• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

این اے 75 ڈسکہ میں دو ہیوی ویٹس کی لڑائی ہے،جسٹس بندیال




سپریم کورٹ میں این اے 75 ڈسکہ میں دوبارہ انتخابات کیخلاف کیس کی سماعت میں جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ این اے 75 میں دو ہیوی ویٹس کی لڑائی ہے، دونوں ہیوی ویٹس انا کے ساتھ لڑ رہے ہیں، لڑائی بڑوں کی ہے اور بھگت عوام رہے ہیں، عوام کو ہیوی ویٹس کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔

سپریم کورٹ میں این اے 75 ڈسکہ میں دوبارہ انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میںجسٹس منیب اختر اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کی۔

الیکشن کمیشن نے ڈسکہ میں دوبارہ پولنگ کیلئے مختص بجٹ کی تفصیلات اور 23 اور 25 فروری کی سماعت کا ریکارڈ جمع کرایا، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کوبتایا کہ ڈسکہ میں دوبارہ پولنگ کے لیے ایک کروڑ 91 لاکھ 78 ہزار کا بجٹ مختص کیا گیا ہے، ڈسکہ میں دوبارہ پولنگ کے لیے مختص بجٹ 25 فروری کو جاری کیا گیا ہے۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے کیس میں کہا کہ ویڈیو لنک پر نوشین افتخار کے وکیل سلمان اکرم راجا کو سنیں گے، مگر ویڈیو لنک ابھی موجود نہیں ہے تو ہم علی اسجد ملہی کے وکیل شہزاد شوکت کو سن لیتے ہیں۔

تحریک انصاف کے امیدوار علی اسجد ملہی کے وکیل شہزاد شوکت نے سپریم کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ ضمنی انتخابات میں ہمیشہ ٹرن آؤٹ کم رہتا ہے، ضمنی الیکشن میں کم ٹرن آؤٹ معمول کی بات ہے۔

وکیل علی اسجد ملہی نے کہاکہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ سے ٹرن آؤٹ کی تفصیلات لیں، اس پر عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو اعداد و شمار کی تصدیق کی ہدایت کردی۔

وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ ڈسکہ ضمنی الیکشن میں ٹرن آؤٹ 46 فیصد رہا، جبکہ عام انتخابات میں ٹرن آؤٹ 42 فیصد رہا۔

شہزاد شوکت کاکہنا تھا کہ کم ٹرن آؤٹ پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کی وجہ نہیں ہوسکتا، حلقے میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال بھی خراب تھی، ہر الیکشن میں ایسے واقعات ہوتے ہیں اس پر پورا الیکشن کالعدم قرار نہیں دیا جاسکتا۔

وکیل پی ٹی آئی نے سماعت میں کہا کہ آئی جی کی رپورٹ میں لکھا ہےنون لیگ کے ورکرز نے امن عامہ کے مسائل پیدا کیے،4 پولنگ اسٹیشنز پر تصادم کے وقت رینجرز موجود تھی، جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ رپورٹ کے مطابق نامعلوم افراد نے فائرنگ کی۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے کہاکہ دیکھنا ہے کیا ایسا مواد ہے جس پر پورے حلقہ میں ری پول ہو، اس موقع پر مسلم لیگ نون کی امیدوار نوشین افتخار کے وکیل سلمان اکرم راجا بھی عدالت میں آگئے اور اپنے دلائل شروع کرتے ہوئے کہاکہ یہ عام کیس نہیں، منظم دھاندلی سے متعلق کیس ہے، انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم نہیں کی گئی، الیکشن کمیشن نے خود منظم دھاندلی کو تسلیم کیا ہے۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے دھاندلی کے باعث فیصلہ بھی دیا، پریذائیڈنگ افسران اور انتخابی مواد غائب ہوا، حیرت تو یہ ہے انتخابی مواد اورعملہ پولیس کے تحفظ میں تھا۔

انہو ں نے عدالت میں بتایا کہ الیکشن کمیشن نے اپنے عملے سے رابطے کی متعدد کوششیں کی، کمیشن کی جانب سے انتظامیہ سے رابطوں کی کوششیں بھی ناکام ہوئیں، حیرت ہے موبائل فونزکیساتھ پولیس وائرلیس بھی اس وقت کام نہیں کررہے تھے۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا غائب ہونے والے پریذائیڈنگ افسران پولیس اسکواڈ میں تھے؟ اس پر سلمان اکرم راجا نے کہاکہ جی ہاں عملے کی گاڑی کے ہمراہ پولیس کی گاڑیاں بھی موجود تھیں، غائب عملہ اور سامان ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ سے سامنے آئے۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے پوچھا کہ جب ڈسکہ ضمنی انتخاب میں ایک فریق مضبوط ہے تو وہ جھگڑا کیوں کرے گا، وکیل پی ٹی آئی نے کہاکہ پولنگ کے دوران جھگڑے اور پرتشدد واقعات منصوبہ بندی کے تحت نہیں ہوئے، جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا پرتشدد واقعات کی منصوبہ بندی کا الیکشن کمیشن رپورٹ میں کوئی ذکر نہیں ہے۔

وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ انتخابات میں روایتی طور پر خواتین کا ٹرن آؤٹ کم ہوتا ہے، جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ یہ معاملہ ٹرن آؤٹ کی کمی کا نہیں ہے، پولنگ کا عمل رکنے کے واقعات ہوئے۔

