بھٹو اور شریفوں کے درمیان باہمی اعتماد کےفقدان کی 1970ء کی دہائی سے ایک تاریخ ہے۔ انہوں نے بداعتمادی کو ختم کرکے اعتماد سازی کیلئے اکثر کوششیں بھی کیں لیکن زخم اس قدر گہرے ہیں کہ انہیں مندمل کرنا آسان نہ ہو گا۔ اسی چیز نے پنجاب اور سندھ میں ان کے کارکنوں کے درمیان خلیج حائل کردی ہے۔
نئی قیادت کو نئی سیاسی حکمت عملی کے ساتھ سامنے آنے کے بجائے وہی نفرتیں اور سیاسی عدم اعتمادی آئندہ نسل میں منتقل کی جا رہی ہے۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری بھی اسی ڈگر پر چل پڑے ہیں۔ ان رویوں نے ملک میں سیاسی و جمہوری عمل کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن اس بات سے طاقتور حلقوں کو سیاسی نظام میں دخل اندازی اور ایک دوسرے کو لڑانے کا موقع مل گیا۔ چونکہ آج بھی معاملات نواز شریف اور آصف علی زرداری کے قابو میں ہیں لہٰذا مریم اور بلاول بھی ماضی کی سیاست کے ہی یرغمال ہیں۔
انہیں اس ماضی سے نکلنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ اپنے بزرگوں کے اختیار کردہ مؤقف اور راستے سے انحراف ان دونوں کے لئے آسان نہیں ہے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ اجلاس میں یہی کچھ ہوا جب مسلم لیگ (ن) کے رہنما طارق فضل چوہدری نواز شریف اور آصف علی زرداری نے اسمبلیوں سے استعفوں کے معاملے پر ایک دوسرے سے اختلاف کیا۔ حالات اس وقت بدسے بدتر ہو گئے جب زرداری نے نواز شریف کو کہا وہ لانگ مارچ چاہتے ہیں تو پاکستان واپس آکر احتجاج کی قیادت کریں۔ اس بات نے نواز شریف میں خفگی پیدا کی۔
اب اس کیفیت میں بلاول جو کاغذ پر تو اپنی پارٹی کے چیئرمین، زرداری شریک چیئرمین اور مریم ن لیگ کی نائب صدر اور عملاً اپنے والد کی غیر موجودگی میں شہباز شریف کے صدر ہونے کے باوجود پارٹی سربراہ ہیں لیکن مشکل ہی سے پالیسی فیصلے کر سکتے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی پنجاب اور پیپلز پارٹی کی سندھ میں جڑیں ہیں لیکن دونوں جماعتوں کو ایک دوسرے کے خلاف سیاست کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ بلاول اور مریم دونوں ہی اپنے والد کے اختیار کردہ خطوط پر ہی عمل پیرا ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کو پیپلز پارٹی کے مقابلے میں زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔ سیاسی بیانیہ یا قیادت پر پیپلزپارٹی کو کوئی چیلنج درپیش نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) میں ایسا نہیں ہے۔ شہباز شریف اور ان کے بیٹے پارٹی کے اندر اختلاف تو رکھتے ہیں۔ خاندانی سیاست کی بھی اپنی جگہ خامیاں ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ خاندان کے ہر فرد کی سوچ یکساں ہو۔
اس کے ساتھ ہی یہ بھی ممکن ہے کہ نئی نسل اپنے پیشرو سے کہیں زیادہ بن کر سامنے آئے۔ یہ بھی روایت ہے کہ لوگ سیاسی خاندانوں کی اندھی تقلید کرتے ہیں۔