سندھ میں جرائم پیشہ عناصر کو گرفت میں لانے، اشتہاری اور روپوش ملزمان کی 100 فیصد گرفتاری کو یقینی بنانے اور سندھ ، پنجاب ، بلوچستان، کے پی کے سمیت ملک بھر کے تمام تھانوں کو آپس میں جدید ٹیکنالوجی کےذریعے مربوط کرنے کے حوالے سے4 سال قبل سندھ کے تمام اضلاع میں تھانوں کی سطح پر (سی آر آئی ) کریمنل ریکارڈ آئیڈنٹی فیکیشن سسٹم بنایا گیا تھا اور تمام اضلاع کے ایس ایس پی آفسز میں (سی آر او ) کریمنل ریکارڈ آفس بنائے گئے تھے۔
آج بھی سندھ کے تمام اضلاع میں (سی آر او) سسٹم مکمل طور پر فعال ہے جہاں (سی آر ایم ایس) کرمنل ریکارڈ منیجمنٹ سسٹم کے تحت فوٹو گراف اور دیگر معلومات کمپیوٹر میں محفوظ کی جاتی ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر تھانوں کی سطح پر صرف کراچی میں ( سی آر آئی ) نظام کام کررہا ہے۔
سکھر، حیدرآباد، شہید بے نظیر آباد، میرپورخاص اور لاڑکانہ ڈویژن کے 23 اضلاع کے تھانوں میں یہ سسٹم ڈیوائس اور دیگر ضروری آلات ہونے کے باوجود کیوں شروع نہیں کیا جاسکا، یہ آئی جی سندھ اور آئی جی آفس کے متعلقہ شعبے کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ ایک سینئر پولیس آفیسر کے مطابق اس صورتحال کے باوجود بھی اس سسٹم کی افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب بتک اس نظام کے تحت 4 سالوں میں سندھ اور پنجاب کے 15سے 18 لاکھ جرائم پیشہ عناصر سندھ اور پنجاب پولیس کے ریکارڈ پر ہیں۔
4 سال قبل اس وقت کے آئی جی سندھ، اے ڈی خواجہ نے سندھ پولیس کو جدید اسلحہ سے لیس کرنے کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی متعارف کرائی تھی ۔ پہلی مرتبہ سکھر سمیت سندھ بھر کے تمام تھانوں اور جیلوں کو پنجاب پولیس کے ساتھ آن لائن سسٹم کے ذریعے منسلک کرنے کے لئے سندھ بھر میں کریمنل ریکارڈآئیڈنٹی فیکیشن ( سی آر آئی ) کا قیام عمل میں لایا گیا ہے اور سکھر سمیت سندھ کے مختلف اضلاع میں سی آر او سینٹرز اور آئی ٹی لیب بنائے گئے، اس جدید سسٹم کی بدولت جرائم پیشہ عناصر کی گرفتاری میں بڑی مدد ملی ہے اور ملے گی، سندھ اور پنجاب کے تمام تھانے آپس میں اس نظام کے تحت آن لائن سسٹم کے ذریعے ایک دوسرے کے مطلوب ملزمان کے حوالے سے معلومات حاصل کرکے گرفتاری عمل میں لا سکیں گے۔
چونکہ جرائم پیشہ عناصر کا تمام تر ریکارڈ کمپیوٹر ائزڈ کرکے آن لائن کیا جانا تھا اس لئے گرفتار ہونے والا ملزم کسی بھی صورت غلط بیانی کے ذریعے قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکے گا۔ فنگر پرنٹ کے ذریعے نہ صرف ملزم کی شناخت ممکن ہوسکے گی بلکہ اس کا تمام ریکارڈ ،نام، پتہ، تصویر اور جتنے مقدمات میں وہ پولیس کو مطلوب ہے وہ سب معلوم ہوسکے گا۔ یہ سسٹم مکمل طور پر کراچی میں کام کررہا ہے اور اس سسٹم کو متعارف کرانے والے آئی جی سندھ، اے ڈی خواجہ کا تبادلہ کردیا گیا تھا۔
اس وقت اس سسٹم کی ڈیوائس تمام تھانوں میں پہنچا دی گئی تھی لیکن اب اکثریتی تھانوں میں ڈیوائس تک موجود نہیں ہے۔ اس جدید سسٹم کے ذریعے نہ صرف پولیس کو بہت زیادہ فائدہ ہوتا کیونکہ جرائم پیشہ عناصر اب پولیس کے شکنجے سے نہ بچ پاتے۔ سکھر سمیت سندھ کے دیگر اضلاع میں یہ سسٹم ایس ایس پی آفس اور جیلوں میں لگا ہوا ہے لیکن تھانوں میں سامان ہونے کے باوجود اس سسٹم کے غیر فعال ہونے پر حکومت سندھ کو بھی نوٹس لینا ہوگا۔
ایک سینئر ترین پولیس افسر کے مطابق اس سسٹم کی سب سے زیادہ ضرورت اور افادیت سندھ ، پنجاب، اور بلوچستان کے سرحدی اضلاع کشمور، گھوٹکی، جیکب آباد اور قمبر شہدادکوٹ کوٹ سمیت سندھ کے داخلی اور خارجی راستوں پر قائم پولیس چیک پوسٹوں کو ہے تاکہ مشتبہ افراد کا فوری طور پر ڈیوائس کے ذریعے پتہ لگایا جاسکے۔
