• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابھی عُمر مبارکہ صرف آٹھ برس ہی تھی کہ موت کا فرشتہ شفیق دادا، جناب عبدالمطلب کی رُوح قبض کرنے آپہنچا۔ دادا نے یتیم پوتے کا ہاتھ جناب ابوطالب کے ہاتھ میں دیتے ہوئے فرمایا’’ اپنے مرحوم بھائی، عبداللہ کے بیٹے کی سرپرستی اور حفاظت کی تمام تر ذمّے داری اب تم پر ہے۔‘‘ ابوطالب معصوم بھتیجے کو گھر لے آئے، جہاں چچا، ابوطالب اور اُن کی اہلیہ فاطمہ بنتِ اسد نے آنحضرتﷺ پر اپنی محبّتوں اور چاہتوں کے تمام پھول نچھاور کرکے رہتی دنیا تک کے لیے ایک لازوال مثال قائم کردی۔ 

ابوطالب کثیر العیّال تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اُنھیں حضرت فاطمہؓ بنتِ اسد کے بطن سے چار بیٹے اور تین بیٹیاں عطا فرمائے۔ آنحضرتﷺ کے اپنے حقیقی بہن، بھائی تو نہ تھے، لیکن خاندانِ ابوطالب کے بچّے حقیقی بہن، بھائیوں ہی کی طرح تھے۔ آپﷺ کو اپنی چچازاد بہنوں میں سے سب بڑی ، اُمّ ِ ہانیؓ سے ایک ہی گھر میں پرورش پانے کی وجہ سے زیادہ انسیت تھی۔ خود اُمّ ِ ہانیؓ بھی آپﷺ سے والہانہ محبّت کرتی تھیں، جو زندگی کی آخری سانسوں تک قائم رہی۔

نام و نسب

حضرت اُمّ ِ ہانیؓ کا نام فاختہ (کچھ نے ہند بھی لکھا ہے) تھا، لیکن اپنی کنیت سے مشہور ہوئیں۔ والد، جناب ابوطالب اور والدہ، جلیل القدر صحابیہ حضرت فاطمہؓ ہیں۔ حضرت علی المرتضیٰؓ، حضرت جعفر طیّارؓ اور حضرت عقیلؓ کی حقیقی بہن ہیں۔ اُن کی شادی بنو مخزوم کے ایک نوجوان، ہبیرہ بن ابی وہب (ہبیرہ بن عمرو بھی لکھا گیا ہے) سے ہوئی۔ حضرت ابنِ عبّاسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے ابوطالب کو اُمّ ِ ہانیؓ سے نکاح کا پیغام دیا تھا، جس پر ابوطالب نے کہا’’ بھتیجے! مَیں بنو مخزوم کو زبان دے چُکا ہوں۔ قریبی قرابت داری کی بنا پر اب اُنہیں منع کرنا مناسب نہ ہوگا‘‘ (طبقات ابنِ سعد 343/8)۔ یہ حضورﷺ کی سیّدہ خدیجۃ الکبریٰؓ سے شادی سے پہلے کی بات ہے۔

قبولِ اسلام

حضرت اُمّ ِ ہانیؓ کے بارے میں مشہور ہے کہ اُنہوں نے فتحِ مکّہ کے موقعے پر اسلام قبول کیا، جب کہ اُن کی والدہ حضرت فاطمہؓ اور دو حقیقی بھائی، حضرت سیّدنا علیؓ اور حضرت جعفرؓ سابقون الاوّلون میں سے تھے۔ آنحضرتؐ سے اُن کی والہانہ محبّت اور حالات و واقعات سے پتا چلتا ہے کہ اُنہوں نے بھی ابتدائی دنوں ہی میں اسلام قبول کرلیا تھا، لیکن اُن کا شوہر ہبیرہ اور سسرال اسلام کے شدید مخالف تھے، چناں چہ گھر کے اسلام دشمن ماحول کی وجہ سے اُنہوں نے قبولِ اسلام کا اعلان فتحِ مکّہ کے موقعے پر کیا۔ یہ وہ وقت تھا، جب حضرت اُمّ ِ ہانیؓ کا شوہر اپنے اہل و عیّال کو چھوڑ کر نجران بھاگ گیا اور پھر اُس کا کچھ پتا نہیں چلا۔

