سپریم کورٹ میں این اے 75 ڈسکہ میں دوبارہ انتخابات کرانے سے متعلق کیس کی سماعت میں جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ڈسکہ الیکشن میں قانون پرعمل نہیں ہوا، پیش کردہ نقشے کے مطابق20 پریزائیڈنگ افسران صبح تک غائب تھے، تمام غائب پریزائیڈنگ افسر صبح ایک ساتھ نمودار ہوئے،کیا تمام پریزائیڈنگ افسران غائب ہوکر ناشتہ کرنے گئے تھے؟
سپریم کورٹ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ این اے 75 ڈسکہ میں دوبارہ انتخابات کے کیس کی سماعت کررہا ہے۔
کیس کی سماعت آج جب سپریم کورٹ میں جب شروع ہوئی تو نوشین افتخار کے وکیل سلمان اکرم راجہ اور الیکشن کمیشن کے وکیل کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کے سبب عدالت میں پیش نہیں ہوئے جس پر عدالت نے سماعت کچھ دیر کیلئے ملتوی کردی۔
وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق قانون کی خلاف ورزی پر دوبارہ پولنگ کا حکم دیا گیا ہے۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ تمام کشیدگی ڈسکہ کے شہری علاقے میں ہوئی، الیکشن کمیشن کا تفصیلی فیصلہ اور جواب اہمیت کے حامل ہیں۔
وکیل پی ٹی آئی شہزاد شوکت نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نوشین افتخار نے صبح 4 بجے 23 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ ووٹنگ کی درخواست دی، صبح سوا 5 بجے 23 پولنگ اسٹیشنز کے فارنزک آڈٹ کی درخواست کی گئی، دوسری درخواست میں ڈسکہ کے36 پولنگ اسٹیشنز بھی شامل کیے گئے۔
وکیل پی ٹی آئی نے دلائل میں کہا کہ ریٹرننگ افسر نے 14 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ ووٹنگ کی سفارش کی، ڈی آر او کے مطابق پولنگ اسٹیشن کے باہر دونوں پارٹیوں کا ایک ایک شخص قتل ہوا۔
شہزاد شوکت نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے پولیس پولنگ کے دن پرتشدد واقعات پر اندھی بنی رہی، ہر ضمنی انتخابات میں جنرل الیکشن کے مقابلے میں ٹرن آؤٹ کم ہوتا ہے، جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ پولنگ کے دن ووٹنگ معطل کیوں رہی؟
وکیل پی ٹی آئی شہزاد شوکت نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ سیکشن88 کے تحت اگر پولنگ معطل ہو تو پریزائڈنگ افسر ریٹرننگ افسر کو رپورٹ کرتا ہے، ڈسکہ میں کسی ریٹرننگ افسر نے کوئی رپورٹ ڈی آر او کو جمع نہیں کرائی، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ رابطہ پولنگ کے دوران کیا یا بعد میں، یہ واضح نہیں۔
وکیل شہزاد شوکت نے بتایا کہ مسلم لیگ نون کے وکیل کا انحصار الیکشن کمیشن کی پریس ریلیز پر تھا، پریس ریلیزکے مطابق آئی جی پنجاب سے سیکرٹری ای سی پی نے رابطہ کیا۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ اگر پولنگ معطل ہوکر دوبارہ شروع ہو تو الیکشن ایکٹ کا سیکشن 88 لاگو نہیں ہوتا؟ وکیل پی ٹی آئی نے جواب میں کہا کہ اگر یہ الزام ہوتا کہ ووٹر پولنگ اسٹیشنز کے باہر رکے رہے پول نہیں کرسکے تو بات ہوتی۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ آپ نے ووٹرز بھگا دیے تھے، پولنگ اسٹیشن کے باہر وہ کیسے رہتے؟ کچھ پریزائیڈنگ افسران نے اپنے فون بند کردیے اور اکٹھے غائب ہوگئے، اس کے بعد تمام غائب ہونے والے پریزائیڈنگ افسر صبح یکایک ایک ساتھ نمودار ہوئے۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے سوال کیا کہ کیا تمام پریزائیڈنگ افسران غائب ہوکر ناشتہ کرنے گئے تھے؟
وکیل شہزاد شوکت نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ایک ڈی ایس پی کا بہانہ کرکے پورا الیکشن متنازع قرار دے دیا، جسٹس عمرعطا بندیال نے اس پر کہاکہ الیکشن کمیشن کے مطابق اس ڈی ایس پی کو حلقے کا سیکیورٹی انچارج لگایا گیا تھا، وکیل شہزاد شوکت نے جواب میں کہا کہ ڈی ایس پی ذوالفقار ورک کو سیکیورٹی انچارج لگانے کی بات بالکل غلط ہے۔
