• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غیر معیاری تعلیم اور نظامِ تعلیم.... ذمے دار کون؟

تعلیم ہر معاشرے اور مُلک کی تعمیر و ترقّی میں نمایا ں کردار ادا کرتی ہے، اسی لیے ترقی یافتہ ممالک اس حقیقت کو بہت پہلے تسلیم کر کے اس حوالے سے بنیادی اور موثر اقدامات کر چُکے ہیںاور اسی لیے آج ان کا شمار ترقّی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔لیکن بد قسمتی سےترقّی پذیر ممالک، بالخصوص پاکستان اس حقیقت کو جان کر بھی موثر اقدامات کرنے میں کام یاب نہیں ہو سکا،جس کی مختلف وجوہ ہو سکتی ہیں، جیسے اجتماعی جدوجہد، لگن ، جوش و جذبہ اورتعلیم کا مُلکی ترجیحات میں شامل نہ ہونا۔

’’ Trends in International Mathematics and Science Study ‘‘ ایک بین الاقوامی ادارہ ہے، جو 1995 ء سےدنیا کے مختلف ممالک کے تعلیمی معیارات پر کھتاآ رہا ہے، یہ چوتھی اور آٹھویں جماعت کے بچّوں سے سائنس اور ریاضی جیسے مضامین کے امتحانات لے کرمختلف ممالک کا معیارِ تعلیم جانچتا ہے۔یہ امتحان ہر چار سال بعد لیا جاتا ہے اور 2019 ء میں 64 ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان نے بھی پہلی بار اس پروگرام میں حصّہ لیا، لیکن یہاںسے صرف جماعت چہارم کے بچّوں نےامتحان دیا اور 63 ویں پوزیشن حاصل کی۔

ہمارا خیال تھا کہ شاید اس نتیجے کو دیکھتے ہوئے حکمران اگلے ہی دن ایک ہنگامی اجلاس بلا کر تعلیمی ایمرجینسی نافذکرنے کا اعلان کردیں گے، لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ ویسے یقیناً یہ نتائج ہم سب کےلیے پریشان کُن تو ضرور ہیں ،لیکن انوکھے نہیں۔بہر حال، سوال یہ ہے کہ اس مسلسل بگڑتےہوئے تعلیمی معیار کا ذمّے دار آخر ہےکون؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے، ’’ اساتذہ‘‘۔اساتذہ ،جن کا اصل کام بچّوں کو پڑھانا ہے، لیکن وہ توکبھی بچّوں کو پولیو کے قطرے پلا رہے ہوتے ہیں، تو کبھی الیکشن، مردم شماری میں ڈیوٹیز سر انجام دیتےنظر آتے ہیں ۔ انہیں بچّوں کو پڑھانے کی ذمّے داری تو سونپی جاتی ہے، لیکن تعلیمی حوالے سے پالیسی سازی میں ان کی رائے شامل نہیںکی جاتی۔ تو کیا واقعی اساتذہ مجبور ہیں؟ 

اساتذہ مجبور تو ضرور ہیں، لیکن کم زور نہیں کہ جب پروموشن، تن خواہوں کی بات ہو، تب بھی تو یہ لوگ یک جان ویک زبان ہو کر سڑکوں پر نکلتے،اپنا حق چھین کر ہی دَم لیتے ہیں، لیکن کبھی کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ اساتذہ معیارِ تعلیم کی بہتری کے لیے سڑکوں پر نکلے ہوںکہ شاید تعلیم ان کی بھی ترجیحات میں شامل نہیں۔اسی طرح اگر والدین کی بات کی جائے تو جن کے پاس دو وقت کی روٹی کے وسائل نہیں،وہ غریب طبقہ معیاری تعلیم کیسے افورڈ کر سکتاہے،یا اس حوالے سے آواز کیوں کراُٹھائے گا۔ نتیجتاً ،اُن کے بچّے بھی محنت مزدوری پر لگ جاتے ہیں۔ جس کے بعد اکثریت یا تو نا خواندہ رہ جاتی ہے یا زیادہ سے زیادہ مڈل، میٹرک کرلیتی ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی بھی سیاسی جماعت نے اقتدار میں آنے کے بعد کسی ماہرِ تعلیم کو وزارتِ تعلیم کا قلم دان سونپا ہو۔ جب اس ضمن میں ڈائریکٹر لیول کے لوگوں سے سوال کیا جاتا ہےتو وہ مجبوریوں کا لبادہ اوڑھ لیتےہیں ۔ان کی کئی مجبوریوں میں سے ایک مجبوری یہ ہوتی ہےکہ وہ وزیریا سیکریٹری تعلیم کی نظر خاص ہی کی وجہ سے اس عہدے پر فائز ہوتے ہیں، تو وہ ان کے خلاف کیسے بات کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب،اگر کسی ایم این اے یا ایم پی اے کی بات نہ مانیں، یعنی ان کے کہنے پر کسی استاد کا تبادلہ نہ کریں ، تو وہ وزیرِ تعلیم سے شکایت کرکے ڈائریکٹر کا تبادلہ کروادیتا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک مرتبہ تحقیق کے سلسلے میں ہماراایک سرکاری اسکول جانا ہوا۔ وہاں پہنچے تو دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ ہر طرف صفائی ستھرائی ہو رہی تھی۔ 