محبّت و عقیدت

آنحضرتؐ نے اپنی حیاتِ مبارکہ کے 17برس خانوادۂ ابوطالب کے درمیان گزارے۔ ابو طالب کی بڑی صاحب زادی، حضرت اُمّ ِ ہانیؓ فہم و فراست، فطانت و ذہانت، محبّت و شفقت، سخاوت و فیّاضی، صبر و استقامت اور صُورت و سیرت میں اپنی مثال آپ تھیں۔ سنجیدگی و بردباری، حکمت و معاملہ فہمی اور وفاداری و وفا شعاری کا پیکر تھیں۔ بعثت کے ابتدائی دنوں میں حضورﷺ دو مقامات پر اکثر تشریف لے جاتے تھے۔ ایک کوہِ صفا کے دامن میں واقع گھر’’دارِ ارقم‘‘، جو ابوجہل کے بھتیجے، حضرت ارقمؓ کی ملکیت تھا۔ یہ مسلمانوں کا پہلا اسلامی مرکز اور دینی درس گاہ تھی، جب کہ دوسرا گھر آپؐ کی چچازاد بہن اُمّ ِ ہانیؓ کا تھا۔ 

اُمّ ِ ہانیؓ کا شوہر، ہبیرہ اسلام دشمنی میں پیش پیش تھا۔ اپنی شاعری میں مسلمانوں کی ہجو کرتا اور اُنہیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا، لیکن اِس سب کے باوجود یہ شخص ابو طالب کے بچّوں کے آنحضرتؐ سے تعلق سے بخوبی واقف تھا، چناں چہ حضورؐ کے اپنے گھر تشریف لانے کو نہ صرف خندہ پیشانی سے قبول کرتا، بلکہ آپؐ کے ساتھ نہایت عزّت و احترام سے پیش آتا۔ پھر ایک ہبیرہ ہی پر کیا موقوف، قریش کا وہ کون سا فرد تھا، جو حضرت محمّدﷺ کی پاکیزہ و صالح زندگی،دیانت داری، شرافت، بزرگی اور امانت و صداقت کا قدر دان نہ تھا۔ اعلانِ نبوّت سے پہلے تو ابولہب جیسا دشمن بھی آپؐ سے قرابت داری کو اپنے لیے فخر و اعزاز کی بات سمجھتا تھا۔

معراج کا سفر

سیرت کی کتب میں معراج کے سفر کے سلسلے میں جو روایات بیان کی گئی ہیں، اُن میں ایک یہ بھی ہے کہ اُس رات حضورﷺ حرمِ کعبہ میں سو رہے تھے کہ حضرت جبرائیلؑ نے آکر آپؐ کو جگایا اور آبِ زم زم کے پاس لے گئے۔ اِسے صحیح بخاری، مسلم، مسند احمد، بیہقی، حاکم وغیرہ نے حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت مالکؓ کی روایت سے بیان کیا ہے۔ جب کہ بعض دوسری روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ اس سفر کا آغاز آنحضرتؐ کی چچازاد بہن، حضرت اُمّ ِ ہانیؓ کے گھر سے ہوا تھا، جہاں آپؐ عشاء کی نماز پڑھ کر سوئے ہوئے تھے۔ اِس روایت کو ابنِ جریر اور طبرانی نے خود اُمّ ِ ہانیؓ سے، جب کہ بیہقی نے حضرت علیؓ ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور حضرت عبداللہ بن عبّاسؓ سے روایت کیا ہے۔ 

