• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈپریشن (ذہنی دباؤ ) دنیا بھر میں ایک عام مرض بن گیا ہے۔ ایک اندازے کےمطابق پاکستان کی 34فیصد آبادی ڈپریشن جبکہ5کروڑ افراد عمومی طور پرذہنی امراض کا شکار ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ملک میں بڑھتے ہوئے معاشی و سماجی مسائل ہیں۔ ڈپریشن سے صحت کے علاوہ سونے جاگنے کےمعمولات، فیصلہ سازی، صحت مند سرگرمیاں، یہاں تک کہ فیملی کے ساتھ روا رکھےجانے والے پیار و محبت کے تقاضے بھی متاثر ہونے لگتے ہیں۔ ڈپریشن سے چھٹکارا حاصل کرنے کا ایک طریقہ صحت بخش غذاؤں کا استعمال بھی ہے۔

آسٹریلیا کی مککوری یونیورسٹی کے محققین نے یونیورسٹی کے17سے 35سال کی عمر کے 76طلبا پران کے غذائی معمولات اور عادات کے حوالے سے تحقیق کی۔ محققین نے شرکاء کو دو گروپوں میں ترتیب دیا، ایک گروپ کی غذائوں میں تبدیلی لائی گئی جبکہ دوسرے گرو پ کو باقاعدگی سے خوراک دی گئی۔ غذا میں تبدیلی لانے والے گروپ کو یہ ہدایات دی گئیں کہ و ہ اپنی غذائوں اور طریقہ کار میں بہتری لائیںیعنی کچھ صحت بخش کھاناکھانا شروع کریں جبکہ باقاعدہ یا معمول کی ڈائٹ لینے والے گروپ کو کوئی خصوصی ہدایات نہیں دی گئیں۔ کچھ منطقی کاموں کو انجام دینے کے بعد دونوں گروپوں کو افسردگی ، اضطراب اور ان کے عمومی مزاج کے لیے جانچا گیا۔

مطالعے کے مطابق، صحت بخش غذا والے گروپ کے شرکاء کو ہدایت کی گئی کہ وہ سبزیوں (ہر دن 5بار)، پھل (2سے3روزانہ)، دلیہ (3دن)، پروٹین (روکھا گوشت، چکن، انڈے، ٹوفو یعنی سویابین سے تیار کردہ پیٹھا، لوبیا (3فی دن)، بناملائی کا دودھ (3فی دن) ، مچھلی (3فی ہفتہ) ، گری دار میوے اور بیج (3کھانے کے چمچ فی دن)، زیتون کا تیل (دن میں2چمچ) اور مسالے (ہلدی اور دار چینی ایک چائے کا چمچ) کو غذا میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ریفائنڈکاربوہائیڈریٹ، شوگر، چربی والا یا پروسیسڈ گوشت اور سوفٹ ڈرنکس کو کم کرنے کی ہدایت بھی کی گئی تھی۔

تین ہفتوں کے بعد، درج بالا صحت بخش ڈائٹ کے حامل افراد کے گروپ میں ڈپریشن کی علامات میں ’نمایاں‘ کمی دیکھی گئی جبکہ غذا میں تبدیلی کے بغیر والے گروپ میں ڈپریشن کی سطح بلند رہی۔ اس مطالعے کی سر فہرست مصنّفہ، پی ایچ ڈی اور شعبہ نفسیات کی پروفیسر فرانسس کا کہنا تھاکہ ، ’’پروسیس شدہ کھانے کی مقدار کو کم کرنے اور پھلوں، سبزیوں اور مچھلی جیسی خوراک میں اضافے کے نتیجے میں ڈپریشن کی علامات میںکمی واقع ہوئی، جس سے اس بات کا ثبوت ملتاہے کہ نوجوان اس قسم کے نتائج سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘‘۔

آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف میلبرن میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ڈپریشن کے عوامل پر قابو پانے کیلئے ماحول اور عادات میں تبدیلی لانا ضروری ہے اور ان عادات میں کھانے پینے کا معمول بھی اہمیت رکھتا ہے۔ تحقیق کے مطابق آپ کو یہ جاننا ضروری ہے کہ آپ کو کن چیزوں سے اجتناب کرنا ہے اور کن چیزوں کو اپنی خوراک میں شامل کرنا ہے جن سے آپ کے ڈپریشن میں کمی یا اس سے تحفظ کے نتائج سامنے آسکیں۔

آسٹریلیا کی میلبرن یونیوسٹی کی تحقیق کے مطابق خوراک دماغی صحت پر اثرانداز ہوتی ہے اور دماغی صحت خوراک پر اپنے اثرات چھوڑتی ہے۔ جب آپ صحت بخش غذائیں کھاتے ہیں تو اس سے جسم کو عمدہ قسم کی توانائی حاصل ہوتی ہے اور آپ کا جسم اور دماغ بہتر طریقے سے اپنے کام انجام دیتے ہیں۔ لازمی امر ہے کہ آپ گاڑی میں جتنا عمدہ ایندھن ڈالتے ہیں، اتنا ہی زیادہ انجن بہتر کارکردگی دکھاتاہے ۔

امریکن جنرل آف کلینکل نیوٹریشن کی ایک رپورٹ سے بھی یہی بات سامنے آئی ہے کہ دالیں، مچھلی، پھل اور سبزیوں کا زیادہ استعمال ڈپریشن کے خطرے کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

وہ کہتے ہیں ناں کہ ایک صحت مند دماغ ایک صحت مند جسم میں ہی پرورش پاتاہے۔ دراصل ہم جو کچھ بھی کھاتے ہیں، ان غذائوں کا اثربراہ راست جسم و دماغ پر مرتب ہوتاہے۔ ہمارے دماغ کا زیادہ تر حصہ لیپڈز(lipids)یعنی چربی پر مشتمل ہوتاہے جبکہ بقیہ حصہ امائنو ایسڈ، گلوکوز، پروٹین اور دیگر اجزاء سے بنتا ہے۔ اگر ہم فیٹی ایسڈز والی غذائیں جیسے کہ گریاں، بیج اور مچھلی وغیرہ کھائیں تو یہ دماغ میں نئے خلیوں کی تشکیل اور ان کی بحالی میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ غذائیں ہماری نیند پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں۔ اگر آپ رات میں ذہنی طور پر خود کو بے آرام اور دوپہر کے کھانے کے بعد غنودگی محسوس کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کا دماغ حاصل کی گئی خوراک سے خوش نہیں ہے۔

2018ء میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق فاسٹ فو ڈ کا کم اور سمندری غذائوں کا زیادہ استعمال ڈپریشن کے تناسب میں کمی لاتاہے۔ سی فوڈ میں موجود اومیگا تھری فیٹی ایسڈ سے دماغی صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اسی طرح بی ایم سی میڈیسن میں شائع ہونے والی تحقیق کہتی ہے کہ وہ افراد جو سبزیوں، پھلوں، کم چکنائی والی ڈیری مصنوعات، بغیرنمک کے میوہ جات، سرخ گوشت، مچھلیاں، زیتون کا تیل، انڈے اور چکن زیادہ استعمال کرتے جبکہ میٹھی، تلی ہوئی اشیا، فاسٹ فوڈز، میٹھے مشروبات، پروسیسڈ فوڈز وغیرہ کم سے کم استعمال کرتے ہیں، ان میں ڈپریشن کا خدشہ 33فیصد تک کم ہوسکتاہے۔

جرمنی کی فرینکفرٹ یونیورسٹی کی تحقیق کہتی ہے کہ ذہنی صلاحیتوں کو بڑھانے کیلئے کیمیائی اجزاء جیسے کیفین، مصنوعی خوراک اور دوائوںکے بجائے قدرتی غذائوں کا استعمال بہتر رہتاہے۔ صحت بخش غذائوں کے استعمال سے نہ صرف ڈپریشن میں کمی آتی ہے بلکہ دماغی اور جسمانی صلاحیتوں کو بھی طویل عرصے تک قائم رکھا جاسکتاہے۔ 

تازہ ترین