اسلام آباد (نمائندہ جنگ)وزیراطلاعات شبلی فراز نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت آزادی صحافت پر یقین رکھتی ہے ،آزاد میڈیا جمہوریت کے فروغ اور شہریوں کے بنیادی مسائل اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے‘ صحافیوں کے جان و مال کے تحفظ کیلئے جلد بل پارلیمنٹ میں لایا جائے گا، صحافتی تنظیمیں اور پریس کلبز اپنی ممبر شپ کے عمل کو مزید شفاف بنائیں تا کہ اہل لوگوں کو آگے آنے کا موقع مل سکے ۔ان خیالات کااظہارانہوں نے مقامی ہوٹل میں “فریڈم آف دی پریس اینڈ ریزولیشن آف میڈیا کرائسز ” سیمینار سے خطاب کرتےہوئے کیا،سیمینار سے وفاقی وزیر فواد چوہدری ، شاہد خاقان عباسی ، احسن اقبال ، رضا ربانی، فرحت بابر پی ایف یو جے کے صدر شہزادہ ذوالفقار ،سیکر ٹری ناصر زیدی،سابق صدر افضل بٹ ،آر آئی یو جے کے صدر عامر سجاد سید اور نائب صدر مائرہ عمران نے بھی خطاب کیا، پی ایف یو جے نے اپریل میں کوئٹہ سے لانگ ،مارچ شروع کرنے اور وفاقی دارالحکو مت میں اپنے مطالبات کے حق میں احتجاجی پروگرام کا اعلاج کیا ،پی ایف یو جے کی قرارداد میں کہا گیا ہےکہ اسلام آباد میں پی ایف یو جے کے مطالبات کی منظوری تک دھرنا رہے گاسوشل میڈیا پر قدغن لگانے کی پالیسیاں واپس لی جائیں ، حکومت صحافیوں کی حفاظت میں ناکام رہی ہے، حکومت ابتک گمشدہ صحافیوں کے مجرموں کو نہیں پکڑ سکی، سرکاری تشہیری بجٹ کو صرف من پسند اداروں پر لٹانے کی بجائے تمام اداروں کو منصفانہ تقسیم کرے، اداروں کی طرف سے ملازمین کو برطرف کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے، حکومت رائج الوقت قوانین کے تحت ویج بورڈ ایوارڈ کے نفاذ کیلئے فوری اقدامات کیے جائیں، وزیراطلاعات شبلی فراز نے کہا کہ صحافت ایک بہت ہی چیلنجنگ پیشہ بن چکا ہے،نئے دور کے چیلنجز اور تقاضوں کو مد نظر رکھنا ہوگا ، ہماری حکومت کی بھرپور کوشش ہے کہ آزادی اظہار یقینی بنانے کیساتھ ساتھ میڈیا اور پریس کیساتھ تعلق بہتر ہو،اسکے بغیر سیاسی حکومت اور جمہوریت کو پذیرائی اور مضبوطی نہیں مل سکتی ۔ اخبارات اور میڈیا ایک گلدستہ کی مانند ہیں ، میڈیا سے اپیل ہے وہ مخصوص ایشو کو لیکر چلنے کی بجائے مجموعی طور پر عوام کے مسائل کو اجاگر کرے ‘حکومت کے اچھے کاموں کو پذیرائی ملنی چاہئیے اور جہاں غلطی ہو وہاں تنقید بھی میڈیا کا حق ہے ،شبلی فراز نے کہا کہ جرنلسٹ سکیورٹی اینڈ سیفٹی بل پر تیزی سے کام جاری ہے ‘ اس بل میں عامل صحافی کی تعریف بھی درج کی گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تنخواہوں کے ایشو پر پارلیمنٹ میں ایک بل متعارف کرایا لیکن بدقسمتی سے اپوزیشن نے مسترد کر دیا ‘ یہ افسوسناک واقعہ ہے ‘حکومت ایسا میکنزم چاہتی ہے کہ صحافتی اداروں میں بروقت تنخواہیں مل سکیں ۔ میڈیا ہائوسز کو اشتہارات کی مد میں بقایات جات کا فی حد تک ادا کردیئے ہیں‘ موجودہ حکومت نےپچھلی حکومت کے بقایاجات بھی ادا کیے ہیں ۔مسلم لیگ (ن) کےرہنماشاہد خاقان عباسی نے خطاب کرتے ہو ئے کہا ہےکہ ہم سب آگاہ ہیں، ٹی وی چینلز اور اخباروں کے ساتھ آج کیا ہو رہا ہے، میڈیا کو دبانے کیلئے نیب کا سہارا لینا پڑتا ہے، آزادی صحافت اکیسویں صدی میں دب نہیں سکتی،اپوزیشن کو روزانہ سات آٹھ بار ٹی وی پر آنے کا موقع ملتا ہے۔ ہر روز وفاقی وزراء کو بھی بلا خوف و خطر ہو کر جھوٹ بولنے کا موقع ملتا ہے،آزادی صحافت ہمیں دینی ہوگی، میڈیا کو بھی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیئے، میڈیا پر ایسی باتیں بھی چلتی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، بے لگام سیاست دنیا میں کہیں نہیں ہوتی۔سیکرٹری جنرل مسلم لیگ (ن)احسن اقبال نے سیمینار سے خطاب کرتے ہؤے کہا کہ آج سو شو اکنامک انڈییکیٹ میں بنگلہ دیش نے پاکستان کو پچاس سال میں پیچھے چھوڑ دیا، بائیس کروڑ عوام پوچھتے ہیں کہ بنگلہ دیش کیوں آگے نکل گیا،میانمار ، ویتنام اور افغانستان کی کرنسی بھی پاکستان سے آگے نکل چکی ہے،ہم نے 72 سال کے بعد بھی ملک کو تجربہ گاہ بنایا ہوا ہے، پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے سیکرٹری جنرل فرحت بابر نے کہا کہ پی ایف یو جے نے پاکستانی سیاسی و صحافتی جنگ میں ہراول دستے کے طور پر کام کیا ہے، پہلے صحافی جانتے تھے کہ کون آزادی صحافت پر قدغن لگا رہا ہے، لیکن اب صحافیوں کی جنگ معلوم لوگوں سے نامعلوم لوگوں کو شفٹ ہو گئی ہے، یہ نامعلوم لوگ وہی ہیں جو لوگوں کو لاپتہ کرتے ہیں،اب صحافی نامعلوم قوتوں کے ساتھ جنگ لڑیں گے،موجودہ چیلنج یہ ہے کہ پی ایف یو جے کو بچایا جائے، وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا کہ صحافیوں اور وکیلوں کے ساتھ بگاڑ کر حکومت نہیں چل سکتی ،ہم نے پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کو سنجیدہ نہیں لیا مگر صحافیوں کے مارچ کو سنجیدہ لیں گے، کوشش کریں گے صحافیوں کے ساتھ کوئٹہ میں ہی بات کر لیں،پاکستان میں میڈیا پوری طرح آزاد ہے، باقی مسلم دنیا میں تو ایسی آزادی اظہار کا تصور بھی نہیں ، رضا ربانی نے سیمینار سے خطاب کرتے ہو ئے کہا کہ آ ج کل نصاب میں عوامی جدوجہد کی تحاریک کو دو لائنز میں سمرائز کر دیا گیا ہے، آمریت کے 11 اور جمہوریت کے آٹھ فائدے بتائے گئے ہیں، ملک میں صحافیوں نے تشدد کا سامنا کیا، پہلے سینسرشپ ہوتی تھی تو اخبار میں جگہ خالی چھوڑ دی جاتی تھی،پہلے مزاحمت ہوتی تھی اب نہیں ہوتی،صحافیوں کو پانچ سے چھ ماہ کی تنخواہیں نہیں دی جا رہیں،یہاں ایک وزیر نے کہاکہ جب صحافی بے روز گار ہوتو وہ جوہر سے کام کرتا ہے،ایسی باتیں وہی کر سکتا ہے جس نے فاقہ مستی نہ دیکھی ہو۔