• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نظامِ کائنات اور قدرت کے مظاہر پر غورو فکر

مولانا نعمان نعیم

(مہتمم جامعہ بنوریہ عالمیہ)

قرآن نے عہدِ جدید کی تخلیق کے لیے زبان وقلم پر زور دیا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا تھا کہ جو دَور آنے والا ہے، وہ سائنٹفک دَور ہوگا۔ وہ خود اس نئے دور کی بنیاد رکھ رہا تھا۔ سائنٹفک دَور زبان وقلم پر تعمیر ہوگا، چناں چہ سب سے پہلی وحی جو نبیِ کریم ﷺ پر نازل ہوئی، اس کے الفاظ یہ تھے: ’’پڑھ اپنے رب کے نام سے، جس نے پیدا کیا انسان کو جمے ہوئے خون سے، پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہے، جس نے علم سکھایا۔،(سورۃ العلق)قرآن میں ایک پوری سورت ہی قلم کے نام سے ہے، اس سورت کی ابتدا ہی میں اللہ نے قلم اور لکھنے کی قسم کھائی ہے، جو قرآنی اسلوب میں قلم کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔ترجمہ:’’ قلم کی قسم اور اس کی جولوگ لکھتے ہیں۔،،(سورۃالقلم)

ایک طرف قرآن نے مسلمانوں کو زبان وقلم کی جانب متوجہ کرکے، انہیں ذرائع ابلاغ وترسیل سے نوازا، تو دوسری طرف رموزِ کائنات کے تعلق سے بعض ایسے اشارات دیے، جن سے قوتِ فکر کو مہمیز ملتی ہے۔ قرآن نے بعض آیات میں ان اسبابِ طبعی کی کرشمہ سازیوں کا ذکر کیا ہے، جو اکثر لوگوں کی نگاہوں کے سامنے رہتے ہیں، مگر غفلت کی بنا ءپر وہ ان پر غور و فکرنہیں کرتے اور نہ ان سے کوئی سبق حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

ارشادِ ربّانی ہے: آسمان سے پانی اسی نے برسایا، پھر ندی نالے اپنی اپنی گنجائش کے مطابق بہہ نکلے اور پانی کے ریلے نے ابھرتے ہوئے جھاگ کو اوپر اٹھالیا اور آگ میں تپاکر زیور بناتے وقت یا کام کی دوسری کوئی دھات کو بھٹی میں پگھلایا جاتا ہے، اس میں بھی ایسا ہی جھاگ اٹھ کر اوپر آجاتا ہے، اسی طرح اللہ حق وباطل کی مثال بیان کرتا ہے، تو جوکوڑا کرکٹ ہوتا ہے، وہ سوکھ کر ضائع ہوجاتا ہے اور لوگوں کے نفع کی چیز زمین میں رہ جاتی ہے،اسی طرح اللہ تعالیٰ سچی مثالیں بیان کرتا ہے۔ (سورئہ رعد:۱۷)

ایک مقام پر فرمایاگیا: کیا انکار کرنے والوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان وزمین دونوں بند تھے، پھر ہم نے انہیں کھول دیا اور ہم نے پانی سے ہر جان دار چیز کو بنایا، کیا پھر بھی وہ ایمان نہیں لاتے؟(سورۂ انبیاء:۳۰)اس آیت میں زمین وآسمان کی ابتدائی حالت کا نقشہ کھینچاگیا ہے، جسے موجودہ زمانے میں ’’بگ بینگ‘‘ نظریہ کہا جاتا ہے، جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق زمین وآسمان کا تمام مادّہ ایک بہت بڑے گولے (سپرایٹم) کی شکل میں تھا، طبیعاتی قوانین کے تحت اس وقت اس کے تمام اجزاء اپنے اندرونی مرکزکی طرف کھنچ رہے تھے اور انتہائی شدت کے ساتھ باہم جڑے ہوئے تھے ،پھرنامعلوم اسباب کی بنا ءپر اس گولے کے اندر ایک دھماکا ہوا، اور اس کے تمام اجزاء بیرونی سمتوں میں پھیلنے لگے، اس طرح بالآخر یہ وسیع کائنات وجود میں آئی، جو آج ہمارے سامنے ہے:ترجمہ: اور ہم نے زمین میں پہاڑ بنائے کہ وہ انہیں لے کر جھک نہ جائے اور اس میں ہم نے کشادہ راستے بنائے، تاکہ لوگ راہ پائیں اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنایا اور وہ اس کی نشانیوں سے اعراض کیے ہوئے ہیں۔(سورۂ انبیاء:۳۱-۳۲)

