• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب کے موقعے پر پولنگ بُوتھ میں خفیہ طورپر نصب کیے گئے کیمرے پکڑے جانے پرحزبِ اختلاف کی جماعتوں نے سخت ردّ ِ عمل ظاہر کیا اور معاملے کی فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا جس کے لیے ایک کمیٹی بنائی جاچکی ہے۔یہ بلاشبہ بہت قابلِ تشویش بات ہے، کیوں کہ یہ پاکستان کی پارلیمان کے ایوانِ بالا کا معاملہ ہے جہاں بہت سے اہم اور حسِاس معاملات بھی زیرِ بحث آتے ہیں۔ 

اس بارے میں سب سے حیرت انگیز بیان سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت کےوفاقی وزیر فوّاد چوہدری کا سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ یہ کیمرے کوئی سنجیدہ معاملہ نہیں ہے۔ان کا یہ بھی فرمانا تھا کہ آج کل اتنے بڑے کیمرے تو بچوں کے پاس بھی نہیں ہوتے۔ دیکھ تو لیں کیمرے کام بھی کرتے ہیں یا نہیں۔پتا نہیں پہلے تھے یا نہیں ۔پندرہ منٹ میں بات سامنے نہیں آئے گی۔ اصول کی بات ہے کہ کیمرے نہیں لگائے جاسکتے۔ سیکریٹری سینیٹ ذمّے دار ہیں کہ انکوائری کریں۔

یہ بلاشبہ جاسوسی کا معاملہ ہےجس کی تہہ تک پہنچنا انتہائی اہم ہے۔اگر کوئی اسے صرف سینیٹرز کی وفاداری جانچنے کی کوشش قرار دے کرمعاملہ ٹالنے کی بات کرتا ہے تو یہ ملک اور قوم کے ساتھ نہایت سنگین مذاق ہے۔بعض حلقے اس کے ذمّے دار پرملک اور قوم سے غدّاری کا مقدّمہ چلانے کی بات کررہے ہیںتو معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے یہ کوئی نامعقول بات نہیں ہے۔

ماضی سے مثال

ہم میں سے بہت سے افراد کو شاید یہ یاد نہ ہوکہ بیس اپریل 2018کو پاکستان کے ذرایع ابلاغ میں یہ خبر شایع ہوئی تھی کہ مالی سال 2018۔2019 کے بجٹ میں وزیرِ اعظم ہاؤس کی سیکیورٹی کے لیے دونئے منصوبوں کی غرض سے ایک کروڑپچپن لاکھ روپے مختص کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 

خبر کے مطابق وزیرِ اعظم ہاؤس میں ہونے والی گفتگو اور سرگرمیوں کی ریموٹ مانیٹرنگ اور سیٹیلائٹ ریکارڈنگ کو روکنے کے لیے بلاک وائزنگ وائس ڈیٹا کا نیا سیٹ نصب کیا جانا تھا۔ مذکورہ رقم ان آلات کی تنصیب پر خرچ ہونی تھی۔اس ضمن میں پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں دو نئے منصوبے شامل کیے گئے تھے۔

وفاقی کابینہ کی جاسوسی

جوہری بم اور خِطّے اور دنیا میں اہم سیاسی اور جغرافیائی اہمیت کا حامل ملک ہونے کے ناتے پاکستان کے بہت سے دوستوں کے ساتھ اس کے متعدد دشمن بھی ہیں۔ چناں چہ دیگر ممالک کی طرح ہمارے ملک کے ذمّے داروں کو بھی بہت سے معاملات میں بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوتے ہیں کیوں کہ ہم پر ہر لمحے نظر رکھنے والے کبھی اپنے کام سے غافل نہیں ہوتے۔ یاد رہے کہ پیپلز پارٹی کے سابق دورِ حکومت میں اس کمرے میں جاسوسی کرنے والے سگنلز پکڑے گئے تھے جس میں وفاقی کابینہ کا اجلاس ہونا تھا۔ 