وکیل پی ٹی آئی نے کہاکہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 9 کےتحت الیکشن کمیشن نے انکوائری کرانا تھی، جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کو کالعدم کرنا انتظامی فیصلہ تھا، انتظامی فیصلہ فوری طور پر کرنا پڑتا ہے۔
وکیل شہزاد شوکت نے کہا کہ انتظامی فیصلے کے لیے انکوائری کا ہونا ضروری تھا، الیکشن کمیشن نے ویڈیو پر انحصار کرکے فیصلہ دیا، جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر کی رپورٹ کے مطابق کئی پولنگ اسٹیشنز پر فائرنگ ہوئی، مگر 20 پریزائیڈنگ افسران جہاں سے لاپتہ ہوئے وہاں فائرنگ کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ قومی اسمبلی کے ایک حلقہ پر ایک کروڑ90 لاکھ کا خرچہ آتا ہے، جسٹس بندیال نے کہا کہ دوبارہ چیک کریں یہ اخراجات کم لگتے ہیں، ایک کروڑ90 لاکھ تو صرف ایک امیدوار کا خرچ ہوگا۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ جاننا اہم ہے الیکشن شفاف، منصفانہ اور قانون کے مطابق ہوئے یا نہیں، حلقے میں تصادم ہوئے، پولیس دیکھتی رہی، شاید پولیس کی انتخابات کے حوالے سے ٹریننگ نہیں تھی۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے ری پول کا فریقین کو نوٹس دیا؟ پولنگ ختم ہونے کے 10 گھنٹے بعد نوشین افتخار نے درخواست دی۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ الیکشن ہورہا تھا، آئی جی اور چیف سیکرٹری کیسے سوسکتے تھے؟ وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ 20 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ ووٹنگ پر اعتراض نہیں۔
جسٹس بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ آئینی اداروں کا احترام کرتے ہیں، ڈسکہ الیکشن میں قانون پرعمل نہیں ہوا، کیا ہوائی فائرنگ اتنا شدید مسئلہ ہے کہ دوبارہ الیکشن ہوں؟ الیکشن کمیشن نے پولیس کے عدم تعاون کا معاملہ اٹھایا، پولیس کے خلاف تو کارروائی بھی ہوسکتی ہے، پولیس کا عدم تعاون دوبارہ پولنگ کا جواز نہیں ہوسکتا۔
سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران پی ٹی آئی وکیل کی الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا دوبارہ مسترد کردی، استدعا میں وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ جب تک ٹرائل چل رہا ہے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کیا جائے۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرنے کا فائدہ نہیں ہے، اگلی سماعت پر اس نکتے پر غور کریں گے کہ کیا کرنا ہے۔
سپریم کورٹ نے کہاکہ اگلے ہفتے کے دوران کیس سماعت کیلئے مقرر ہوگا۔
آج صبح سماعت میں ہوئے وقفے سے قبل معاون وکیل اعظم نذیر تارڑ نے عدالت کو بتایا کہ نوشین افتخار کے وکیل سلمان اکرم راجہ کو کورونا ہوگیا ہے، مجھے عدالت میں پیش ہونے کا کہا گیا ہے، کیس کی تیاری کیلئے ایک دن کی مہلت دی جائے۔
وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ عدالت چاہے تو سلمان اکرم راجہ زوم کے ذریعے دلائل دے سکتے ہیں۔
معاون وکیل الیکشن کمیشن نے بھی سپریم کورٹ کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل کو بھی کورونا ہوگیا ہے۔
اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کیس کی سماعت میں ساڑھے 10 بجے تک وقفہ کر دیا اور کہا کہ ہم کیس کو ساڑھے دس بجے کے بعد سنیں گے۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے این اے 75ڈسکہ کا نقشہ اور تفصیلات سپریم کورٹ میں جمع کروا دی ہیں، لاپتہ پریزائیڈنگ افسران کے پولنگ اسٹیشنوں کی تفصیلات بھی پیش کردہ نقشے میں شامل ہیں۔
عدالت نےالیکشن کمیشن سےچند پولنگ اسٹیشن یا پورے حلقے میں دوبارہ انتخابات کے بارے میں وضاحت طلب کر رکھی ہے ۔