• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج پچیس مارچ کومیں پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ شکرپڑیاں میں موجود ہوں جہاں یومِ پاکستان کی مناسبت سے پاکستان ڈے پریڈ کا انعقاد نہایت شایان شان طریقے سے کیا جارہا ہے، ہر سال کی طرح اس موقع پر صدر پاکستان ، وزیراعظم، افواج پاکستان کے سربراہان سمیت غیرملکی سفارتکار، پارلیمانی نمائندگان اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کی نمایاں شخصیات بھی مدعو ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ فوجی پریڈ کا انعقاد ملکی آزادی ، خودمختار ی اور جذبہ حب الوطنی کا عکاس ہے، عالمی سطح پر دنیا کے مختلف ممالک بشمول برطانیہ، فرانس اور چین اپنے قومی ایام کی مناسبت سے فوجی پریڈ کا انعقاد کرتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے دورہ فرانس کے دوران فوجی پریڈ سے اتنے زیادہ متاثر ہوئے تھے کہ امریکہ میں بھی یہ روایت قائم کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ پاکستان ڈے پریڈکے ذریعے یہ پیغام دیاجارہاہے کہ جس طرح ہمارے بڑوں نے اکاسی برس قبل 23مارچ1940ء کو آزاد وطن کے حصول کا فیصلہ کرتے ہوئے قیام پاکستان کو ممکن بنایا تھا، آج ہماری سیاسی اور عسکری قیادت متحد ہوکر ملک کے چپے چپے کا دفاع کرنے کیلئے چوکس ہے، دوست ممالک کے فوجی دستوںکی بھرپور شرکت نے ثابت کردیا ہے کہ پاکستان عالمی محاذ پر تنہائی کا شکار نہیں، اسی طرح ملک دشمن عناصر کو واضح کردیا گیا ہے کہ پاکستان کی جانب میلی نگاہ سے دیکھنے والوں کی کمر توڑ دی جائے گی۔پاکستان ڈے کے موقع پر ایک بہت بڑی بریکنگ نیوز بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی جانب سے اپنے پاکستانی ہم منصب عمران خان کو خیرسگالی خط کی صورت میں منظرعام پر آئی ہے، بھارتی پردھان منتری نے اپنے خط میں وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے پاکستانی عوام کو یومِ پاکستان کی مبارکباد پیش کی ہے، مودی کا کہنا ہے کہ بھارت ایک پڑوسی ملک کے طور پر پاکستانی عوام کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا خواہاں ہے ، انہوں نے اپنے خط میں عالمی وباء کورونا کے تناظر میں عمران خان اور پاکستان میں بسنے والوں کواس سنگین چیلنج کا مقابلہ کرنے کیلئے حوصلہ بھی دیا، چند دن قبل بھارتی پردھان منتری نریندرامودی وزیراعظم عمران خان کی کورونا سے صحتیابی کیلئے اپنی ٹویٹ میں نیک تمناؤں کا اظہار بھی کرچکے ہیں۔جنوبی ایشیا کے دونوں اہم ممالک گزشتہ ایک عرصے سے ہر محاذ پر مدمقابل ہیں اور اعتماد کا فقدان دونوں ممالک کے چند شدت پسند عناصر کو تقویت بخش رہا ہے، تاہم میں سمجھتا ہوں کہ حالیہ عرصے میں کچھ ایسے مثبت واقعات رونماء ہوئے ہیں جن سے ایک مرتبہ پھر خطے میں امن و استحکام کی امید پیداہوئی ہے۔گزشتہ ماہ پاکستان اور بھارت کی عسکری قیادت نے اپنے مشترکہ بیان میں لائن آف کنٹرول پر مکمل سیزفائرپر اتفاق کیاتھا، اس حیران کُن پیش رفت نے خطے میں امن کی راہ جس بہترین انداز میں ہموار کی،اس کی ایک مثال وزیراعظم عمران خان کا حالیہ دورہ سری لنکا ہے۔ دونوں ممالک نے اپنی فضائی حدود کے استعمال پر پابندیاں عائد کی ہوئی تھیں، تاہم عمران خان نے سری لنکا کے دورے کیلئے بھارتی فضائی حدود کا استعمال کیا ۔اسی طرح پاکستان ڈے سے چندروز قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا نیشنل سیکورٹی ڈائیلاگ کی تقریب کے موقع پرکلیدی خطاب ہر لحاظ سے تاریخی قرار دیاجارہا ہے جس کی بازگشت قومی اور عالمی میڈیا پر سنی گئی۔آرمی چیف جنرل باجوہ کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان حل طلب دیرینہ مسائل پورے خطے کو غربت میں دھکیل رہے ہیں، وقت آ گیا ہے کہ ماضی کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھا جائے۔جنرل باجوہ نے پاکستان کو عالمی برادری کا ایک اہم ذمہ دار ملک قرار دیتے ہوئے جیو اکنامک وژن کے چار اہم ستون بھی بیان کئے۔ اول، اندرونی اور بیرونی سطح پر دیرپا امن کیلئے کوششیں۔ دوئم، ہمسایہ اور علاقائی ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہنا۔ سوئم، علاقائی تجارت اور روابط کو فروغ دینے کیلئے کوششوں کو تیز کرنا۔ چہارم، پائیدار ترقی و خوشحالی کے حصول کیلئے خطے بھر میں سرمایہ کاری اور معاشی مراکز کا قیام۔پاکستان کی جانب سے قیام امن کا عزم عالمی برادری کو بھی متحرک کرنے کا باعث بنا ہے، امریکی موقر جریدے بلوم برگ نے اپنی تازہ رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو قریب لانے کیلئے متحدہ عرب امارات نے مصالحتی کردار ادا کیاہے، جریدے کے مطابق اماراتی وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زید نے دورہ نئی دہلی کے موقع پر اپنے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر سے بند کمرے میں ملاقات کے دوران انہیں خطے میں پاکستان کی اہمیت کے حوالے سے قائل کیا۔عرب نیوز کے مطابق سعودی عرب کے نائب وزیر خارجہ عادل الجبیر نے چند دن قبل اعتراف کیا تھا کہ سعودی عرب پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ میری معلومات کے مطابق پاکستان اور بھارت اعتماد کی بحالی کیلئے پہلے مرحلے میں اپنے سفارتی عملے کونئی دہلی اور اسلام آباد میں متعین کریں گے، اگلے مرحلے میں دوطرفہ تجارت اور کشمیر کے مسئلے کے دیرپا حل پر ڈائیلاگ کا آغاز کیا جائے گا۔ دو برس قبل میں نے اپنے دورہ بھارت کے دوران امن و محبت کا پیغام عام کرنے کی کوشش کی تھی تو مجھے بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا، تاہم میں پہلے بھی قیام امن کیلئے مایوس نہ تھا اور آج بھی دونوں ممالک کو قریب لانے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کیلئے پرعزم ہوں۔ نریندرامودی کے خیرسگالی خط پرتبصرے کیلئے میں نے ٹوئٹر کا سہارا لیاہے کہ امن کا قیام پاکستان اور بھارت کے عوام کے بہترین مفاد ہے، امن کی شمع کو کسی صورت بجھنا نہیں چاہئے،سرحد کے آرپار دونوں ممالک میں بسنے والے امن پسند حلقوں کو آگے بڑھ کر پاک بھارت امن کی کوششوں کو کامیاب بنانا چاہئے۔کاش، اگلے سال پاکستان ڈے پریڈکے موقع پر بھارتی پردھان منتری نریندرا مودی بھی پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عظیم قربانیوں کا اعتراف کرنے کیلئے یہاں موجود ہوں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین