• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دہشت گردی اور کرپشن کے مابین تعلق کے بارے میں ’’ نادر انکشاف ‘‘ کے بعد ’’ پاناما لیکس ‘‘ بھی سامنے آ چکی ہیں ۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سیاست دان بہت زیادہ سیاسی اور اخلاقی دباؤ میں ہیں ۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ایسی صورت حال کبھی پیدا نہیں ہوئی ۔ اس صورت حال کا منطقی نتیجہ کیا نکلے گا اور کیا جمہوریت کو بچایا جا سکے گا ؟ یہ وہ سوالات ہیں ، جو آج پاکستان کے لوگ ایک دوسرے سے کر رہے ہیں ۔ مملکتِ خداداد میں احتساب کے نام پرماضی میں کئی سیاست دانوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنی عزت اور اپنی جان بچانے کے لیے سیاست چھوڑ دیں یا جیل کی سلاخوں کے پیچھے زندگی گذاریں ۔ 1947 سے 1970 کے عشرے تک سیاست دانوں کو ’’ پروڈا ‘‘ اور ’’ ایبڈو ‘‘ جیسے احتسابی قوانین کے شکنجے میں جکڑے رکھا گیا اور انہیں سیاست نہیں کرنے دی گئی ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست کی تو انہیں تختہ دار تک پہنچادیا گیا لیکن سیاست دانوں پر کرپشن کا کوئی الزام ثابت نہیں کیا جا سکا کیونکہ یہ وہ سیاست دان تھے جنہوں نے اپنا سب کچھ تحریک پاکستان اور بعد ازاں پاکستان میں جمہوریت کے لیے قربان کر دیا تھا ۔ احتساب کے سخت شکنجے کے باوجود آج کے سیاست دانوں کی طرح ماضی کے سیاست دانوں کی سیاسی اور اخلاقی پوزیشن کمزور نہیں تھی۔ ان کا احتساب کرنے والے محتسب ہی تاریخ میں مجرم ٹھہرے ۔ اسی طرح گذشتہ 69 سالوں میں زیادہ تر سیاسی حکومتوں پربھی بدعنوانی کا الزام لگا کر یا تو انہیں برطرف کیا گیا یا ان کا تختہ الٹاگیا ۔ ان سیاسی حکومتوں کا تختہ الٹنے اور انہیں برطرف کرنے والوں پر بھی تاریخ نے استغاثہ دائر کیا ہوا ہے لیکن آج پہلی مرتبہ سیاست دان اور سیاسی حکومتیں دفاعی پوزیشن پر ہیں ۔ کرپشن کی کہانی بہت پرانی ہے اور احتساب کا قصہ بھی صدیوں پہلے سے چل رہا ہے ۔ 15 ویں صدی کے شروع میں روم جانے والے ایک جرمن ایلچی نے اپنے بادشاہ کو ایک خط بھیجا ، جس میں لکھا ہوا تھا ’’ روم کے دربار میں حرص و ہوس کا غلبہ ہے اور روزبروز اس کے لیے نئے ہتھیار ایجاد ہو رہے ہیں ۔ ‘‘ کیتھولک مورخ لڈوگ واں پاستور نے ایک مرتبہ لکھا کہ ’’ کیوریا کے تقریباً تمام حکام پر ایک گہری جڑوں والی بدعنوانی نے غلبہ پا لیا ہے ۔ ‘‘ اس بدعنوانی کے تدارک ، احتساب اور اصلاح کے لیے مغربی جرمنی کے علاقے کانسٹینس میں کلیسا کی مجلس مقدس کا انعقاد ہوا اور مجلس نے6 اپریل1415ء کو ایک تاریخی فرمان جاری کیا ۔ تاریخ میں بدعنوانی بھی جاری رہی اور احتساب بھی جاری رہا لیکن پاکستان کا معاملہ دنیا سے مختلف ہے ۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی سے 11 اگست 1947 کو اپنے تاریخ ساز خطاب میں فرمایا تھا کہ ’’ انڈیا ایک بہت بڑی لعنت سے دوچار ہے ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ دوسرے ممالک اس سے آزاد ہیں لیکن ہماری حالت بہت زیادہ خراب ہے ۔ یہ لعنت رشوت اور بدعنوانی کی صورت میں ہے ۔ یہ حقیقتاً ایک زہر ہے ۔ ہمیں اس کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نمٹنا ہو گا ۔ ‘‘ بدعنوانی کا زہر اس وقت پاکستانی معاشرے کے رگ و پے میں سرائیت کر چکا ہے کیونکہ قائد اعظم کی رحلت کے بعد احتساب کا ہتھیار صرف سیاسی اور جمہوری عمل کو روکنے اور سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیے استعمال کیا گیا ۔ اس احتساب کے باوجود 1970 ء کے عشرے تک سیاست دان اخلاقی اور سیاسی طور پر بہت مضبوط تھے ۔ 1980کے عشرے میں پاکستان کے حالات پلٹا کھاتے ہیں ۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جنرل ضیاء الحق نے نئی سیاسی قیادت پیدا کرنے کی غرض سے ’’ سیاست کے لیے کرپشن اور کرپشن کے لیے سیاست ‘‘ کا نظام رائج کیا ۔ پاکستان کو عالمی طاقتوں کے مفادات کی جنگ میں جھونک کر دولت بنانے کے نئے راستے کھول دیئے گئے ۔ ’’ جہاد ‘‘ اور بعد ازاں دہشت گردی کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات میں بے شمار لوگوں نے دولت کمائی ۔ اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا ، جو آج ہمارے سامنے ہے ۔ ضیاء الحق کے دور میں اور ما بعدپاکستان میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ارب پتی پیدا ہو گئے ، جن میں سیاسی لوگ بھی شامل ہیں اور غیر سیاسی لوگ بھی شامل ہیں۔ ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب کرپشن نہ کرنے والے سیاست دان بھی یہ کہنے لگے کہ مقابلہ سیاست کا نہیں بلکہ پیسے کا ہے ۔سیاست کو اس منزل تک لانے کا ذمہ دار احتساب کا وہ غیر مرئی نظام تھا ، جو اب تک سیاست دانوں کے احتساب کا کوئی اخلاقی جواز نہیں رکھتا تھا ۔ اس وقت صرف سیاست دانوں کے اربوں اور کھربوں کے اثاثے سامنے آ نے کا معاملہ زیر بحث ہے۔کارکن مخمصے میں ہیں کہ وہ اپنے کھرپ پتی لیڈرز کا دفاع کیونکر کریں ۔ سیاست دانوں کے اثاثوں اور جائیدادوں کے ناجائز یا جائز ہونے کا فیصلہ ابھی باقی ہے لیکن اس قدر دولت مند سیاست دانوں کے ساتھ کارکنوں اور عوام کا اپنائیت کا رشتہ اب زیادہ دیر قائم رہنا مشکل نظر آتا ہے ۔ سیاست دانوں کے جو اثاثے پاناما لیکس یا کسی بھی وجہ سے سامنے آئے ہیں ، وہ کل اثاثے نہیں ہوں گے۔ اتنے اثاثے توپاکستان میں پولیس کے ایک ایس ایچ او یا محکمہ ریونیو کے ایک مختار کار کے پاس بھی ہوتے ہیں ۔ سیاست دانوں کے اثاثے اس سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ ان کا کھرب پتی ہونا ہی ، ان کی سیاسی اور اخلاقی کمزوری بن گیا ہے ۔ یہ مرحلہ پاکستان کی سیاست پر پہلے کبھی نہیں آیا تھا ۔ دہشت گردی اور کرپشن کے مابین تعلق کے بارے میں ’’ نادر انکشاف ‘‘ کے ساتھ ساتھ پاناما لیکس نے بھی سیاست دانوں کو سیاسی اور اخلاقی طور پر مزید کمزور کر دیا ہے ۔ جو سیاست دان احتساب کا نعرہ لگا رہے ہیں وہ بھی اپنی سیاست پر اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں ۔اس طرح سیاست دانوں اور سیاسی حکومتوں کے ’’ احتساب ‘‘ کا پہلی مرتبہ لیکن وقتی طور پر ایک مضبوط اخلاقی جواز پیدا ہو گیا ہے یا کر دیا گیا ہے ۔ غیر سیاسی لوگوں کے پاس بھی دولت کے انبار لگے ہوئے ہیں لیکن اس وقت ارب اور کھرب پتی سیاست دانوں کی وجہ سے جمہوریت کے لیے واقعی خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے۔ ’’احتساب کی ضرورت ‘‘کے ساتھ دیگر کئی ملکی اور بین الاقوامی عوامل بھی جڑے ہوئے ہیں ۔ بہت کم لوگوں کو اس بات کا ادراک ہے کہ اس مرتبہ صرف جمہوریت ہی نہیں ختم ہو گی بلکہ پاکستان کے عوام کے ہاتھوں سے وہ سب کچھ جائے گا ، جو اب تک جمہوری جدوجہد کے ذریعہ حاصل کیا گیا ہے ۔ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی تو اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ کچھ قوتیں آئین کی 18 ویں ترمیم کو رول بیک کرنا چاہتی ہیں ۔ بات اس سے آگے بھی جا سکتی ہے ۔ کھلم کھلا پاکستان میں صدارتی نظام نافذ کرنے اور پاکستان کو ایک وفاقی ریاست کی بجائے واحدانی ریاست بنانے کی آوازیں بھی آ رہی ہیں ۔ اس ایجنڈے پر عمل کرنے والوں کے لیے یہ بہترین موقع ہے ۔ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔ ان کے صاحبزادوں کے نام پاناما لیکس میں آنے کی وجہ سے ان کی حکومت پر بہت بڑا دباؤ ہے ۔ انہیں ایسی حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے کہ تصادم کی صورت حال پیدا نہ ہو ۔ دولت اور جمہوریت کا دفاع ایک ساتھ نہیں ہو سکتا ہے ۔اس کے لیے انہیں وہی راستہ اختیار کرنا پڑے گا ، جو پیپلز پارٹی کی قیادت نے اختیار کیا ہے ۔ جب مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو پیپلز پارٹی کی قیادت نے فوج اور عدلیہ کے ساتھ تصادم کا راستہ اختیار نہیں کیا ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے جنرل کیانی کو مدت ملازمت میں توسیع بھی دی ۔ اس وقت سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور پیپلز پارٹی کے وزراء اور ارکان اسمبلی خود ساختہ جلا وطنی اختیار کیے ہوئے ہیں ۔ اس کے باوجود پیپلز پارٹی تصادم سے گریز کر رہی ہے ۔ اس حکمت عملی کے ساتھ ساتھ سیاست دانوں کو اپنے تمام اثاثے ظاہر کرکے ان کا قانونی جواز بھی فراہم کرنا ہو گا اور آئندہ کے لیے احتساب کا ایسا مضبوط نظام بنانا ہو گا کہ لو گ احتساب کے لیے غیر سیاسی قوتوں کی طرف نہ دیکھیں ۔ جمہوری نظام کو 2018 کے عام انتخابات اور پرامن جمہوری انتقال اقتدار تک لے جانا ضروری ہے ۔عوام کے لیے جمہوریت کو بچانا ضروری ہے۔ دولت سیاست دانوں نے کمائی ہے، غریب عوام نے کوئی قصور نہیں کیا ہے۔
تازہ ترین