چناں چہ حفاظتی نقطہ نظر سے وہ اجلاس اس وقت ملتوی کردیا گیا تھا۔ اس وقت کے وزیرِ داخلہ رحمن ملک کا اس ضمن میں جون 2015 میں دیا گیا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ پاکستان میںدو غیر ملکی سفارت خانے سابق صدر آصف علی زرداری اور اس وقت کے وزیرِ ‏عظم نواز شریف کی جاسوسی کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے دورِ حکومت میں کابینہ کے اجلاسوں کی بھی جاسوسی ہوتی رہی اور دو غیر ملکی سفارت خانےٹیلی فون ٹیپنگ میں ملوث رہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری اور نوازشریف کے ٹیلی فون بھی ٹیپ ہوتے رہے ہیں۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے رحمن ملک کا کہنا تھا کہ پاکستان کا اہم ترین عہدے دار بھی جاسوسی سے محفوظ نہیں۔ ہمارے دورِ حکومت میں ایوانِ صدر سمیت تمام سرکاری محکموں کے اجلاسوں کی بھی جاسوسی ہوتی رہی ہے۔ دو غیر ملکی سفارت خانےٹیلی فون ٹیپنگ میں بھی ملوث رہے۔ رحمن ملک کا کہنا تھاکہ ٹیلی فون ٹیپنگ، لیزر مائیکرو فون اور سییٹلائٹ کے طاقت ور سگنلز کے ذریعے مانیٹرنگ کی جاتی ہے اوران سگنلز کو روکا نہیں جا سکتا۔

ایک مرتبہ ایسے ہی سگنلز پکڑے جانے کی اطلاع ملی جنہیںنہ روکے جانے کے سبب کابینہ کا اجلاس موخر کرنا پڑ اتھا۔ وہ سگنلز ڈپلومیٹک انکلیو کی جانب سے موصول ہو رہے تھے۔ ان کا کہنا تھاکہ ان کے ذاتی فون سمیت سابق صدر آصف زرداری اور نوازشریف کے ٹیلی فون بھی ٹیپ ہوتے رہے ہیں۔ تاہم سابق وزیرِ داخلہ نے ان دو سفارت خانوں کا نام نہیں لیا تھا جن کے سامنے پاکستان اتنا بے بس تھا۔

رحمن ملک کا کہنا تھا کہ غیر متعلقہ افراد 2012 میں وزیرِ اعظم ہاؤس میں ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاسوں کی جاسوسی کے لیے استعمال کیے جاتے تھے اور ممکن ہے کہ ایسا اب بھی ہو رہا ہو۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ سینیٹر رحمن ملک نے یہ اور دیگر رازوں کا انکشاف سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے ملک میں ٹیلی کمیونی کیشن کے شعبےکے معاملات کی ریگولیٹری سے متعلق ہونے والے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا تھا۔ انہوں نے یہ انکشافات اس وقت کیے تھے جب پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چیئرمین ڈاکٹر اسمعیل شاہ نے ان کے سوالات کے جواب میں کہا تھا کہ جاسوسی کی روک تھام کسی اور کی ذمّے داری ہے۔

اس موقعے پر رحمن ملک نے اپنی وزارت کے اس دور کو یاد کیا تھاجب جاسوس سگنلز وزیرِ اعظم ہاؤس کے کیبنٹ روم میں پکڑے گئے تھے، مگر چونکہ پاکستان کے پاس جاسوسی کی سرگرمیوں کی روک تھام کی صلاحیت زیادہ نہیں ،لہٰذا اس وقت کابینہ کے اجلاس کو ملتوی کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید بتایا تھا کہ ان کے گھر کی دو کھڑکیاں سیمنٹ لگا کر بند کرنا پڑی تھیں تاکہ جاسوس سگنلز کو بلاک کیا جا سکے۔ 

ان کا دعویٰ تھا کہ امریکی انٹیلی جینس کے ادارے، سی آئی اے نے2013میں پاکستان میں اپنی جاسوسی کی سرگرمیوں کا اعتراف کیا تھا جس کے مطابق اس نے سابق صدر آصف علی زرداری، وزیرِ اعظم (2015 میں) نواز شریف اور دیگر پاکستانی راہ نماؤں کے فونز ٹیپ کیے۔

سابق وزیرِ داخلہ کے ان انکشافات سے تقریبًا ایک برس قبل یعنی جولائی2014میں امریکی ذرایع ابلاغ نے انکشاف کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں امریکی نیشنل سیکورٹی ایجنسی نے پیپلز پارٹی کی جاسوسی اور نگرانی کی تھی۔ اسی عرصے میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور مصر کی حکم راںجماعت اخوان المسلمون کو بھی امریکی جاسوسی کے نظام نے مانیٹر کیا تھا۔اس بارے میں حاصل کردہ معلومات کا ڈیٹا بھی سامنے آگیا تھا۔

اس وقت وائٹ ہاؤس کی بریفنگ میں بھی بی جے پی کے حوالے سے کیے گئے سوالات کے جواب میں ترجمان کے نو کمنٹ اور مبہم بیانات اور اشاروں سے بھی تصدیق ہوگئی تھی کہ امریکی نیشنل سیکیورٹی نے پی پی پی، بی جے پی اور اخوان المسلمون سمیت پانچ سیاسی جماعتوں کی جاسوسی کی تھی۔

اس انکشاف کے لیے ان جماعتوں کو مفرور امریکی ایڈورڈ اسنوڈن کا شکر گزار ہونے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ اُن ہی دنوں رحمن ملک نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا تھاکہ جب ان کے دور میں حکومت کی کابینہ کا اجلاس ہوتا تھا تو بعض اوقات مختلف سگنلز کو حفاظتی اداروں کے ذریعے کلیئر کرایا جاتا تھا۔ اُن کا یہ بیان کسی سائبر نظام کے ذریعے جاسوسی کی نشان دہی تھا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی نے تو اس انکشاف پر امریکی محکمہ خارجہ کے سفارت کاروں کو نئی دلی طلب کرلیا تھا اور تمام صورت حال جاننے اور اعترافات کے بعد آئندہ ایسا نہ کرنے کی امریکی یقین دہانی حاصل کی تھی۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوجاتی۔ ظاہر ہے کہ امریکا عالمی طاقت ہے اور اس کے مفادات امریکی سرحدوں سے باہر بھی ہیں۔ لہٰذا اپنے عالمی مفادات کے لیے اس کا جاسوسی کانظام بہ قول ایڈورڈ سنوڈن 193 ممالک اور اُن کے سربراہان اور حکومتی اداروں تک پھیلا ہوا ہے۔

جاسوسی کی تاریخ

جاسوسی کی تاریخ چوتھی صدی قبل مسیح میں چینی ماہر ’’ین زو‘‘ سے شروع ہوتی ہے۔ قدیم یونان میں ہنی بال نے دشمنوں کو شکست دینے کے لیے اسے ہتھیار کے طو رپر استعمال کیا۔ چنگیزخان نے اسے سائنس کا درجہ دیا اور ہر 25میل کے فاصلے پر جاسوسی کےلیے ’’پونی‘‘ کے نام سے چوکی قائم کی تھی۔ (انیسویں صدی کی امریکی جاسوس ایجنسی کو پونی ایکسپریس کا نام اسی مناسبت سے دیا گیاتھا)۔ 1640ء میں اولیور کرام ویل نے اپنے بادشاہ چارلس اوّل کو شکست اسی بنا پر دی کہ اُس کا جاسوسی کا نظام بہت مستحکم تھا۔ 

کرام ویل نے سرسیمول لیوک نامی جاسوس کواس شعبے کا سربراہ بنایا جو دشمن کے کھانے پینے، سونے جاگنے حتیٰ کہ سرگوشیوں تک کا ریکارڈ رکھتا تھا۔ 1685ء میں مون ماوتھ نامی جرنیل کو دشمن کی فوج کے بارے میں ساری معلومات مل گئی تھیں۔ وہ شب خون مارنے آیا،لیکن جاسوس اُسے دشمن کی فوج کے گردکُھدی ہوئی خندق کی گہرائی نہ بتاسکا۔ انجامِ کار دشمن کی فوج نیند سے بے دا رہوئی اور خندق کے گرد منڈلاتے ہوئے مون ماوتھ کے لشکر کو ختم کردیا۔ مون ماوتھ کو اپنے سر کی قیمت بھی ادا کرنی پڑی۔

انگلستان اور اسپین کی جنگ میں اسپین کے بحری بیڑے کی ساری معلومات ایک جاسوس، واسنگ ہیم نے برطانیہ کو دیں۔ یوں اسپین کو اپنی زبردست جنگی طاقت کے باوجود عبرت ناک شکست ہوئی۔ برطانیہ کے پاس معلومات تھیں کہ152بحری جہاز کس تاریخ کو میڈرڈ سے روانہ ہوں گے،دشمن کے پاس کتنا اسلحہ اور بارود ہوگا اور مارچ 1587ء کی کون سی تاریخ کو یہ بیڑا روانہ ہوگا؟ چناں چہ برطانیہ نے سارے یورپ میں افواہ پھیلادی کہ جوتشیوں نے زبردست طوفان کی پیش گوئی کی ہے۔ 

اسپین اپنے سارے بحری جہاز کھودے گا۔ مہینوں کے سفر کے بعد جب اسپین کا بحری بیڑا لندن کے قریب پہنچا تو طوفان کے اندیشوں نے اسے مکمل طور پر نڈھال کردیا تھا ۔برطانیہ نے قلیل سپاہ کے ساتھ اسپین کو شکست دے دی۔ اسی طرح برطانوی سیکرٹ سروس کے ایک اہم ایجنٹ بوتھر نے ملک کو 11 بڑے اضلاع میں تقسیم کیا۔ ہر ضلعے کی کمان ایک میجر جنرل کے ہاتھ میںتھی۔وہ ملک کے ہر حصے میں آئے ہوئے دشمن کے جاسوسوں کو پکڑتے اور جرم ثابت ہونے پر انہیں قتل کردیتےتھے۔

یورپی جاسوسوں میں کارل شمسٹر فرانس کا سب سے بڑا جاسوس مانا جاتاہے۔ اسے نپولین بوناپارٹ نے آسٹریا بھیجاتھا۔ وہ اپنی شاطرانہ چالوں اور ذہانت سے دشمن ملک میں ملٹری انٹیلی جنس کا سربراہ بن گیا۔چناں چہ آسٹریا کا سارا دفاعی نظام تہس نہس ہوگیا اور اپنی بے مثل حربی صلاحیت کے باوجود اُسے عبرت ناک شکست ہوئی ۔دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ نے ورنون کیل نامی جاسوس کو جرمنی بھیجاتھاجس نے ہٹلر کی شکست میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ ورنون کیل نے معلومات حاصل کیں کہ لندن میں ایک جرمن حجام کی دکان برطانیہ کے راز چوری کرنے والے جاسوسوں کا مرکزہے۔ مسلسل نگرانی کے بعد ان جاسوسوں کو گم راہ کن معلومات فراہم کرنے کا نظام بنایا گیا۔ 

ان معلومات پر بھروسا کرتے ہوئے ہٹلر نے پیش قدمی کی اور شکست کھائی ۔روسی جاسوس ریلی کے جی بی کا سب سے بڑا سراغ رساں سمجھا جاتاتھا۔ وہ خطرات کے جنگلوں سے بے دھڑک گزرتا رہا۔خواتین میںاس کی دل چسپی اُسے موت کے منہ میںلے گئی۔کے جی بی میں اسے ایک بڑی مثال کے طور پر نئے آنے والے جاسوسوں کو سبق دیا جاتا ہے۔ کم خلبی اور لارنس آف عریبیا نے اسلامی ممالک میں برسوں بہت کام یابی سے جاسوسی کی۔ انتھونی بلنٹ کا تعلق روس سے تھا،وہ برطانیہ کی ملکہ الزبتھ کے بہت قریب پہنچ گیا تھا اوراس نے برطانیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ 

روڈولف ہیز، گریٹا گاربو، میجر ما ر ٹن،ایرک ایرکسن، ڈاکٹر ایلن نن لے، ایمل کلاس، جولیس فیوکس، جارج بلیک، ولیم جان، کرسٹوفرویسل، رابرٹ لی جانسن، گیلولی، رین ہارڈ ہائیڈ رخ، بوگڈان ستاشسکی، ہرمین لڈکے، رابرٹ ناٹریک یورپ کے مشہور ترین یا بدنام ترین جاسوس گزرے ہیں۔ ان کے بارے میں کافی تفصیلات World Greatest Spies and Spymasters کے عنوان سے لکھی گئی کتاب میں میں موجود ہیں۔لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس شعبے میں خواتین کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح اس شعبے میں بھی بہت سی خواتین کام کرتی رہی ہیں اور اب بھی کرررہی ہیں۔جاسوسی کی دنیا میں گرٹروڈ بیل،بیلی بائیڈ ، ماتا ہری ، نورالنساء،نینسی ویک،پالن کشمین،ہیریئٹ ٹبمین وغیرہ نے بھی بہت نام کمایا ہے۔

