• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی محکمے میں سب لوگ اچھے نہیں ہو سکتے اور کسی بھی محکمے میں سب لوگ برے نہیں ہو سکتے۔ پولیس کے محکمے کے لیے ہمارے عمومی خیالات اس سے متصادم ہیں۔ بدقسمتی سے پولیس کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں پہلا خیال رشوت کا آتا ہے، حفاظت کا تصور کم کم ہی ذہنوں میں آتا ہے۔ پولیس کے ساتھ ہمارا یہ رویہ نیا نہیں مدتوں پرانا ہے۔ ایک خاص سوچ ہمارے ذہنوں میں بٹھائی گئی ہے کہ اس محکمے میں سب لوگ برے ہیں جو ایک بہت غلط سوچ ہے، ایسا ممکن نہیں۔

پولیس کا کام جرائم کی روک تھام تو ہے ہی مگر یہ فورس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نہایت کم وسائل کے باوجود بھی جانفشانی سے مقابلہ کرتی رہی مگر اس کی قربانیوں کا ذکر کم کم ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے لاہور موٹر وے ٹول پلازہ پر چند سال پہلے دہشت گردوں کو روکنے کی کوشش میں پولیس کے چند جوان شہید ہو گئے، پنجاب کے آئی جی وہاں تشریف لائے اور انھوں نے فرمایا کہ میں اور میری تمام سروس ان جوانوں کے جذبہ شہادت کے پاؤں کی خاک بھی نہیں۔ اس لمحے ہمیں احساس ہوا کہ یہ بڑے قیمتی لوگ ہیں لیکن ہم ان کو وہ عزت نہیں دے سکے جو ان کا حق ہے۔

اسی طرح کچھ عرصہ قبل جب ملک میں دہشت گردی اپنے عروج پر تھی، لاہور میں رات کے وقت ڈرائیو کرتے ہوئے مجھے ایک مدقوق سے پولیس والے نے روک لیا۔ اس نے ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی کی مدد سےسڑک کو بلاک کر کے ناکہ لگایا ہوا تھا۔ ہاتھ میں اس کے ایک ٹارچ تھی جو اس کے پاس واحد ہتھیار تھا۔ اس سے تفصیلی بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ اس ٹارچ کے سیل کے پیسے بھی وہ جیب سے ادا کرتا ہے، محکمہ اس کثیر بجٹ کا بھی متحمل نہیں ہو سکتا۔

ہمارے مخاصمانہ رویے کی اور کیا مثال ہو سکتی ہے کہ ہم کسی سانحے میں شہید ہونے والے پولیس والوں کو ٹی وی پر شہید لکھنے سے اجتناب کرتے ہیں اور جاں بحق کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ہمارا عمومی رویہ جو برسوں میں تشکیل پایا ہے اس میں بنیادی طور پر ان شہدا کی قربانیوں کی تضحیک محسوس ہوتی ہے جو کہ ان کی جانفشانی اور بہادری سے صریحاً ناانصافی ہے۔

اس محکمے کے مسائل بھی ہیں اور چند جاں لیوا دشواریاں بھی۔ بجٹ نہیں ملتا، مناسب ٹریننگ نہیں دی جاتی، میڈیا ان پر بہتان طرازی کرنے سے نہیں ہچکچاتا، عوام کے دل میں ان کیلئے احترام نہیں۔ ان کی قربانیوں کی اطلاع کسی کو نہیں ہوتی، کسی خرابی کا مبالغہ آمیز اشتہار ضرور لگا دیا جاتا ہے۔ ان کے حوالے سے بوسیدگی کا تصور ہی ہمارے ذہنوں میں قائم ہے۔

اسلام آباد کو سیف سٹی بنانے کا خیال پیپلز پارٹی کے دور میں آیا تھا۔ اسی خیال کے تحت پولیس کو جدید تکنیک سے آگاہ کرنے کے لیے ماڈرن ایکویپمنٹ اور ٹریننگ کی ضرورت پر زور دیا جاتا رہا ہے۔ اسلام آباد کی پولیس اسی لیے دوسرے علاقوں کی پولیس کی نسبت بہتر، مہذب اور مثبت رہی ہے۔

سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت اسلام آباد میں قریباً دو ہزار کیمرے لگائے گئے، جن کی بدولت ایک آپریشن اینڈ مینٹیننس ہال سے پورے شہر پر نظر رکھی جا سکتی ہے، گاڑیوں کی نمبر پلیٹ ٹریس کی جا سکتی ہے۔ جرائم کی شرح میں اس سے کمی آئی ہے اور پولیس کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کا موقع ملا ہے۔ کیمروں کی تعداد ابھی بہت کم ہے۔ ان کیمروں کی تعداد کو 45 سو تک بڑھانے کی سفارشات پیش کی گئی ہیں، جس سے شہر محفوظ اور شہری محفوظ تر ہو سکیں گے۔ اس کوشش سے اسلام آباد سیف سٹی سے اسمارٹ سٹی کی منزل پا سکتا ہے جہاں جرائم پر الیکٹرونک طور پر نظر رکھی جا سکتی ہے اور برق رفتاری سے ان کا قلع قمع بھی ہو سکتا ہے۔

اگر کبھی آپ کو یہ آپریشن اینڈ مینٹیننس ہال دیکھنے کا اتفاق ہو تو آپ کو احساس ہو گا کہ پولیس اب بہت ماڈرن ہو گئی ہے، بوسیدگی کا جو تصور ہمارے ذہنوں میں جاگزیں رہا ہے، وہ لمحوں میں ہوا ہو جاتا ہے۔ اس ہال کو دیکھ کر یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ پولیس آج کے دور کی پولیس ہے اور جدید طریقہ تحقیق و تفتیش سے نہ صرف آگاہ ہے بلکہ جرائم کی روک تھام جدید خطوط پر کرنے کے لیے بھی کوشاں ہے۔ اب اس سیف سٹی پروجیکٹ کے کیمرے پولیس کی حوالات میں بھی لگے ہوئے ہیں کہ پولیس تشدد کی شکایات رفع کی جا سکیں اور ایسی صورت میں فوری کارروائی عمل میں آ سکے۔

اسلام آباد پولیس کے آئی جی قاضی جمیل الرحمٰن ان عوامی شکایات سے بہت اچھی طرح واقف ہیں جو صارفین کو پولیس کےساتھ بات کرتے ہوئے پیش آ سکتی ہیں۔ اسی لیے پولیس کے روِیے کو بہتر بنانے کے لیے جدید ٹریننگ پولیس کے ہر جوان اور افسر کے لیے لازمی قرار دی گئی ہے۔

یہ درست ہے کہ اسلام آباد سیف سٹی کا پروجیکٹ اسمارٹ سٹی کی طرف ایک خوش آئند قدم ہے لیکن پولیس کا اصل امتحان جرائم کی روک تھام ہے۔ ان جرائم میں واضح کمی ہی عوام کا اعتماد جیت سکتی ہے، پولیس کے بارے میں ان کے عمومی رویے کو تبدیل کر سکتی ہے۔ دوسری بات یہ ضروری ہے کہ چاہے کیمروں کی تعداد کم ہو یا زیادہ لیکن ان کیمروں کی کارکردگی پر سوال ضرور اٹھے گا جہاں صحافی اغوا ہوں گے، جہاں لکھنے والوں سے مار پیٹ ہو گی۔ اگر یہ کیمرے ہر بار بوجوہ خراب ہوں گے تو اعتماد قائم نہیں ہو گا۔ اسلام آباد پولیس اپنی بساط، بجٹ اور استطاعت سے بڑھ کر کام کر رہی ہے۔ اس پر صرف الزام لگانا مناسب نہیں، ان کا احترام بھی ضروری ہے۔

تازہ ترین