• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ کے عوام پریشان ہیں کہ آخر موجودہ مرکزی حکومت سندھ کے حوالے سے کیا چاہتی ہے؟ اب تک موجودہ مرکزی حکومت سندھ کے کئی آئینی اور قانونی حقوق کو پامال کرنے کے سلسلے میں متعدد غیر آئینی اورغیر قانونی اقدامات کرچکی ہے۔ اس سلسلے میں دریائے سندھ پر ڈیم تعمیر کرنے کے ساتھ ساتھ اب ’’سندھ بیراج‘‘ کے نام سے ایک اور ڈیم تعمیر کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ سندھ کی سرحدوں میں سمندر کے کناروں پر سینکڑوں سال سے قائم گائوں اور علاقوں کو بھی مرکزی حکومت نے ایک آرڈر کے ذریعے مرکز کے حوالے کردیا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر سندھ کے اکثر لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ موجودہ مرکزی حکومت نہ فقط سندھ کو دریائے سندھ سے الگ کرنا چاہتی ہے بلکہ ساتھ ہی وہ سندھ کو سمندر سے بھی الگ کرنا چاہتی ہے۔ سندھ کے لوگ اس صورتحال کے خلاف صوبے بھر میں کافی عرصے سے مظاہرے بھی کررہے ہیں تو دھرنے بھی دے رہے ہیں۔ اب اچانک مرکزی حکومت نے سندھ کے حقوق پر ایک اور وار کردیا ہے۔ایک فیصلے کے تحت مرکزی حکومت نے سندھ کے تین اہم اسپتالوں کراچی کے جناح اسپتال‘ این آئی سی وی ڈی اور این آئی سی ایچ کا کنٹرول سنبھالنے کے لئے آرڈر جاری کردیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ایشو پہلے ہی سپریم کورٹ کے پاس زیر سماعت ہے کیونکہ مرکزی حکومت نے ایک آرڈر جاری کرکے ان تینوںاسپتالوں کا کنٹرول پہلے ہی خود سنبھال لیا تھا۔ حکومت سندھ نے مرکزی حکومت کے اس آرڈر کو نہ فقط تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا بلکہ اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کیا تھا مگر مرکزی حکومت نے اس کا کیا کوئی نوٹس لیا؟ یہ بات کم دلچسپ نہیں ہے۔ قانونی ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ نے احکامات دیئے کہ مرکزی حکومت ان اداروں کو اپنی تحویل میں لینے کی صورت میں ان اداروں پر حکومت سندھ کے اب تک جو اخراجات ہوئے ہیں وہ سندھ کو لوٹانے ہوں گے مگر مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کے ان احکامات پر عمل کرنے کی بجائے اس سلسلے میں مزید آرڈر جاری کرکے ان اداروں کوایک بار پھر اپنی تحویل میں لینے کا اعلان کردیا۔ اس اقدام کی حکومت سندھ نے نہ فقط شدید مخالفت کی بلکہ اسے سپریم کورٹ کے پچھلے احکامات کی توہین بھی قرار دیا۔ حکومت سندھ نے اس سلسلے میں اتنا سخت نوٹس لیا کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اور وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے مرکزی حکومت کو الگ الگ لکھے گئے خطوط میں شدید مخالفت کی۔ اطلاعات کے مطابق حکومت سندھ ان اسپتالوں پر اب تک 100 ارب روپے سے زائد خرچ کرچکی تھی۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق مرکز کی طرف سے ان اداروں کا انتظام سنبھالنے کی صورت میں مرکز کو یہ رقم حکومت سندھ کو واپس کرنا تھی۔اطلاعات کے مطابق حکومت سندھ نے اسپتالوں کا انتظام چلانے کے لئے مرکزی حکومت کو سندھ کے ساتھ مینجمنٹ اینڈ آپریشنل معاہدہ کرنے کی بھی تجویز دی ہے۔ اس حوالے سے سندھ کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے وزیر اعظم کے نیشنل ہیلتھ سروسز کے خصوصی مشیر ڈاکٹر فیصل سلطان کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے جی پی ایم سی،این آئی سی وی ڈی اور این آئی سی ایچ کے بارے میں 17 جون 2019 ء کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ہونے والے فیصلے کا حوالہ دیکر کہا کہ اس فیصلے کے بعد اس وقت کے خصوصی مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے 8 جولائی 2019 ء کو اٹارنی جنرل کو خط لکھ کر کابینہ کے اس فیصلے پر عملدرآمد کرانے کی ہدایت جاری کی۔ واضح رہے کہ وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا تھا کہ یہ تینوں اسپتال حکومت سندھ کے حوالے کئے جائیں۔ اس خط میںصوبائی وزیر صحت نے مزید لکھا کہ ایس ای پی ایچ کے فیصلے کے بارے میں بنائی گئی کمیٹی کی سفارشات کے بعد میں نے آپ کوسپریم کورٹ کے فیصلے کے پیراگراف نمبر 35 بھیجا تھا جس میں یہ بات واضح تھی کہ سپریم کورٹ نے ان اسپتالوں کو صوبائی حکومت کے حوالے کرنے کے لئے قانونی لوازمات مکمل کرنے کا حکم جاری کیا ۔ پیرا گراف 35 میں کہا گیا تھا کہ اگر وفاق ان اسپتالوں کو اپنے پاس رکھتا ہے تو اسے حکومت سندھ کو 29 جون 2011 ء تک کئے گئے تمام اخراجات ادا کرنے پڑیں گے۔ اس خط میں یہ بھی کہا گیا کہ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ حکومت سندھ نے 2011 ء تک ان ہسپتالوں پر 100 ارب روپے خرچ کئے ہیں جبکہ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود ابھی تک وفاقی حکومت کی نیشنل ہیلتھ سروسز کی طرف سے حکومت سندھ کو کوئی رقم ادا نہیں کی گئی ہے۔ عدالتی فیصلے کے باوجود وفاقی حکومت کی نیشنل ہیلتھ سروسز کی طرف سے پی ایم سی کراچی کے بارے میں 17 مارچ 2021 ء کو بورڈ آف گورننس کا آرڈر جاری ہوا۔ یہ نوٹیفکیشن سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے۔ اس خط میں اس نے وفاقی حکومت کو لکھا ہے کہ آپ بورڈ آف گورننس کا نوٹس واپس لیں کیونکہ یہ نوٹیفکیشن اسپتالوں کی روزانہ کارکردگی میں رخنہ ڈال رہا ہے۔

تازہ ترین