• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رکھ دیا توڑ کر شبِ ظلمت کا غرور:

مکّۃ المکرّمہ سے 330کلو میٹر دُور، وادیٔ بدر کے سنگلاخ میدان میں کفّار کے70 سرداروں اور جنگ جُوئوں کی لاشیں بکھری پڑی ہیں۔ اُن میں رئیسِ مکّہ اور دشمنِ اسلام ابو جہل بھی ہے، جس کی سربریدہ لاش دنیا کے متکبّر اور ظالم و جابر لوگوں کو دعوت دے رہی ہے کہ’’دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، رسول اللہ ﷺ کے خیمے میں داخل ہوئے اور اُس کا سَر آنحضرتﷺ کے قدموں میں رکھتے ہوئے عرض کیا’’یا رسول اللہﷺ! یہ رہا اللہ اور اُس کے رسولؐ کے دشمن ابو جہل کا سَر۔‘‘

نبی کریمﷺ نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد ارشاد فرمایا’’یہ اِس اُمّت کا فرعون تھا۔‘‘ پھر صحابۂ کرامؓ کی جانب متلاشی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے فرمایا ’’عمّارؓ کہاں ہیں؟ اُسے بلائو۔‘‘حضرت عمّارؓ خدمتِ اقدسؐ میں حاضر ہوئے، تو اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا ’’اے عمّارؓ! یہ ہے تمہاری ماں کا قاتل، جسے اللہ نے قتل کر دیا۔‘‘ حضرت عمّارؓ نے ابو جہل کے مکروہ سَر کی جانب دیکھا، تو ماں کی شہادت کا منظر نگاہوں میں گھوم گیا۔ 

مظلومیت و بے بسی کے درد ناک مناظر ذہن کے پردے پر نمودار ہونا شروع ہوئے۔ ماں کا خون میں تڑپتا ہوا لاشہ، باپ کی مظلومانہ شہادت، بھائی کے پیار سے محرومی، چھوٹے سے خُوب صُورت آشیانے کی تباہی و بربادی اور پھر ابو جہل کے نفرت بھرے قہقہے۔ اللہ نے اپنی برگزیدہ بندی، حضرت سُمیّہؓ کے منہ سے نکلے الفاظ سچ کر دِکھائے اور اسلام کا نام و نشان مِٹانے کی آرزو لیے یہ متکبّر، فرعون نُما سرغنہ دو مسلمان بچّوں کے ہاتھوں جہنّم رسید ہو گیا۔

نام و نسب

اسلام کی اِس عظیم مجاہدہ کا نام، حضرت سُمیّہ بنتِ خباطؓ تھا اور ابو حذیفہ بن مغیرہ بن عبداللہ بن عمرو بن مخزوم کی کنیز تھیں۔ (اصابہ 235/8)۔ ان کا نکاح یمن کے قبیلے، عبس کے ایک نوجوان، یاسر بن عامر قحطانی کے ساتھ ہوا۔حضرت سمیّہؓ کا اسلام قبول کرنے والوں میں ساتواں نمبر تھا، جب کہ اُن کے شوہر بھی’’ سابقون الاوّلون‘‘ میں سے تھے۔ اللہ نے اُنھیں تین بیٹے عطا فرمائے، جن میں سے حضرت عمّار بن یاسرؓ نے بہت شہرت پائی۔وہ مشہور صحابیؓ تھے اور 37ہجری، 657عیسوی میں حضرت علی المرتضیؓ کے دَورِ خلافت میں جنگِ صفین میں 91سال کی عُمر میں شہادت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے۔