اس کے علاوہ بخاری و مسلم میں حضرت ابوذرؓ سے اور مسند احمد میں حضرت اُبی بن کعبؓ سے مروی ہے کہ’’ حضرت جبرائیلؑ مکان کی چھت کھول کر اُترے اور آپؐ کو اپنے ساتھ لے گئے ‘‘(سیرت سرورِ عالمؐ 651/2)۔حضرت اُمّ ِ ہانیؓ فرماتی ہیں کہ’’ حضورﷺ شبِ معراج میرے گھر مہمان تھے۔ آپؐ نے عشاء کی نماز پڑھی اور سو گئے۔ صبح فجر کی نماز کے بعد آپؐ نے واقعۂ معراج سُنایا اور باہر تشریف لے جانے کے لیے اُٹھے، تو مَیں نے عرض کیا’’ یارسول اللہؐ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں، جس بات کا تذکرہ آپؐ نے مجھ سے فرمایا ہے، اس کا باہر لوگوں میں تذکرہ نہ کیجیے گا، وہ آپؐ کی اِس بات کا یقین نہیں کریں گے، وہ آپؐ کی تکذیب کریں گے اور اذیّت دیں گے۔‘‘ اِس پر حضورﷺ نے فرمایا ’’اللہ کی قسم! مَیں اِس بات کو چُھپا نہیں سکتا۔ مَیں ضرور، ضرور اُن سے بیان کروں گا‘‘(سیرتِ رسولِ پاکؐ، روایت محمّد بن اسحاق صفحہ299، تاریخِ ابنِ کثیر، جلد3 ،صفحہ 127،طبقات ابنِ سعد 186/1)۔ محمّد بن اسحاق مزید لکھتے ہیں کہ’’حضرت اُمّ ِ ہانیؓ نے اپنی کنیز سے کہا کہ’’ وہ آپؐ کے تعاقب میں جائے تاکہ یہ دیکھے کہ آپ ؐ کیا فرماتے ہیں اور لوگوں کا کیا ردّ ِعمل ہوتا ہے؟‘‘ چناں چہ کنیز، حضورؐ کے تعاقب میں مسجد الحرام تک آئی، جہاں آپؐ لوگوں کو معراج کا واقعہ سُنا رہے تھے۔‘‘(سیرتِ رسولِ پاکؐ، محمد بن اسحاق صفحہ 300)۔

رسول اللہﷺ، حضرت اُمّ ِ ہانیؓ کے گھر پر

حضرت اُمّ ِ ہانیؓ سے صحیح بخاری میں مروی ہے کہ جب مکّہ فتح ہوا، تو نبی کریمﷺ اُن کے گھر تشریف لے گئے۔ وہاں آپؐ نے غسل فرمایا۔ اور آٹھ رکعت نماز پڑھی، جو چاشت کی نماز تھی۔‘‘ اُنہوں نے کہا کہ’’ مَیں نے حضورﷺ کو اِتنی ہلکی نماز پڑھتے کبھی نہ دیکھا تھا۔ پھر بھی اس میں آپؐ رکوع و سجود پوری طرح کررہے تھے‘‘ (صحیح بخاری، حدیث 1176، 4292)۔

فتحِ مکہ اور اُمّ ِ ہانیؓ کی امان

حضرت اُمّ ِ ہانیؓ کے غلام، ابومرہ نے بیان کیا کہ اُنہوں نے اُمّ ِ ہانیؓ سے سُنا ،وہ فرماتی تھیں کہ’’ فتحِ مکّہ کے موقعے پر مَیں ،نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ مَیں نے دیکھا کہ آپؐ غسل فرما رہے ہیں اور آپؐ کی صاحب زادی، حضرت فاطمہؓ پردہ کیے ہوئے ہیں۔ مَیں نے حضورﷺ کو سلام عرض کیا، تو آپؐ نے پوچھا ’’کون ہے؟‘‘مَیں نے بتایا کہ’’ مَیں اُمّ ِ ہانیؓ ہوں‘‘ تو آپؐ نے فرمایا’’ مرحبا اُمّ ِ ہانی (صحیح بخاری، حدیث280)۔ پھر جب آپؐ نہانے سے فارغ ہوگئے، تو آٹھ رکعت نماز پڑھی۔ جب آپؐ نماز سے فارغ ہوئے، تو مَیں نے عرض کیا’’ یارسول اللہؐ! مَیں نے اپنے شوہر، ہبیرہ کے فلاں بیٹے کو پناہ دے رکھی ہے، لیکن میرے بھائی (حضرت علیؓ) کا دعویٰ ہے کہ وہ اُس شخص کو ضرور قتل کریں گے، جب کہ مَیں نے اُسے اپنے گھر میں پناہ دے رکھی ہے۔‘‘ رسول اللہؐ نے فرمایا ’’اُمّ ِ ہانیؓ جسے تم نے پناہ دی، اُسے ہم نے بھی پناہ دی۔‘‘ (صحیح بخاری حدیث 357، 6158)۔

امام بخاریؒ اِس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ’’ اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلامی ریاست میں اگر مسلمان عورت بھی کسی کافر کو ذمّی بنا کر پناہ دے دے، تو قانوناً اُس کی پناہ لاگو کیا جائے گا، کیوں کہ اِس بارے میں عورت بھی ایک مسلمان مرد جتنا ہی حق رکھتی ہے۔‘‘ سیرت کی کتب میں پناہ کا یہ واقعہ حضرت اُمّ ِ ہانیؓ کی زبانی یوں درج ہے کہ’’ جس وقت حضورﷺ مکّے کی بلند جانب رونق افروز ہوئے، تو بنو مخزوم کے دو آدمی، حارث بن ہشام اور زہیر بن ابی اُمیّہ بن مغیرہ بھاگ کر میرے گھر گھس آئے۔ مَیں نے اُن دونوں کو جلدی سے کوٹھری میں بند کردیا۔ 