اس آیت میں زمین کی چند نشانیوں کا ذکر کیاگیا ہے، جن میں ایک پہاڑوں کے سلسلے ہیں، جو سمندروں کے نیچے کے کثیف مادّہ کو متوازن رکھنے کے لیے سطح زمین پر ابھرآئے ہیں، اس سے مراد غالباً وہی چیز ہے، جسے جدید سائنس میں ارضی توازن کہا گیا ہے۔ اسی طرح زمین کا اس قابل ہونا بھی ایک بڑی نشانی ہے کہ اس میں انسان اپنے لیے راستے بناسکتا ہے، زمین کہیں ہموار ہے، تو کہیں پہاڑی درّے اور کہیں دریائی شگاف ہیں۔

اسی طرح آسمان کا محفوظ چھت ہونا بھی بہت بڑی نشانی ہے کہ آسمان اور اس کے ساتھ پھیلی ہوئی پوری فضا کی ترکیب اس طور پر ہے کہ وہ ہمیں سورج کی نقصان دہ شعاعوں سے بچاتی ہے اور شہابِ ثاقب کی یورشوں سے محفوظ رکھتی ہے۔

ارشادِ رب العزت ہے: اور سمندر میں کشتیاں تمہارے تابع کردیں، جو اس کے حکم سے چلتی ہیں اور بہتی ہوئی ندیوں اور نہروں کو تمہارے لیے کام میں لگادیا اور سورج اور چاند کو تمہاری ضرورتوں کی تکمیل کے لیے مقرر کیا، جو ایک ضابطے پر مسلسل چل رہے ہیں ، رات اور دن کو بھی تمہارے کام میں لگادیا اورتمہاری ضرورتوں کے ہر ایک سوال کو اس نے پورا کیا ، اللہ کی نعمتوں کو اگر تم گننا چاہو،تو گنتی کاشمار پورا نہ کرسکوگے،بےشک، انسان بڑا بے انصاف اور ناشکرا ہے۔(سورۂ ابراہیم:۳۲-۳۴)اس آیت میں قرآن نے تسخیرِ کائنات کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالی ہے اور پہلی بار اس راز سے پردہ اٹھایاکہ دنیا کی یہ تمام چیزیں انسان کی خدمت گزار ہیں، ان کا درجہ انسانوں سے بالاتر نہیں،بلکہ فروتر ہے۔

اسلام سے قبل انسان نادانی کی بناء پر وسیع کائنات کی عظیم الشان مخلوقات سے اتنا مرعوب تھا کہ ان کی پرستش میںاپنی خیر محسوس کرتا تھا، سب سے پہلے قرآن نے اس مرعوبیت کا خاتمہ کیا اور انسان کو اس کا مقام یاد دلایا:ترجمہ: بوجھل اور رس بھری ہوا کے جھونکے بھیج کر ہم نے آسمان سے پانی برسایا، پھر تمہیں خوب سیراب کیا، جب کہ تم اپنی ضرورت کے مطابق پانی کا خزانہ جمع نہیں رکھ سکتے تھے۔(سورۃ الحجر:۲۲)اس آیت کو اگر ظاہری معنیٰ سے دیکھا جائے، تو ظواہرِ طبیعی کے چند مہمات پر روشنی پڑتی ہے۔ 