سی پیک، پاکستان اور دشمن

پاکستان میں سی پیک پر کام ہورہا ہے جو ہمارے پورے خِطّے کی تصویر بدل سکتا ہے۔بعض طاقتیں اس پر سخت نالاں ہیں۔ان کے مفادات افغانستان، پاکستان، بھارت، چین اور وسطی ایشیا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ لہٰذا یہ ممکن ہے کہ پاکستان کے موجودہ حکم راں، حزبِ اختلاف اور حساس ادارے امریکی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی اور دیگر امریکی اداروں کی جاسوسی اور نگرانی کی زد میں ہوں۔ویسے بھی انٹرنیٹ،اسمارٹ فون، کمپیوٹراورٹیلی کمیونی کیشن کے جدید سائنسی آلات نے دنیا کے ہر حکم راں سمیت عام شہریوں کو بھی ان کی ’’پرائیویسی‘‘ سے محروم کر دیا ہے۔

ماہرین کے مطابق فیس بُک، ٹوئٹر، وٹس ایپ وغیرہ اور ٹیلی کمیونی کیشن کے مختلف ادارے امریکی نظام کو اتنی معلومات فراہم کر دیتے ہیں کہ کسی بھی عام شہری کی زندگی کے نجی لمحات سے لے کر اُس کی عادات و مزاج، پسند و ناپسند بلکہ نقطہ نظر اور سوچ کے بارے میں اچھا خاصا خاکہ تیار ہو جاتا ہے۔ آج کے دور کا انسان یہ نہیں سوچتا کہ اطلاعات اور مواصلات کی جدید ایجادات اور سہولتوں سے بھرپور استفادہ کرنے کے شوق میں وہ اپنے فون اور کمپیوٹر پر اپنے بارے میں معلومات کا ڈھیر خود لگا رہا ہے۔ 

اس ضمن میں اگر مزید تصدیق اور یقین کرنا ہو تو صرف امریکی اخبار ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ میں نیشنل سیکیورٹی کے حوالے سے چند برسوں میں شایع ہونے والی چند رپورٹس توجّہ سے پڑھنے پر آپ کو بہ بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ193ممالک کے حکم راں، سرکاری اہل کار اور پالیسی بنانے والے افراد تو جاسوسی کے سائبر نظام کی لپیٹ میں ہیں ہی، لیکن عام، بے ضرر اور کسی قسم کی سیاست یا مکتبہ فکرسےلاتعلق شہری بھی اپنی عادات، سوچ ، تحریر اور ذاتی تفصیلات سمیت جاسوسی اور معلومات اکٹھا کرنے کے عالمی خفیہ نظام کی لپیٹ میں ہے۔ اس ضمن میں ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ کی چھ جولائی2014کی اشاعت میں نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے بارے میں شایع شدہ تفصیلات میں کیے گئے بعض انکشافات پڑھے جاسکتے ہیں،جو آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹس یا جاسوس

سائنس کی ترقی نے جہاں ہمیں بہت سی سہولتیں فراہم کی ہیں وہیں ہمارے لیے بہت سے مسائل بھی پیدا کیے ہیں۔ لیکن ایسا انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ ہر نئی ٹیکنالوجی اپنے ساتھ کئی مسائل بھی لے کر آتی ہے۔چناں چہ آج بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔ لیکن آج فرق یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں تبدیلی کی رفتار بہت زیادہ ہوگئی ہے، لہٰذا خطرات اور خدشات بھی اسی رفتار سے بڑھتے جا رہے ہیں۔ 

آج کے دور کا بہت بڑا خطرہ اس ٹیکنالوجی کی جانب سے ہے جس نے حیرت انگیز رفتار سے ترقی کی ہے اور ہماری زندگیوں میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں۔ہمارا اشارہ ا طلاعاتی اور مواصلاتی ٹیکنالوجی کی جانب ہے۔ اس ٹیکنالوجی نے اس شعبے میں تھوڑی سی بھی مہارت رکھنے والے فرد کے لیے دنیا میں کہیں بھی بیٹھ کرکسی بھی خاص و عام کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور اُن کی گفتگو ریکارڈ کرنا ممکن بنا دیا ہے۔ چناں چہ آج کسی بھی ملک اور اس کےعوام کے لیے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔

اس ضمن میں ماہرین کی جانب سے انٹرنیٹ اور موبائل فون کو بہت خطرناک قرار دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق ان کے ذریعے آج دنیا بھر میں کسی بھی شخص کی چوبیسوں گھنٹے نگرانی یا جاسوسی کرنا ممکن ہوگیا ہے۔ اور یہ حقیقت خطرے کی سطح میں مزید اضافہ کر دیتی ہے کہ انٹرنیٹ اور موبائل فون استعمال کرنے والے کو اپنی جاسوسی ہونے کے بارے میں شک تک نہیں ہوتا، لہٰذاوہ خلوت اور جلوت میں بے دھڑک ان کا استعمال جاری رکھتا ہےاور انہیں استعمال کرتے ہوئے ہر طرح کی گفتگو اور افعال کرتا رہتا ہے۔ اس دوران اسے ذرہ برابر یہ احساس تک نہیں ہوتاکہ دنیا کے کسی کونے میں اس کی گفتگو اور افعال ریکارڈ کیے جا رہے ہیںجنہیں کسی بھی وقت اس کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے اور ان کی مدد سے اسے بلیک میل کرکے کوئی بھی کام کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔

پہلے عمومًا ریاستی ادارے جاسوسی کرتے تھے، لیکن نئی ٹیکنالوجی نے عام آدمی اور نجی و تجارتی اداروں کے لیے بھی یہ کام کرنا ممکن بنا دیا ہے۔کچھ عرضہ قبل فیس بک کی انتظامیہ کے خلاف یہ الزام سامنے آیاتھا کہ اس نے اپنے صارفین کے بارے میں معلومات امریکا کی ایک سیاسی شعبے کی کنسلٹنسی کمپنی کیمبرج اینالیٹکا (سی اے) کو فراہم کی تھیں۔تقریباًپانچ کروڑ سے زاید صارفین کا ڈیٹا لیک کرنے کی خبریں سامنے آنے کے بعد فیس بک کے خلاف امریکا میں بڑے پیمانے پر تحقیقات کا آغاز کیا گیاتھااور صارفین کے حقوق کا تحفظ کرنے والے ادارے فیڈرل ٹریڈ کمیشن (ایف ٹی سی) نے فیس بک کی انتظامیہ کے خلاف ڈیٹا لیک کرنے کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد فوراً کارروائی شروع کر دی تھی۔

ایک برطانوی اخبار کی رپورٹ میں چند برس قبل بتایا گیاتھا کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016ء میں اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک سیاسی کنسلٹنسی کمپنی کیمبرج اینالیٹکا (سی اے) کی خدمات حاصل کی تھیں اور اسی کمپنی نے فیس بک کے صارفین کا ڈیٹا استعمال کیا تھا جس کی وجہ سے صدر ٹرمپ کام یاب ہوئے تھے۔یہ الزام عاید ہونے بعد دنیا کے مختلف حصوں سے ماہرین، مبصرین اور سماجی کارکنوں و سیاسی شخصیات نے تشویش کا اظہار کیاتھا۔ امریکی سینیٹ کی کامرس کمیٹی اور برطانیہ کی پارلیمانی کمیٹی بھی اس حوالے سے سرگرم تھی۔ امریکا میں ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے اراکین نےجو عمومًا نجی کاروبار کے حوالے سے قانون سازی کی مخالفت کرتے ہیں فیس بک کی مخالفت شروع کر دی تھی۔

