سندھ کی تاریخ قدیم بھی ہے اور عظیم بھی ۔ یہاں کےقدیم آثار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس دور میں جب دنیا کے زیادہ تر ممالک میں جہالت کے اندھیرے مسلط تھے، یہ سرزمین علم و ادب کا گہوارہ تھی۔ یہاں نامور علمائے کرام اور فقیہہ نے جنم لیا۔ جب سندھ کے قدیم کھنڈرات کی کھدائی کی جاتی ہے تو اس کے سینے سے برآمد ہونے والےآثار اس کے عظیم الشان ماضی کی کی گواہی دیتے ہیں۔ وادی مہران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ امن و آشتی اور چین و سکون کی سرزمین تھی۔لوگ اس دارالامن میں ذہنی یکسوئی کے لیے آتے تھے اور پھر اسے مستقل سکونت گاہ بنا لیتے تھے۔
مختلف مذاہب کے لوگوں نے یہاں اپنی مذہبی تعلیمات کا پرچار کیا ، آخر میں مسلمان آئے،جس کے بعد یہ خطہ اسلام کے نور سے منور ہوا۔صدیوں قبل یہاں بدھ راہب بھی آئے، جو اس دھرتی کی فضا سے اتنے متاثر ہوئے کہ اسی خطے میںبس گئے۔یہاں انہوں نے اپنے مذہب کا پرچار کیا اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بدھ مذہب کی طرف راغب کیا، جس کی وجہ سے یہاںبدھ مت کو فروغ حاصل ہوا۔ بدھ راہبوں نے یہاں اپنی مذہبی عبادت گاہیں، درس گاہیں اور اسٹوپا تعمیر کرائے۔
جس دورمیں آمدورفت کی سہولتیں ناپید تھیں، اس وقت آبی سفر نعمت غیر مترقبہ تھا۔ بدھ مبلغین نے بھی سندھ میں داخلے کے لیے دریائی راستہ اختیار کیا اوریہاں آکر وہ مختلف شہروں میں آباد ہوگئے۔ان کی کثیر تعداد نواب شاہ یا شہید بے نظیر آبادمیں بھی آباد ہوئی جس کی نشانی ’’ٹھل میر رکن ‘‘ میں اسٹوپا کی صورت میں آج بھی موجود ہے۔ پاکستان میںیہ واحد اسٹوپاہےجس کی چھت اورمینار کو گولائی میں بنایا گیا ہے ۔
ٹھل اسٹوپوما ،دولت پور شہرکےمشرق میں دوڑ سے پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ٹھل میر رکن کی طرف جانے کے لئے قاضی احمد سے بھی ایک سڑک پپجو تک جاتی ہے۔ راستے میں سڑک پرانگریزوں کےدور حکومت میں تعمیر ہونے والا بنگلہ بھی پڑتا ہے،جسے ٹھل بنگلہ کہا جاتا ہے۔
یہ عمارت آج شکستہ حالت میں ہے۔ دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث لوگوں نے اس کی اینٹیں نکال کراپنے گھر بنا لئے ہیں۔ ٹھل اسٹوپوما ،گوتم بدھ کے پیروکاروں نےتعمیر کرایا تھا۔انہوں نے اس کی تعمیر بالکل منفرد انداز میں کرائی اور اس جیسی عمارت، برصغیر پاک و ہند میں کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ پاکستان میں یہ واحدٹھل یا اسٹوپا ہے جس کی چھت گنبدنما ہے۔ اس کی بلندی 60 فٹ ہے اور یہ کچی اورپکی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہے۔