ان علاقوں میں یہ نظام قعال ہونے کے بعد بڑی حد تک جرائم پیشہ عناصر ، سندھ میں یا سندھ سے کسی دوسرے صوبے میں داخلے یا فرار کو روکا جاسکتا ہے۔ یہ ڈیوائس موبائل فون کی ڈیوائس کی طرح ہوتی ہے کسی بھی تھانے کی حدود میں اگر پولیس کسی علاقے میں یا چوراہے پر اچانک ناکہ بندی کرکے مشتبہ افراد کی تلاشی اور جانچ پڑتال کرتی ہے تو بڑی تعداد میں جرائم پیشہ لوگ غلط بیانی کرکے پولیس کو چکما دے کر چلے جاتے ہیں کیونکہ پولیس کو کسی بھی مشتبہ شخص کی معلومات کے لئے ایس ایس پی آفس میں قائم سی آر او سینٹر آنا پڑتا ہے جو مشتبہ شخص اور پولیس دونوں کے لئے مشکلات کا باعث ہوتا ہے خاص طور اگر کوئی شخص بے گناہ ہو اور پولیس کی نظر میں مشتبہ ہو تو اس شخص کے ساتھ بڑی زیادتی ہے۔
اگر یہ چھوٹی سی ڈیوائس چیکنگ کرنے والے پولیس افسر اور اہلکاروں کے پاس موجود ہو تو اسی وقت چند منٹوں میں اس مشتبہ شخص یا جرائم پیشہ عناصر کو چیک کرکے بروقت کاروائی ہوسکتی ہے۔ پھر بھی شہر کے تھانے والوں کو کم اور دور دراز کے تھانے کے عملے کو بہت زیادہ مسائل پیش آتے ہیں اور خاص بات یہ ہے کہ تمام اضلاع میں ایس ایس پی آفس صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک کھلے ہوتے ہیں ہفتہ اتوار دو دن چھٹی بھی ہوتی ہے اس لئے دفتر بند ہونے کی صورت میں بھی پولیس مشکلات میں گھری رہتی ہے۔
اس نظام کا مقصد ٹیکنالوجی کے اس دور میں ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی کو یقینی بنانا اور جرائم پیشہ لوگوں کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کرنا ہے تاکہ کوئی ملزم یا مجرم پکڑا جائے تو اس کابائیو میٹرک سسٹم کے ذریعے کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ بنالیا جائے تاکہ جب کبھی بھی وہ جرائم پیشہ شخص کسی بھی علاقے میں دوبارہ کوئی واردات انجام دے تو اس کی فوری طور پر سابقہ ریکارڈ سے ویریفکیشن ہوسکے۔ پولیس ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ مختلف اضلاع کے پولیس افسران نے آئی جی سندھ اور متعلقہ شعبہ کے انچارج کو متعدد خطوط لکھے ہیں کہ سی آر آئی سسٹم کو شروع کیا جائے لیکن اب تک اس پر کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی۔
تمام اضلاع میں سی آر او دفاتر قائم ہونے کے بعد جرائم پیشہ عناصر کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں پولیس کو بہت زیادہ مدد ملی ہے۔کوئی بھی ملزم کسی واردات میں پکڑا جائے یا کسی مشتبہ شخص کو پولیس حراست میں لے تو سی آر او آفس میں لاکر اس کا بائیو میٹرک سسٹم کے ذریعے چیک کیا جاتا ہے اور چند ہی منٹوں میں اگر وہ شخص جرائم پیشہ یا کسی جرم میں ملوث ہو تو اس کا ریکارڈ سامنے آجاتا ہے، پولیس نے اس سسٹم کے ذریعے روپوش اور اشتہاری ملزمان کی تمام اضلاع میں ماضی کے مقابلے میں ان چار سالوں کے دوران ریکارڈ گرفتاریاں کی ہیں، شہری عوامی اور تجارتی حلقوں کا وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ اور آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر سے یہ مطالبہ ہے جب چار سال سے (سی آر آئی) سسٹم کی ڈیوائس اور دیگر اشیاء موجود ہیں تو پھر سندھ کے اکثریتی اضلاع میں تھانوں تک یہ نظام کیوں موثر نہیں بنایا گیا۔
اس لئے ضرورت امر کی ہے کہ تمام اضلاع میں اس سسٹم کو تھانوں میں شروع کیا جائے، اور پہلے مرحلے میں خاص طور پر جو اضلاع دوسرے صوبوں سے منسلک ہیں جن میں کشمور، گھوٹکی، جیکب آباد، قمبر شہداد کوٹ سمیت سندھ کے تمام داخلی اور خارجی پولیس چیک پوسٹوں پر اس نظام کو فعال بنایا جائے حیرت کی بات ہے کہ جہاں اس نظام کے تحت امن و امان کی فضاء مکمل طور پر پر بحال رہے گی وہیں اس کا بہت زیادہ فائدہ پولیس فورس کو ہوگا اس لئے حکومت ہنگامی بنیادوں پر اس اہم مسئلے کو حل کرے۔