اُن کے پیچھے ہی میرے بھائی حضرت علیؓ اُنہیں تلاش کرتے ہوئے تلوار لیے اندر آگئے اور کہا کہ’’ مَیں انہیں قتل کروں گا‘‘۔ یہ دونوں میرے خاوند، ہبیرہ کے رشتے دار تھے اور حضرت خالد بن ولیدؓ سے جنگ کرتے ہوئے بھاگے تھے۔ مَیں نے اُن دونوں کو کوٹھری میں چُھپایا اور گھر کا دروازہ بند کرکے حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئی۔ (سیرت ابنِ ہشام، حصّہ سوم، صفحہ150)۔اُمّ ِ ہانیؓ کی اِس امان کا اُن دونوں مخزومی سرداروں پر یہ اثر ہوا کہ وہ نہ صرف مسلمان ہوئے، بلکہ صحابۂ کرامؓ میں بلند مرتبہ پایا۔ حارثؓ، ابوجہل کے حقیقی بھائی تھے، جو غزوۂ یرموک میں شہید ہوئے۔

مہمان نوازی

حضرت اُمّ ِ ہانیؓ نہایت شفیق، مہربان اور مہمان نواز خاتون تھیں۔ حضورؐ کی ضیافت کرکے بہت خوش ہوا کرتی تھیں۔ ایک دن آپؐ اُن کے گھر تشریف لائے۔ خادمہ نے شربت پیش کیا۔ آپؐ نے آدھا نوش فرماکر گلاس اُن کی جانب بڑھا دیا۔ اُنہوں نے بھائی کے ہاتھ سے گلاس لیا اور چھوڑا ہوا مشروب باعثِ خیر و برکت سمجھ کر پی لیا۔ پھر خود ہی عرض کیا’’ یارسول اللہ ؐ !مَیں آج روزے سے تھی۔‘‘ آپؓ نے فرمایا’’ اگر روزہ رمضان کی قضا کا ہے، تو کسی دوسرے دن رکھ لینا اور اگر محض نفل ہے، تو اُس کی قضا کرنے یا نہ کرنے کا تم کو اختیار ہے‘‘ (مسند احمد 341/6)۔

حضرت اُمّ ِ ہانیؓ کا شوہر بھاگ گیا تھا اور بچّے ابھی چھوٹے تھے۔ ایک دن حضورؐ اُن کے گھر تشریف لائے اور ازراہِ شفقت فرمایا’’ اُمّ ِ ہانیؓ !بکری پال لو، یہ بڑی خیر و برکت کی چیز ہے‘‘(مسند احمد 341/6)۔ ایک مرتبہ حضورﷺ تشریف لائے، تو اُنھوں نے عرض کیا ’’یارسول اللہؐ! مَیں اب بوڑھی ہوچُکی ہوں، چلنے پِھرنے میں بہت دشواری ہوتی ہے، کوئی ایسا وظیفہ بتادیں، جو بیٹھے بیٹھے پڑھ لیا کروں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا’’ ایک سو مرتبہ سبحان اللہ، ایک سو مرتبہ الحمد للہ، ایک سو مرتبہ اللہ اکبر اور ایک سو مرتبہ لااِلہ الا اللہ پڑھ لیا کرو‘‘ (مسند احمد 344/6)۔

وفات

حضرت اُمّ ِ ہانیؓ نے حضرت امیر معاویہؓ کی خلافت میں وفات پائی، اُس وقت اُن کی عُمر ایک سو سال تھی۔ اُن کے چار بچّے تھے، جن کے نام ہانی، عمرو، یوسف اور جعدہ تھے۔ چاروں بچّوں کو صحابی ہونے کا شرف حاصل تھا۔ ہانی بڑا بیٹا تھا، جس کے نام پر اُن کی کنیت تھی۔ اُنہیں فقہ سے بے حد دل چسپی تھی۔ حضورﷺ سے مسائل دریافت کرتی رہتیں اور اُنہیں دوسروں تک بھی پہنچاتیں۔ حضرت اُمّ ِ ہانیؓ سے 46احادیث مروی ہیں۔

تازہ ترین