صبر و رضا کے پیکر

حضرت سُمیّہؓ کے شوہر، حضرت یاسرؓ یمن کے ایک قبیلے، عبس کے رہنے والے تھے۔ ملکۂ سبا کے دارالحکومت، مآرب کی تباہی کے بعد وہاں کے حالات بہت خراب ہو گئے۔ ایسے میں حضرت یاسرؓ کا ایک جواں سال بھائی خاموشی سے گھر چھوڑ کر کہیں چلا گیا۔والدین کے شدید اصرار پر وہ اپنے دو بھائیوں، حارث اور مالک کے ساتھ بھائی کی کھوج لگاتے ہوئے مکّہ جا پہنچے۔ کافی تلاش و جستجو کے بعد بھی جب کوئی سُراغ نہ ملا، تو ساتھ آنے والے دونوں بھائی تو مایوس ہو کر واپس چلے گئے، لیکن یاسرؓ کو مکّے کی محبّت نے اپنا اسیر بنا لیا۔ وہاں اُن کی ملاقات ابوجہل کے چچا، قبیلہ بنو مخزوم کے سردار، مہشم بن مغیرہ مخزومی سے ہو گئی۔ 

مہشم اپنی کنیت، ابو حذیفہ سے مشہور تھے۔ ابو حذیفہ نے اُنھیں اپنے پاس رکھ لیا۔اُن کے پاس سمیّہ ؓبنتِ خباط نامی ایک کنیز تھیں، جن کی یاسرؓ سے شادی کر دی۔ 571 ء میں حضرت یاسرؓ کے یہاں عمّار کی ولادت ہوئی۔ اسی سال اللہ کے نبیﷺ کی ولادتِ باسعادت ہوئی تھی۔ ابوحذیفہ نے عمّار کی پیدائش کے بعد حضرت سمیّہؓ کو آزاد کر دیا تھا، لیکن یہ خاندان آخر تک ابوحذیفہ کے ساتھ ہی مقیم رہا۔ رسول اللہﷺ کی بعثت سے پہلے ابو حذیفہ کا انتقال ہوا، تو قبیلہ بنو مخزوم کی سربراہی ،عمرو بن ہشام (ابوجہل) کے پاس آگئی۔ ابوجہل اپنے چچا، ابوحذیفہ کے بالکل برعکس تھا۔ اُس نے یاسرؓ اور سمیّہؓ کو زبردستی اپنی غلامی میں لے لیا، حالاں کہ ابو حذیفہ اُنہیں بہت پہلے ہی آزاد کر چُکا تھا۔

قبولِ اسلام میں سبقت

یہ آنحضرتﷺ کی جوانی کا دَور تھا۔ اہلِ مکّہ آپﷺ پر اپنی محبّتیں نچھاور کرتے اور صادق و امین کے نام سے یاد کرتے تھے۔آپﷺ 40 برس کے ہوئے، تو اللہ تعالیٰ نے اعلانِ نبوّت کا حکم دیا۔ اسلام کے سورج کی روشن کرنیں غارِ حرا سے نکل کر دنیا کو منوّر کرنے کے لیے بے تاب تھیں۔ آپﷺ کے چند بہت ہی قریبی احباب اسلام قبول کر چُکے تھے، جن میں حضرت سُمیّہؓ ،اُن کے شوہر اور بیٹے بھی شامل تھے۔ ایک روایت کے مطابق، حضرت بلال حبشیؓ بھی اسلام قبول کر چُکے تھے، جنہیں حضرت ابوبکر صدیقؓ نے امیّہ بن خلف سے خرید کر آزاد کردیا تھا۔ 

حضرت بلالؓ کے حضرت سمیّہؓ کے خاندان سے تعلقات تھے، چناں چہ وہ اُنہیں حضرت ابوبکرؓ کے پاس لے گئے، جنھوں نے اُن کی حضورِ انورﷺ سے ملاقات کروائی اور اسی ملاقات کے دَوران وہ سب مسلمان ہو گئے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ’’ حضرت ابو بکر ؓ، حضرت علی المرتضیٰؓ، حضرت خدیجۃالکبریٰؓ، حضرت سمیّہؓ، حضرت یاسرؓ، حضرت عمّارؓ، حضرت بلالؓ اور حضرت صہیبؓ سب سے پہلے اسلام لانے والوں میں سے تھے۔‘‘حضرت عمّار بن یاسرؓ سے بخاری شریف میں ایک روایت مروی ہے کہ’’ مَیں نے رسول اللہﷺ کو اُس وقت دیکھا، جب آپﷺ کے ساتھ 5غلام، 2عورتیں اور ابوبکرؓ کے سِوا کوئی اور نہ تھا۔‘‘ (صحیح بخاری حدیث3660:)۔