وکیل شہزاد شوکت بولے کہ الیکشن کمیشن میں ضمنی انتخاب کے دوران واقعات کی ویڈیوز چلائی گئیں، الیکشن کمیشن نے یہ تک نہیں پوچھا ویڈیوز کس نے بنائیں؟ کب بنیں؟ جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ جب الیکشن کمیشن میں ویڈیوز چلائی گئیں تو آپ نے اعتراض اٹھایا؟ وکیل پی ٹی آئی بولے ہوسکتا ہے علی ظفر نے اعتراض اٹھایا ہو۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ میں آپ سے ایک آسان سوال پوچھ رہا ہوں، جب الیکشن کمیشن میں ویڈیوز چلائی گئیں تب آپ نے اعتراض اٹھایا یا نہیں؟ وکیل پی ٹی آئی بولے میں اپنے موکل سے پوچھ کر بتاؤں گا کہ اعتراض اٹھایا یا نہیں ۔

جسٹس منیب اختر نے نون لیگ کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ نے پہلے23 پولنگ اسٹیشن پھر پورے حلقے میں ری پول کا مطالبہ کیا، پورے حلقے میں ری پولنگ کی درخواست کدھر ہے، سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ ری پولنگ کی درخواست الیکشن کمیشن میں دی گئی۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ری پول کی درخواست 23 فروری کو دی گئی، پولنگ اسٹیشنز پر فائرنگ کے واقعات نوشین افتخارکے علم میں تھے؟سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ ہمارا فوکس یہ ہے کہ ضمنی الیکشن میں سوچی سمجھی سازش سے سب کچھ کیا گیا، انتظامیہ نے شفاف انتخابات کے راستے میں رکاوٹ پیدا کی، الیکشن کمیشن کی ہدایت کے باوجود پولیس افسر ذوالفقار ورک کو سیکیورٹی ذمہ داری دی گئی۔

سلمان اکرم راجا نے دلائل میں کہا کہ ویڈیو پر دوسری جانب کے وکلا نے اعتراض نہیں اٹھایا، ڈی ایس پی ذوالفقار ورک کو ڈیوٹی سے ہٹاکر دوبارہ لگا دیا گیا، ذوالفقار ورک کو پنجاب پولیس نے ذوالفقارعلی بناکر سیکیورٹی انچارج بنا دیا۔

وکیل نون لیگ نے بتایا کہ این اے 75 کے 5 سرکل تھے، جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ ذوالفقار ورک 2 تھانوں کے انچارج تھے، اس پر سلمان اکرم نے آگاہ کیا کہ پولنگ کے دن ذوالفقار ورک پورے حلقے کی سیکیورٹی کی ذمہ داری انجام دیتے رہے۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ ذوالفقار ورک پورے حلقے کے سیکیورٹی انچارج نہیں تھے، الیکشن کمیشن حکام نے بتایا کہ ذوالفقار ورک پورے حلقہ کے سیکیورٹی انچارج نہیں تھے۔

سلمان اکرم راجانے کہا کہ الیکشن کے دن نوشین افتخار انتظامی رویے کے خلاف احتجاج کرتی رہیں، اب الیکشن والے دن وکیل تو ساتھ نہیں ہوسکتا جوموقع پر درخواستیں بناکر دے۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے بڑے اہم شواہد پر انحصار کیا، ہمیں اس طرف نا لےکر جائیں جہاں عدالت شک وشبہ پر انحصار کرے، الیکشن کمیشن نے23 پولنگ اسٹیشنز کا نوٹس جاری کیا، اس نے پورے حلقے میں ری پولنگ کا حکم دے دیا، نوشین افتخارکے بیان حلفی کی تردید کا دوسرے فریق کے پاس وقت نہیں تھا۔

سپریم کورٹ نے سلمان اکرم راجا کو تیاری کے ساتھ آنے کی ہدایت کی، جسٹس عمرعطا بندیال نے سلمان اکرم راجا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ

مہربانی کریں ہمیں حقائق بتائیں۔

جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ راجا صاحب آپ کو کورونا انفیکشن بھی ہے، اگر تیاری نہیں ہے تو وقت لے لیں، کیا کورونا کی وجہ سے جسم میں درد محسوس کررہے ہیں؟ مہربانی کریں حقائق پر مبنی مواد پیش کریں۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میں کورٹ روم میں نہ ہونے کی وجہ سے اپنی بات نہیں پہنچا پا رہا، جسٹس بندیال نے کہا کہ آپ آگے بڑھیں سوالات سمجھیں، سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ یہ ممکن نہیں ہے۔

جسٹس منیب اخترنے لیگی وکیل سلمان راجا کی ایس ڈی پی او ذوالفقار ورک کے معاملے پردرستگی کراتے ہوئے کہا کہ ذوالفقار ورک پورے حلقے کے نہیں صرف 2 پولیس اسٹیشنز کے انچارج تھے، سلمان اکرم راجا پورے حلقے کا انچارج بتاتے رہے۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ ایک ایس ڈی پی او کا کیا اختیار ہوتا ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ ایس ڈی پی او چند پولیس اسٹیشنز کا انچارج ہوتا ہے، جسٹس منیب نے پھر پوچھا کہ ذوالفقار ورک کتنے تھانوں کا انچارج تھا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ ذوالفقار ورک صرف 2 تھانوں کا انچارج تھا۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ حکومت پنجاب مقدمہ میں فریق نہیں ہے، حکومت پنجاب پر سنجیدہ الزامات لگائے گئے ہیں، کیا عدالت کی معاملے میں معاونت کرنے کی اجازت ہے؟

جسٹس عمرعطا بندیال نے جواب میں کہاکہ جو کہنا ہے تحریری طور پر لکھ کر دیں۔

واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے اسجد ملہی نے این اے 75 ڈسکہ میں دوبارہ انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف عدالت سے رجوع کیا ہوا ہے۔

تازہ ترین