ایک کمرے سے نکلیں اور کسی دوسرے کمرے میں بند ہو جائیں۔دوسری طرف باہر والے اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہیں اور یوں ابھی تک یہ ’’لو برڈز‘‘ ایک کمرے میں بند ہیں مگر اب طرفین کے کچھ دوست بیچ میں پڑے ہیں جس سے یہ توقع بندھی ہے کہ مفاداتی طبقے کی خواہشوں کے باوجود یہ چمن یونہی ہرا بھرا رہے گا اور طائرانِ خوشنوا سے اس کی فضائیں معمور ہوں گی!‘‘