ابو جہل کے وحشیانہ مظالم کی ابتدا

جب ابوجہل کو حضرت سُمیّہؓ کے خاندان کے قبولِ اسلام کا علم ہوا، تو وہ غصّے سے پاگل ہوگیا۔ یہ شخص اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی دشمنی میں تمام حدود پار کر چُکا تھا۔اسلام کے ابتدائی دنوں میں غریب غربا، غلام، خادم، کنیزیں اور مجبور و مفلس لوگ ہی مسلمان ہوئے تھے، جنھیں اُن کے آقا اور قبائل کے بااثر افراد بدترین ظلم و ستم کا نشانہ بناتے۔ ابوجہل جیسے ظالم و جابر اور اسلام کے شدید ترین دشمن کی ایک کنیز یوں اسلام قبول کرلے، یہ اُسے کسی طور گوارا نہ تھا۔حضرت سمیّہ ؓاُن بے سہارا افراد میں سے تھیں، جن کا مکّے میں کوئی عزیز تھا اور نہ ہی کوئی قبیلہ، جب کہ مسلمان بھی بہت قلیل تعداد میں تھے۔یعنی اُس وقت مکّے میں کوئی بھی ابوجہل کا ظلم وستم روکنے والا نہ تھا۔

جنّت جن کے لیے بے قرار تھی

حضرت سمیّہؓ اور اُن کے خاندان نے اپنی جوانی بنو مغیرہ کے سردار کی خدمت میں گزار دی تھی اور اب جب کہ عُمرِ بہاراں پر خزاں کے سائے تھے، مضبوط و توانا اعضاء ضعیف، مضمحل ہو چُکے تھے۔ طاقت، قوّتِ برداشت زوال پزیر تھی، تو ہر گزرتے دن کے ساتھ ابوجہل کی درندگی اور غضب کی تمازت بڑھتی جا رہی تھی۔ ضعیف، بوڑھی و ناتواں سمیّہ ؓ کو مکّے کی تپتی ریت پر بچھے سُرخ پکتے انگاروں پر لیٹنے پر مجبور کیا جاتا۔عین دوپہر کے وقت، جب سورج کی تپش عروج پر ہوتی، لوہے کی بھاری بھرکم زرّہ پہنا کر کھڑا کر دیا جاتا اور کبھی گلے میں لوہے کا بھاری طوق ڈال کر قریش کے آوارہ لڑکوں کےحوالے کر دیا جاتا۔

والدین کے سامنے بچّوں پر اور بچّوں کے سامنے ماں، باپ پر تشدّد کے پہاڑ ڈھائے جاتے۔زخمی سمیہؓ اور یاسر ؓبچّوں کے مجروح جسم دیکھ کر تڑپتے، تو بچّے والدین کی حالتِ زار پر خون کے آنسو روتے۔دُور بیٹھا ابو جہل اِس جذباتی کیفیت کو دیکھ کر قہقہے بلند کرتا اور مغلّظات کے ساتھ کفریہ جملے بَکتا، لیکن آفرین ہے اسلام کے اِن جاں نثاروں پر کہ یہ سب جورو ستم اُن کے پائے استقلال میں کوئی جنبش نہ لا سکا۔اللہ کے رسولﷺاِس مظلوم اور بے آسرا خاندان پر ابو جہل کے ہاتھوں ڈھائے جانے والے مظالم دیکھتے، تو دُعا کرتے ہوئے فرماتے’’اے آلِ یاسرؓ ! صبر کرو۔تمہارے لیے جنّت کا وعدہ ہے‘‘(مستدرک حاکم 5646)۔ ایک بار آپﷺ نے فرمایا’’آلِ یاسرؓ کے لیے جنّت بے قرار ہے۔ ‘‘

