• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت سے چینی، کپاس اور دھاگا درآمد کرنے کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی 31؍مارچ کی تجویز کا وفاقی کابینہ کے یکم اپریل کے اجلاس میں مسترد کیا جانا خواہ بعض حلقوں کے خیال کے مطابق ’’یوٹرن‘‘ ہی تھا یا اس نوع کا تاثر اجاگر کرنے کا سبب بنا، یہ بات واضح ہوگئی کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی سابقہ خصوصی حیثیت بحال ہوئے بغیر بھارت سے تجارت نہیں ہوسکتی۔ جیسا کہ میڈیا بریفنگ میں وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا، یہ نہیں ہوسکتا کہ بھارت کے اندر مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جائے، مسلمانوں کا قتل عام کیا جائے، کشمیری عوام کو ان کے حقوق نہ دئیے جائیں اور ہم یہ سمجھیں کہ اس سب کے باوجود اسلام آباد اور نئی دہلی ہنسی خوشی رہ سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا یہی موقف ہے اور اسی موقف کے ساتھ ہم آگے بڑھیں گے۔ فواد چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ ’’عمران خان کے ہوتے ہوئے کشمیر کا سودا کوئی نہیں کرسکتا‘‘۔ جہاں تک اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلوں کا تعلق ہے ان کے بارے میں وضاحت سامنے آئی کہ یہ ادارہ خالص اقتصادی بنیادوں پر فیصلے کرتا ہے جن کی حیثیت تجاویز کی ہوتی ہے۔ وفاقی کابینہ سیاسی، اقتصادی اور سفارتی امور سمیت تمام پہلو مدنظر رکھ کر انہیں منظور یا نظرانداز کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ ذرائع کے مطابق کابینہ کے اجلاس میں چار وزراء شاہ محمود قریشی، اسد عمر، شیخ رشید اور شیریں مزاری نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کی تجویز کی بھرپور مخالفت کی۔ بھارت سے تجارت بحال کرنے کا فیصلہ نئے وزیر خزانہ حماد اظہر کی صدارت میں منعقد ہونے والے اجلاس کا پہلا اہم فیصلہ تھا جو ضروری اشیاء کی سپلائی یقینی بنانے کے نقطہ نظر سے کیا گیا مگر طریق کار کے مطابق اس کے سیاسی، سفارتی اور دیگر پہلوئوں کا جائزہ وفاقی کابینہ کی سطح پر لیا جانا ضروری تھا۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق قبل ازیں وزیر اعظم عمران خان یہ واضح کرچکے تھے کہ ’’جب تک مقبوضہ کشمیر کے بارے میں 5؍اگست 2019ء کے فیصلے واپس نہیں لئے جاتے، بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں آسکتے‘‘۔ امر واقعہ یہ ہے کہ جموں و کشمیر کا تنازع جو برٹش انڈیا کی تقسیم کے ایجنڈے کا نامکمل حصہ ہے محض زمین کے ٹکڑے کا جھگڑا نہیں۔ ایک کروڑ انسانوں کے بنیادی حقوق اور امنگوں کے حصول کی ایسی جدوجہد کا حصہ ہے جس میں لاکھوں کشمیری اپنی جانیں قربان کرچکے ہیں ان کا حق خودارادیت کا موقف جنوبی ایشیا کے تمام مسلمانوں کے اس موقف کا حصہ ہے جس کا اظہار 23؍مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور میں کیا گیا ایک اعتبار سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کے حق خودارادی کی حمایت پاکستانیوں کا ایسا بنیادی موقف ہے جس نسل درنسل حفاظت حصول مقصد کے وقت تک پوری قوم اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے۔ اس موقف کی حفاظت کے دوران پاکستانی قوم کی قربانیاں بھی تین کھلی جنگوں اور دہشت گردی کی صورت میں افغانستان کے راستے اندر سے مسلط کردہ طویل جنگ کی صورت میں نمایاں ہیں جن کے نتائج سامنے آنے کی گھڑی قریب تر محسوس ہورہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ جب یہ کہتے ہیں کہ پاک بھارت مذاکرات کی بحالی کے لئے اب بھارت کو پہل کاری کرنا ہوگی، تو اس کا واضح مفہوم یہی ہوتا ہے کہ 5؍اگست 2019ء کے اقدامات واپس لینے سمیت سازگار فضا پیدا کرنا ہوگی۔ دنیا میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیاں متقاضی ہیں کہ بھارت حقائق کو سمجھے، کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کرنے سمیت تمام غیرقانونی اقدامات واپس لے اور خطے کے لوگوں کے لئے امن و آشتی کی فضا میں ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر پیش قدمی کی راہ میں قائم کی گئی رکاوٹیں دور کرے۔

تازہ ترین