گو کہ یہ بات ہم پہلے ہی جانتے ہیں کہ انٹرنیٹ ، ای میل اور سماجی رابطہ کی ویب سائٹس پر صارفین کی معلومات ہرگز محفوظ نہیں ہیں۔ امریکی اور برطانوی خفیہ ایجنسیز اور دیگر اداروں کو ان تمام معلومات تک باآسانی رسائی حاصل ہے۔ لیکن2011میں ایک پریس کانفرنس کے دوران وکی لیکس کے بانی جولین اسانج نے اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ مشہورِ زمانہ ا سمارٹ فون، ایپل آئی فون، بزنس کے لیے بہترین اور محفوظ سمجھے جانے والے بلیک بیری اور دنیا میں سب سے اچھی سمجھی جانے والی ای میل سروس، جی میل کے صارفین بڑی مصیبت میں ہیں ۔ کیوں کہ جاسوسی کے آلات تیار کرنے والی کمپنیاں بڑی تعداد میں ایسے آلات امریکا اور یورپی ممالک کو فروخت کر رہی ہیں جن کے ذریعے وہ آئی فون ، بلیک بیری اور جی میل وغیرہ کے صارفین کی خفیہ نگرانی کرسکتے ہیں۔ لہذ ا یہ کہنا بجا ہوگا کہ اب کہیں بھی انٹرنیٹ یا موبائل فون کے صارفین کے لیےپرائیویسی نام کی کوئی شئے موجود نہیں ہے۔

بڑے لوگ بھی محفوظ نہیں

امریکی انٹیلی جنس کے سابق اہل کار، ایڈورڈ اسنو ڈن کی جانب سے 2013 میں نیشنل سیکیورٹی ایجنسی ، این ایس اے کی نگرانی میں جاری دو خفیہ پروگراموں کی تفصیلات کا انکشاف ہونےکے بعد دنیا بھر میں شور اٹھا تھا۔اس نے انکشاف کیا تھا کہ این ایس اے دنیا بھر کے خاص و عام افراد کے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ استعمال کرنے کا ریکارڈ رکھتاہے۔ اسپین کے صفِ اول کے اخبار 'الموندنے اٹّھائیس اکتوبر2013 کو اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ امریکی خفیہ ادارے 'این ایس اے نے صرف ایک ماہ کے عرصے میں ہسپانوی باشندوں کی چھ کروڑ فون کالزکی نگرانی کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق 'این ایس اے نے یہ نگرانی دس دسمبر 2012ء سےآٹھ جنوری 2013ء کے دوران کی تھی جس کے دوران امریکی خفیہ ایجنسی نے صارفین کی ذاتی معلومات،بہ شمول انٹرنیٹ براؤزرز، ای میل اور سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس پر موجود 'ڈیٹا تک بھی رسائی حاصل کی تھی۔

جرمن چانسلر اینجلا مرکل کی جاسوسی کا معاملہ بھی ان ہی دنوںسامنے آیا تھا۔ ا سنوڈن کے انکشافات کے بعد 'این ایس اے اور امریکا کو اپنے اتحادی یورپی ممالک کی سخت برہمی اور ناراضی کا سامنا کرنا پڑا تھا جو امریکی ایجنسی کی جانب سے اپنے سیاسی رہنماؤں اور عام شہریوں کی جاسوسی کرنے پر برانگیختہ تھے۔ یورپ کے سخت احتجاج کے بعد امریکاکے صد ربراک اوباما کے حکم پر 'این ایس اے نے جاسوسی کا یہ پروگرام بند کردیاتھا۔

ایڈورڈ اسنوڈن کی جانب سے جاری کردہ الیکٹرانک جاسوسی سے متعلق امریکی خفیہ دستاویزات کے مطابق برطانیہ کی آن لائن انٹیلی جنس ایجنسی کو انٹرنیٹ استعمال کرنے والے تقریبا ہر پاکستانی صارف کے ڈیٹا تک رسائی حاصل ہے۔یہ رپورٹ اینڈریو فش مین اور گلَین گرین والڈ نامی صحافیوں نے تیار کی تھی۔اس میں جس دستاویز کا حوالہ دیا گیا ہے، اس کا عنوان ہے: ’’انتہائی خفیہ دستاویز، حصہ دوم، صرف برطانوی آنکھوں کے لیے۔‘‘ رپورٹ کے مصنفین کے مطابق یہ دستاویز مبینہ طور پر برطانوی حکومت کے کمیونی کیشن ہیڈکوارٹرز یا GCHQ نامی انٹیلی جنس ایجنسی نے تیار کی تھی، جس میں یہ بحث بھی کی گئی تھی کہ کس طرح دیگر ذرائع کے علاوہ یہ ڈیٹا computer network exploitation یا CNE اور سافٹ ویئر کی بیرون ملک reverse engineering کی کوششوں کے بعد حاصل کیا گیا۔

تازہ ترین