اس کی اینٹیں بدھ حکمرانوں کے ادوار میں تیار کرائی گئی تھیں۔سندھی مورخین کے مطابق یہ نہ صرف بہت قدیم ٹھل ہے بلکہ دوسری صدی عیسوی سے گیارھویں صدی تک بدھ مت کی تعلیمات کا اہم مرکز تھا۔اسٹوپا کے گنبد کا پھیلاؤ سطح زمین سے شروع ہوتا ہے جہاں اس کا قطر 60 فٹ ہے۔ جوں جوں یہ مینار چوٹی کی طرف جاتا ہے اس کی چوڑائی کم ہوتی جاتی ہے ۔اس مینارے پر دس دس فٹ کے فاصلے پر اینٹیں باہر نکال کر گیلری نما پیڑیاں بنائی گئی ہیں جن کو اس مینار کی منازل بھی کہا جاسکتا ہے تاہم نچلے حصے کی اینٹیں ٹوٹ جانے کے باعث صرف نشانات باقی رہ گئے ہیں جبکہ اوپر ی منازل کی اینٹیں اب بھی صحیح سلامت ہیں۔
قدیم آثار کے یورپی ماہر ہینری قزنس نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس کی تعمیر میں جو پختہ اینٹیں اور پلستر استعمال ہوا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ہزاروں سال قدیم ہیں۔ کھدائی کے دوران مختلف زیورات اور مورتیاںبھی ملیں ۔ قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے بزر گ، عبداللہ جٹ کو حکومت کی جانب سے کلیم میں زمین ملی تھی۔ جب گھر بنانے کے لئےیہاں کھدائی کی گئی تووہاں سےمٹی سے بنا ہو ا ہاتھی کا مجسمہ اور ایک ایسی پتھر کی سل ملی جس پر ایک عورتکی گود میں بیٹھے بچے کی تصویرمنقش تھی۔ اس شبیہ کے بارے میں محققین کا خیال ہے کہ، یہ بچہ گوتم بدھ ہے جسے اس کی ماں گود میں لئے بیٹھی ہے۔
اس اسٹوپوما کے آس پاس کی کھدائی کے بعد ملنے والی اشیاء سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ یہاں بدھ مت کے ماننے والے خاصی تعداد میں آباد تھے اور انہوں نے مذکورہ مینار اپنے شہر کی دور سے شناخت یا پھر دشمن پر نظر رکھنے کے مقاصد کے تحت تعمیر کرایاتھا۔اسٹوپا حوادث زمانہ کا شکار ہوکرتباہ وہ برباد ہوگیا تاہم میناراب بھی موجود ہے۔ لیکن اس میں جانا خطرے سے خالی نہیں۔ اسے زہریلے سانپوں، بچھوؤں اور الؤوں نے اپنا مسکن بنایا ہوا ہے۔یہاں موجودسانپوں کے بارے میں علاقے کے افراد کا کہنا ہے کہ یہ اس قدر خطرناک ہیں کہ ان کا ڈسا شخص فوری طور پر ہلاک ہوجاتا ہے۔
اس اسٹوپوما کا نام تو کسی کو معلوم نہیں ہوسکا تاہم محققین کا خیال ہے کہ اس کا نام بدھ مت کے بانی گوتم بدھ کے نام سے ہی موسوم ہوگا۔ا س بارے میں ممتاز محقق پندار کرکی رائے ہے کہ اصلی اسٹوپوما ’’کنشا ‘‘پہلی صدی میں بنایا گیا تھا۔ دولت پور کا اسٹوپوما ریلوے لائن بچھانے کے وقت اس طرح اجاڑا گیا کہ اس کی تعمیرمیں لگائی گئی اینٹیں ریلوے لائن کے ساتھ بچھائی گئی سڑک کی تعمیرمیں استعمال کی گئیں، جس سے اسٹوپوما کی ہیئت بدل گئی ۔
اس بارے میں آثار قدیمہ کے ماہر، ملک محمد ایوب شاد نے جنگ کو بتایا کہ آج سے پچیس سال قبل جب انہوں نے اس اسٹوپوما کے بارے میں ریسرچ کی تو مخدوش ہونے کے باوجود بھی یہ اپنی حیثیت میں برقرار تھا جبکہ سندھ گریٹر نامی کتاب کے صفحہ نمبر 638 پر بتایا گیا ہے کہ اس اسٹوپوما کی جنرل جان جیکب کی نگرانی میں کھدائی کی گئی تھی اس زمانے میں وہ سندھ کے قائم مقام کمشنر تھے۔انہوں نے اپنی کتاب میں ذکر کیاہے کہ کھدائی کے دوران’’، رکن الدین ٹھل اسٹوپوما ‘‘کی دیوار کے ساتھ ایک سرنگ بھی دریافت ہوتی تھی ۔