• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ویسے تو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے قیام کے وقت ملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں نے ایسی امیدیں وابستہ نہیں کی تھیں کہ یہ اتحاد کوئی سیاسی بھونچال پیدا کرے گا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اہل خیال یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ یہ اتحاد ایک ہی جھٹکے میں زمین بوس ہو جائے گا۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے اندر اختلافات پیدا ہونے اور 26 مارچ کو دی گئی لانگ مارچ کی کال ملتوی ہونے کے بعد یہ حقیقت ابھر کر سامنے آچکی ہے۔

یہ بات روز اول سے عیاں تھی کہ پیپلزپارٹی کسی بھی صورت اسمبلیوں سے مستعفی ہونے پر راضی نہیں ہوگی کیونکہ اس کے پاس ایک صوبے کی حکومت بھی ہے جس سے وہ کسی صورت دستبرداری قبول نہیں کرے گی۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کے پاس اس وقت اسمبلی کے اندر سب سے زیادہ نشستیں ہیں لیکن کسی صوبائی حکومت کا کنٹرول اس کے پاس نہیں جبکہ دیگر چھوٹی جماعتوں کے پاس تحریک آگے بڑھانے کے لئے سیاسی طاقت نہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے نواز شریف کی واپسی کا مطالبہ کرکے پی ڈی ایم کی حکمت عملی کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ آصف زرداری نے کہا کہ جب نواز شریف اور اسحاق ڈار وطن واپس آئیں گے تو پیپلزپارٹی اپنے استعفے ان کے حوالے کر دے گی۔ انہوں نے یہ تجویز بھی دی کہ اگر حکومت کے ساتھ محاذ آرائی جاری رکھنی ہے تو اس کے لئے ہم سب کو جیل جانے کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ اجلاس میں شریک مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نوازنے مبینہ طورپر سخت لہجہ اپناتے ہوئے کہاکہ آصف علی زرداری بھی اجلاس میں اسی طرح وڈیو لنک کے ذریعے شریک ہیں جس طرح ان کے والد شریک ہوئے۔ انہوں نے کہاکہ میاں نواز شریف علیل ہیں اور کسی کو بھی حق نہیں پہنچتا، انہیں واپس بلانے کے لئے ان پر دبائو ڈالے۔ جس نے بھی میاں صاحب سے بات کرنی ہے وہ مجھ سے کر سکتا ہے۔

اس صورتحال کے بعد پی ڈی ایم کے اندر موجود دراڑیں واضح طورپر سامنے آ گئی ہیں۔ یہ تقسیم محض استعفوں تک محدودنہیں بلکہ پس پردہ دیگر محرکات بھی کارفرماہیں۔ اگر تحریک کو جاری رکھنا ہے تو بقول آصف علی زرداری میاں صاحب اور اسحق ڈار کو وطن واپس آنا ہوگا ۔اس مطالبے کو مریم نواز نے سختی سے رد کر دیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ مفادات پر مبنی یہ تقسیم وقت کے ساتھ مزید گہری ہو جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پی ڈی ایم کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے اگر میاں نواز شریف وطن واپس نہیں آتے تو آصف علی زرداری اس اتحاد سے اپنی راہیں جدا کر لیں۔ یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ پی ڈی ایم کو ہمیشہ متضاد مقاصد کا حامل ایک غیر فطری اتحاد سمجھا جاتا تھا۔ اگرچہ اتحاد میں شامل تمام جماعتیں اپنے اپنے قائدین کے لئے این آر او کے حصول کے لئے خفیہ طور پر مصروف عمل رہی ہیںلیکن اس کے باوجود نواز شریف نے اپنی ہر تقریر میں حکومت اور سیکورٹی اداروں کے سربراہوں کے خلاف زہر آلود الفاظ کا چنائوکیاجس نے مفاہمت کے بچے کھچے دروازے بھی بند کر دیے۔ اس کے برعکس آصف علی زرداری نے ،جو ہر بات مناسب وقت پر کرنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، ن لیگ کی فکر کا ساتھ نہیں دیا۔ زرداری نے مجموعی طورپر پی ڈی ایم کے ایجنڈے کو فروغ دینے کا تاثر تو دیا تاہم جہاں انہیں ذرا بھی اس کا ٹکرائو اپنے ذاتی ایجنڈے کے ساتھ ہوتا نظر آیا، انہوں نے ہاتھ کھینچ لینے کو ترجیح دی۔

تحریک کے اس اہم موڑ پر بھی آصف زرداری نے ایک دورس چال چل کر فیصلہ کن انداز میں میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی شرط عائد کر دی ہے جس کے بعد اتحاد میں شامل دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان اختلاف رائے نمایاں ہو گیا ہے۔ اگرچہ میڈیا کو بتایا گیا کہ پیپلزپارٹی نے اسمبلیوں سے استعفوں کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے وقت مانگا ہے جو پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کرے گی لیکن اس بات کا قوی امکان ہے کہ پیپلزپارٹی استعفوں کے معاملے پر کسی صورت اپنے موقف سے دستبردار نہیں ہوگی۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر پیپلزپارٹی اسمبلیوں سے مستعفی نہ ہونے کے فیصلے پر قائم رہتی ہے تو پھر دیگر جماعتیں اس تحریک کو کیسے آگے بڑھائیں گی؟ ان حالات میں پی ڈی ایم کے پاس دو ہی راستے ہیں۔ ایک یہ کہ پیپلزپارٹی کی قیادت سے بات چیت کرکے انہیں اتحاد میں شامل رہنے پر راضی کیا جائے یا پھر ان کی پروا کئے بغیر اتحاد کے مقاصد کی تکمیل کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تحریک کو آگے بڑھایا جائے۔ پی ڈی ایم کی قیادت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ آصف زرداری کو استعفوں پر راضی کرنا وقت کا ضیاع ہے کیونکہ گزشتہ چند ماہ میں پیپلزپارٹی نے جو سیاسی فوائد حاصل کئے ہیں، ان کی بنا پر وہ کسی صورت ایسا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ بالآخر نتیجہ یہی نکلے گا کہ پی ڈی ایم میں شامل ایک موثر اتحادی جماعت کو الگ کر دیا جائے۔

جو کچھ پی ڈی ایم کے ساتھ ہوا ہے اس کا فائدہ تحریک انصاف کو پہنچا ہے اور اسے مزید مضبوط ہونے کا موقع ملا ہے تاکہ وہ اپنے اصلاحاتی اور عوام دوست منصوبوں پر عمل کو مزید تیز کر سکے جو یقیناً تحریک انصاف کو آئندہ عام انتخابات میں سیاسی فائدہ پہنچا سکتے ہیں ۔حکومت کو اب ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ ملک میں عوامی فلاح و بہبود کے لئے ترقیاتی کاموں کے طریقہ کار میں ہنگامی سطح پر تبدیلیاں لانے کے لئے قانون سازی کو فوری طور پر آگے بڑھانا چاہئے ۔ عوامی اہمیت کے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے حکومت کو اپنی حکمت عملی پر غور کرنا ہوگا اور ایک ایسی ٹیم تشکیل دینا ہوگی جسے حکومت کی مکمل معاونت حاصل ہو اور جو حالات وواقعات اور زمینی حقائق کو سمجھنے پر مکمل عبور رکھتی ہو، جو حقیقت پسند اور پرعزم ہو اور عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار بھی۔

تازہ ترین