اطہر اقبال
پیارے بچو!آپ اپنے بڑوں سے کہاوتیں اور محارے تو سنتے رہتے ہوں گے لیکن شاید ان کے مفہوم سے ناواقف ہوں۔ کہاوتوں کا مفہوم واضح کرنے کے لیے ’’کہاوت کہانی‘‘ کا سلسلہ شروع کیا ہے تاکہ آپ ان کا استعمال جان سکیں۔
بیلو میاں کی عمر تو گیارہ برس تھی لیکن ان کی شرارتوں کا یہ حال تھا کہ بڑے بڑے اپنے کان پکڑتے تھے۔ ببلو ساتویں جماعت کا طالب علم تھا اور اس کا شمار ذہین بچوں میں ہوتا تھا۔ ببلو کے امی ، ابو اسے اکثر سمجھاتے تھے کہ ’’بہت زیادہ شرارتیں اچھی نہیں ہوتیں، اور شرارت وہی اچھی ہوتی ہے، جس سے کسی کی دل آزاری نہ ہو یا نقصان نہ ہو‘‘۔ مگر ببلو میاں کسی کی سنتے نہیں تھے۔
گھر میں بہن بھائیوں سے چھیڑ چھاڑ، اسکول میں ہم جماعتوں کو ستاتے جب کہ گلی میں جانوروں کو تنگ کرنے سے بھی باز نہیں آتے تھے۔ کبھی کسی کی بکری جو گھر سے باہر بندھی ہوتی تھی، اس کی رسی کھول دیتا، کبھی بلی کے بچے لے کر بھاگ جاتا اور اسے خوب دوڑ لگوانے کے بعدبچے واپس رکھ دیتا۔
ایک دن اسے اپنی شرارت بہت مہنگی پڑ گئی۔ ہوا یوں کہ گلی سے باہر نکلتے ہوئے ببلو میاں نے ایک کتے کو پتھر ماردیا۔ کتا جو شاید پہلے ہی غصے سے بھرا بیٹھا تھا، وہ ببلو میاں پر جھپٹ پڑا اور اس کے جسم کو بھنبھوڑ ڈالا۔ اس کی چیخ و پکار سے لوگ جمع ہوگئے اور اسے کتے سے چھڑایا۔ اس وقت تک وہ بہت زخمی ہوگئے تھے۔
اسے اسپتال لے جایا گیا جہاں وہ دو روز تکبے ہوش پڑا رہا۔اس کے زخموں کی مرہم پٹی ہوتی رہی ، پیٹ میں اینٹی ربیز کے انجکشن لگے، تیسرے روز اسے ہوش آیا تو اپنے سرہانے ابو کو بیٹھا دیکھا۔ اسے ہوش میں آتے دیکھ کر ابو نے کہا، ’’بیٹا ، میں تمہیں سمجھاتا تھا نا، کہ ہر وقت کی شرارت اچھی نہیں ہوتی، نتیجہ تم نے بھگت لیا، بلاوجہ کتے کو چھیڑا اور اسپتال میں داخل ہونا پڑا، اسے کہتے ہیں’’آبیل مجھے مار‘‘