’’ ربّ ِ کعبہ کی قسم مَیں کام یاب ہو گئی‘‘

قریش کی نظر میں عورت کی حیثیت بے جان کھلونے سے زیادہ نہ تھی۔ عورت گھر کی وہ باندی تھی، جس کا کام محض مرد کی خدمت کرنا اور اُس کا ہر حکم بجا لانا تھا۔اہلِ قریش اور خاص طور پر بنو مغیرہ اس بات کو اپنے کے لیے باعثِ شرم سمجھتے تھے کہ ایک معمولی، بوڑھی کنیز، اِس قدر ظلم و تشدّد کے بعد بھی بنو مغیرہ کے طاقت وَر سردار کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی مانند مضبوطی سے کھڑی ہے۔ ایک دوپہر ابو جہل اپنا تیز دھار نیزہ ہاتھ میں لیے زخموں سے نڈھال حضرت سمیّہ کے پاس جا پہنچا اور گرجتے ہوئے بولا’’ اے بوڑھی کنیز! آج تجھے فیصلہ کرنا ہے کہ تُو (حضرت)محمّد(ﷺ)کے دین کو چھوڑتی ہے یا موت کو گلے لگاتی ہے ؟‘‘ 

صبر واستقامت کی پیکر، جلیل القدر صحابیہ ؓنے اپنی بوڑھی، بوجھل پلکیں اوپر اٹھائیں، تو اُن کی پُرنور آنکھوں سے نکلنے والی ایمان افروز شعائوں نے ابوجہل کو ہلا کر رکھ دیا۔قوّتِ ایمانی سے لبریز، مضبوط اور توانا لہجے میں گویا ہوئیں’’ اے عمرو بنِ ہشام! تُو قریش کا سب سے طاقت وَر سردار ہے۔اِس وقت مکّے میں تیرا جادو سَر چڑھ کر بول رہا ہے، لیکن یاد رکھ! وہ دن ضرور آئے گا، جب تیرے اِس شہر میں اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی حکومت ہو گی۔ جہاں حق و انصاف کا بول بالا ہو گا اور تیرے شہر کے سب لوگ اُن کے پیروکار ہوں گے، جب کہ تُو جہنّم کی آگ کا ایندھن بن چُکا ہو گا۔‘‘ حضرت سمیّہؓ کے اِن ایمان افروز کلمات نے ابوجہل کو آگ بگولا کر دیا۔ وہ آگے بڑھا اور پھر اُس کا نیزہ لاغر و کم زور حضرت سمیّہ کے جسم کے آر پار ہو گیا۔اسلام کی یہ مجاہدہ کلمہ پڑھتے ہوئے زمین پر ڈھیر ہو گئیں۔ جامِ شہادت نوش کرنے سے پہلے کہا’’فزت و ربّ الکعبۃ ‘‘یعنی’’ ربّ ِ کعبہ کی قسم! مَیں کام یاب ہو گئی۔‘‘ یہ تھی اسلام کی تاریخ کی پہلی شہادت۔

وہ عظیم ہستیاں، جو مینارۂ نور ہیں

حضرت عمّار ؓ کو اپنی والدہ کی اِس درد ناک موت کا بے حد دُکھ تھا۔ جوشِ انتقام میں حضورِ انورﷺ کے پاس جا پہنچے اور کہا’’ یارسول اللہﷺ! اب تو حد ہو گئی۔ اب اجازت دیجیے کہ ہم ان سے انتقام لیں۔‘‘ تاہم، آنحضرتﷺ نے اُنہیں صبر کی تلقین کی اور دُعا فرمائی۔ پھر کچھ ہی دن گزرے تھے کہ حضرت یاسرؓ بھی شہید کردیے گئے۔ یوں حضرت عمّار والدہ کے بعد والد کی شفقت سے بھی محروم ہو گئے۔

بلاشبہ ،اسلام کے ابتدائی دَور کی ان برگزیدہ شخصیات کی سیرت آج کی نوجوان نسل کے لیے مینارۂ نور ہے۔ یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں، جنہوں نے اپنے خون سے اللہ کے دین کی آب یاری کی۔یقیناً مسلمانوں کی کام یابی و کام رانی کا دارو مدار اِسی بات پر ہے کہ ہم نبی کریمﷺ، صحابۂ کرامؓ اور صحابیاتؓ کی سیرت کے نور سے اپنے دِلوں کو منوّر کریں۔

تازہ ترین