• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تبدیلی لانے کا وعدہ کرنے والوں نے پہلے سو دن ٹرک کی بتی دکھائی، پھر کہا ابھی ہم سیکھ رہے ہیں، بعد ازاں یوں گویا ہوئے کہ ملک ٹریک پر چڑھا دیا ہے یعنی اس کی سمت درست کر دی ہے، اس کے بعد دور کی کوڑی لیکر آئے کہ ابھی نہیں، پانچ سال بعد ہمارا احتساب کرنا بنتا ہے، تازہ ترین ارشادات میں تو یہ نظریہ دیوانہ پیش کیا جا رہا ہےکہ پانچ سال کی ٹرم شارٹ ٹرم ہوتی ہے، اس چھوٹی ٹرم میں حکومتی پالیسیوں کا اثر نہیں ہوتا، حکومت کا دورانیہ بڑھانا اور نظام بدلنا ہو گا اور اس کے بعد بھی تبدیلی نہ لاسکے تو پھر یہ کہیں گے آئی ایم سوری!

ملک نہ ہو گیا، کوئی ایسی سوغات ہو گئی جسے ایسے ہی منہ اٹھا کر کسی کے حوالے کر دیا، اس پر طرہ یہ کہ اتنی کھلی آزادی دے دی کہ من پسند افراد کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھائو اور ٹیسٹ کرتے رہو، جب مطلوبہ نتائج نہ آئیں تو اسے ہٹا کر نیا لے آئیے، اسی پالیسی پر چلتے ہوئے جو معاشی، سیاسی اور اخلاقی نقصان پچھلے تین سال میں پاکستان کا ہوا ہے‘ اس کا حساب اور جواب کون لے گا اور کس کس سے لے گا؟

جب بھی دیکھو، جب بھی سنو ہر وقت ایک ہی گردان جاری ہے، سب کچھ پچھلی حکومت کا کیا دھرا ہے، عوام آج پوچھنا شروع ہوگئے ہیں کہ کیا نواز شریف کے چار فلیٹوں پہ اتنا زیادہ خرچ ہوا تھا کہ پاکستان کا خزانہ ہی خالی ہو گیا تھا اور عوام بھوکے ننگے رہ گئے؟ یہی بیانیہ گھڑا گیا تھا نا؟ اور پھر نوازشریف کو حکومت سے بے دخل کر کے دو نہیں ایک پاکستان کا نعرہ لگایا گیا؟

آج حکومت کا تیسرا سال ختم ہونے کو ہے‘ عوام کانوں کو ہاتھ لگا چکے ہیں، نام نہاد 22 سالہ جدوجہد کے نعرے لگانے والوں نے شاید یہ سوچ کر اس قدر تسلسل سے جھوٹ بولا جیسے عوام اندھے، بہرے اور گونگے ہوں، وہ شاید یہ سوچ رہے ہیں کہ عوام کی یادداشت کمزور ہوتی ہے، ان کو بتا دوں کہ عوام کی یادداشت کمزور نہیں ہوتی بلکہ وہ حکومتی غلطیاں نظر انداز کرتی ہے اور وہ بھی صرف اس وقت جب روزگار اور ملازمتیں محفوظ ہوتی ہیں اور سب جانتے ہیں کہ موجودہ دور میں کتنوں کے روزگار کو تحفظ ملا اور کتنے اپنے روزگار سے محروم ہو گئے۔

پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں عوام پر کبھی اتنا برا وقت نہیں آیا کہ وہ ہر روز ایک نئے ٹیکس میں جکڑے جا رہے ہوں، مجال ہے کہ ٹھنڈی ہوا کا کوئی ایک بھی جھونکا آیا ہو، حکومت نے 140 ارب روپے کے مزید ٹیکس لگا کر اپنے تابوت میں ایک اور کیل خود ہی ٹھونک لیا ہے، بجلی فی یونٹ ایک روپیہ چالیس پیسے فوری بڑھا دی گئی ہے، دو برسوں میں ساڑھے پانچ روپے فی یونٹ بجلی مزید مہنگی ہو جائے گی اور فی یونٹ بیس روپے کی بلند ترین حد کو کراس کر جائیگا، اس کے بعد ہر گھر، ہر محلے سے چیخیں، آہیں اور بددعائیں نکلیں گی اور کسی کا یہ وعدہ پورا ہو جائے گا کہ میں ان کو رلائوں گا، میں انھیں تکلیف پہنچائوں گا، انھیں تکلیف پہنچے گی۔ یہ عوام کو مکان بنا کر کیا دیں گے‘ یہ تو بلا امتیاز عوام کے چلتے کاروبار ہی بند کروا رہے ہیں، لاکھوں افراد بےروزگار ہو چکے ہیں، ہزاروں کارخانے بند ہو چکے ہیں، کام طلب کرنے والے ہاتھ بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے ہیں، عوام سے سستی خوراک چھین لی گئی ہے، علاج اتنا مہنگا کر دیا گیا ہے کہ لوگ بیمار ہونے پر خوفزدہ ہونا شروع ہو گئے ہیں، میں نے کئی بار گروسری سٹورز کے باہر روتے، بلکتے ضعیف العمر سفید پوشوں کو شوگر کی دوا، بلڈ پریشر کی دوا کیلئے منتیں کرتے دیکھا، میری تو روح تک کانپ گئی کہ مہنگائی نے کس طرح عوام کو نئے عذاب میں مبتلا کر دیا ہے، ایک ماں تو نوازشریف کی تصویر اٹھائے بازار میں کھڑی منتیں کر رہی تھی کہ ہمارا وزیر اعظم لوٹا دو، اب تو بچوں کیلئے دودھ خریدنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔

کیا کسی ملک میں ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ملازم آئی ایم ایف سے کئی سال کی چھٹی لے کر آئے اور اس ملک کا مرکزی بینک اس کے حوالے کر دیا جائے، اس کو حدود وقیود سے بالاتر بنانے کیلئے قانونی تحفظ بھی دیدیا جائے، ایسا شخص مدت پوری ہونے کے بعد جدھر سے آیا وہیں لوٹ جائے گا لیکن اس کے مسلط کردہ ظلمتوں کے سیلاب کا پانی جب اترتا ہے تو پیچھے اتنی آلائشیں چھوڑ جاتا ہے جنھیں ہٹانا مشکل ترین ہو جاتا ہے، معاشی سطح پر دانستہ طور پر ہمارے وطن کے ساتھ جو ظلم روا رکھا جا رہا ہے اس کے نتائج کئی سال تک عوام کو بھگتنا ہوں گے۔

آپ کو یاد ہوگا کبھی دن رات چینلوں پر ان کے ترانے سن کر آپ کے کان پک جایا کرتے تھے، بہت سوں نے تو ترانے کی رنگ ٹون بھی فون میں ڈائون لوڈ کیں، آپ نے غور کیا اب تو ان کے اپنے جلسوں میں ان کے اپنے ہی ترانے بجنا بند ہو گئے ہیں، جی ہاں، عوام کو مصنوعی تبدیلی سے اتنی نفرت ہو گئی ہے کہ اب وہ اس کے نام لیوائوں اور گردان کرنے والوں کا مکو ٹھپنے کیلئے تیار ہیں، وہ وقت بھی آیا چاہتا ہے جب کہا جائے گا ایک تھی ایسی پارٹی جس نے پورے انصاف سے پاکستان کے عوام کا دیوالیہ نکالا تھا۔

مؤرخ ضرورر لکھے گا کہ پی ڈی ایم میں لیگی ترجمانی کا فریضہ بہادر کلثوم نواز کی جری بیٹی مریم نواز نے جس کمال تدبر سے ادا کیا اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی، متعدد افراد کا کہنا ہے کہ جرات میں مریم تو اپنی والدہ کی سراسر کاپی ہے، اس نے تو کلثوم بیگم کی جدوجہد کو چار چاند لگا دیئے ہیں، گزشتہ دو سال میں جس طرح سے مریم نواز نے اپنے سیاسی بیانیے کو منوایا ہے وہ کم ہی کسی کے نصیب میں آیا ہوگا، اب تو ہر طرف سے ایک ہی آواز بلند ہو رہی ہے۔ She is a crowd puller indeed.

تازہ ترین