آیت میں تو بظاہر ہوا کا فائدہ بیان کیاگیا ہے کہ ہوائوں کے چلنے سے ابرباراں کا نزول ہوتا ہے، ہوا چلنے سے بادلوں کا سفر شروع ہوتا ہے، اس سفر کے دوران بادلوں کے درمیان تصادم ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں کڑک اور اس کے ساتھ ہی بجلی پیدا ہوتی ہے اور پھر اس کے بعد بارش کی فیاضی شروع ہوتی ہے۔ اس طرح صرف اس ایک آیت سے کڑک، بجلی کی چمک اور بارش کے نزول کے بارے میں کتنے سائنسی نکتے معلوم ہوجاتے ہیں، بلکہ یہیں سے یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ بجلی کی تخلیق مثبت اور منفی اثرات کے آبی تصادم سے ہوتی ہے، اس انکشاف سے انسانی عقل اس حقیقت تک پہنچی، جو آج ہمارے پاس الیکٹرک نظام کی شکل میں موجود ہے۔

قرآن میں جہاں عام عقل والوں کی ہدایت وروشنی کے لیے ظواہرِ طبیعی سے استدلال کیاگیا ہے، وہیں اہلِ نظر اور اربابِ علم وعقل کے لیے دقیق علمی وتکوینی نکات سے بھی بحث کی گئی ہے، قرآن اصل میں کتابِ ہدایت ہے، جس کا مقصد ساری انسانیت کو محمد رسول اللہ ﷺ کی دعوت پر جمع کرنا ہے، چوں کہ یہ ایک کامل ومکمل کتاب ہے اور ہر دور کے لیے رہنمائی کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ زمین وآسمان اور ان میں بسنے والی تمام مخلوقات کا خالق ہے، جس طرح انس و جن کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا، اسی طرح باقی مخلوقات کو بھی کسی نہ کسی مقصد کے لیے پیدا کیا ،ہر مخلوق اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ ان مخلوقات میں سورج چاند اور ستارے بھی شامل ہیں۔

سورج کے بارے میں قرآن کا تصور یہ ہے کہ وہ اپنے مدار میں گردش کرتے ہوئے اپنی مقررہ منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ارشادِ ربانی ہے: اور سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چل رہا ہے، یہ پروردگار کا مقرر کردہ نظام ہے اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کردی ہیں، یہاں تک کہ وہ لوٹ کر کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ہوجاتا ہے، نہ سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو پکڑلے اور نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے، سب آسمانی سمندر میں تیررہے ہیں۔(سورۂ یٰس:۳۸-۴۰)

اس آیت میں قرآن نے سورج کی حرکت کے بارے میں کتنا دوٹوک نظریہ دیا ہے، مگر سائنس کی حیرانی وپریشانی دیکھیے کہ ایک زمانے میں سائنس نے یہ نظریہ قائم کیا تھا کہ سورج اپنی جگہ ٹھہرا ہوا ہے اور زمین اپنے محور پر گردش کررہی ہے اور اسی سے لیل ونہار وجود میں آرہے ہیں،مگر کچھ ہی دنوں کے بعد حقائق نے یہ ثابت کردیا کہ یہ نظریہ غلط تھا اور صحیح نظریہ یہ ہے، سورج بھی اپنے مدار پر گردش کررہا ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:اور سورج، چاند اور ستارے سب کے سب اس(اللہ)کے حکم سے(ایک مقرر،منظم اور منضبط نظام کے)تابع بنا دیے گئے ہیں۔ (سورۃ الاعراف،:54)

حضرت ابوبکر صدیقؓ سے مروی طویل حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیوں میں سے دوبڑی نشانیاں ہیں۔ (صحیح بخاری، 1063)ارشادِ باری تعالیٰ ہے:اللہ وہی ذات ہے، جس نے سورج کو روشنی کا ذریعہ اور منبع بنایا۔(سورۂ یونس: 5) (جاری ہے)

تازہ ترین