پوچھنے پر معلوم ہواکہ اُس روز وہاں انسپیکشن کے لیے ٹیم آرہی تھی۔ ہم بھی تماشائی بن کر بیٹھ گئے ۔ افسران آئے، مختلف کلاسز کا دَورہ کیا ،ایک ، دو بچّوںسے کچھ سوالات پوچھےاور دفتر میں جا کر بیٹھ گئے ۔ کچھ دیر رجسٹرز وغیرہ دیکھے۔ اتنے میں کسی نے آواز دی کہ ’’کھانا تیار ہے‘‘، پھر سب نے سَیر ہو کر کھانا کھایااور یوں انسپیکشن اختتام پذیر ہوئی۔ بہرحال، یہ افسران بھی مجبور ہی ہیں،یقین نہ آئے توکسی دن اپنے ضلعے کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفس اور تحصیل کے اسسٹنٹ کمشنر آفس کا ایک چکر لگا کر دیکھ لیجیے،آپ پر بھی ان کی مجبوری اور بے بسی آشکارہو جائے گی۔

بلاشبہ ،معیارِ تعلیم بہتر کرنا انہی کی ذمّے داری ہے، لیکن جب اس حوالے سے ان سے سوال کیا جائے تو جواب ملتا ہے کہ’’ ہم روزانہ اسکول نہیں جا سکتے، اگر سرکاری اسکولز کی حالت ابتر ہےتو اس کے ذمّے دار پرنسپلز ہیں ۔‘‘ان افسران کا خیال ہے کہ چوں کہ اسکولز، پرنسپلزکی زیرِ نگرانی چلتے ہیں، اس لیے تمام تر ذمّےداری اُنہی کی ہے۔ایک لحاظ سے ان کی بات بھی غلط نہیں کہ پرنسپل اسکول کا سربراہ ہوتا ہے، وہ چاہے تو نظم و ضبط برقرار رکھنے سے لے کر درس و تدریس تک کے تمام تر معاملات بخیر و خوبی انجام پاسکتے ہیں، لیکن یہ اسی صُورت ممکن ہے جب پرنسپل کی تعیّناتی میرٹ پر ہوئی ہو اور وہ واقعتاً کام کرنا چاہے۔

لیکن عمومی حقائق اس کے بر عکس ہیں کہ اکثر لوگ میرٹ پر نہیں ،سنیاریٹی توکبھی افسر شاہی نظام کے تحت اوپر آتے ہیں۔ایک پرنسپل نے ہمیں بتایا کہ ’’مَیںکیمسٹری کا استا د ہوں۔ ساری زندگی معلّمی کی اوراب یہاںزبردستی پرنسپل بناکر بٹھا دیا گیا ہےاور مجھ سے یہ عُہدہ سنبھالا نہیں جا رہا۔‘‘ تب ہمیں احساس ہوا کہ ہم صرف خانہ پُری کر رہے ہیںکہ ہمارے یہاں اہلیت ، قابلیت جانچ کر ذمّے داریاں، عُہدے تفویض نہیں کیے جاتے،پر کیا کریں کہ یہی ہمارا نظام ہے۔اس حوالے سے صوبوں نے میرٹ پرافسران اور پرنسپل تعینات کرنے کی کوشش تو کی ،پالیسیز بھی بنائیں لیکن تاحال عمل در آمد میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ جس میں بڑی حد تک رکاوٹ اساتذہ کی طرف سے ہےکہ وہ سنیاریٹی کی بنیاد پر تعینّاتی کے حامی ہیں۔

مثلاً ایک صوبے کے ایک اسکول میں میرٹ پر پرنسپل تعیّنات ہوئے،جو تقریباً چار برس سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں ، مگر تاحال انہیں مستقل نہیں کیا گیا۔ حالاں کہ انہوں نے اپنے زیرِ نگرانی اسکول کا جو معیار مقررکیا ہے، وہ لائقِ تقلید ہے، جسے دیکھ کر دل میں اِک اُمید سی جاگتی ہے کہ اگر اہل نوجوانوں کو موقع ملےتو وہ یقیناً اس مُلک کو تعمیر وترقّی کی راہ پر گام زن کر سکتے ہیں۔ ان سب حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے اور خود کو بھی احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرکے سوچیں تو پتا چلے گا کہ معیارِ تعلیم اور نظامِ تعلیم کی ابتری کا ذمّے دار کوئی ایک فرد یا ادارہ نہیں، پورا معاشرہ ہی ہے۔ ہم سب ہی چاہتے ہیں کہ یہ مُلک ایک عظیم مملکت بن جائے۔ ہمارے بچّوں کو محفوظ مستقبل کے ساتھ معیاری تعلیم بھی ملے، لیکن اس خواب کی تکمیل کے لیے ہم سب کو مل کر سچّی لگن کے ساتھ دن رات کام کرنا اور تعلیم کو ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا۔ (مضمون نگار ، بطور اسکالرآغا خان یونی وَرسٹی انسٹی ٹیوٹ فار ایجوکیشنل ڈویلپمنٹ، کراچی سے منسلک ہیں)

تازہ ترین