• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ کے نبیؐ ابھی دنیا میں تشریف بھی نہیں لائے تھے کہ شفقتِ پدری سے محروم ہو گئے۔ پھر عُمرِ مبارکہ صرف چھے سال ہی تھی کہ آغوشِ مادر بھی نہ رہی۔ دو سال بعد شفیق دادا بھی دنیا چھوڑ گئے۔ ماں نہ باپ، بھائی نہ بہن اور اب دادا کا سایۂ شفقت بھی نہ رہا۔ اللہ عزّوجل نے اپنے محبوبؐ ؐ کو، جو وجۂ تخلیقِ کائنات تھے، صبر و آزمائش کی بھٹی سے گزار کر رہتی دنیا تک کے یتیم بچّوں کے لیے ایک لازوال، اعلیٰ و ارفع مثال قائم کر دی۔ اب چچا ابو طالب اور چچی فاطمہؓ ہی آپؐ کے سب کچھ تھے۔ جناب ابو طالب تو والد، جناب عبداللہ کے حقیقی بھائی تھے، لیکن چچی نے معصوم و یتیم بھتیجے پر ممتا کے جو پھول نچھاور کیے، وہ رشتوں کی تاریخ میں سنہرے حروف سے تحریر ہیں۔ 

اُن کا یتیم بچّے کے ساتھ حُسنِ سلوک اور صلۂ رحمی دنیا بھر کی خواتین کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آج ایک ایسے معاشرے میں کہ جہاں دین سے دُوری کی وجہ سے رشتوں کا تقدّس معدوم ہوتا جا رہا ہے، وہاں یتیم بچّوں کے ساتھ ناروا سلوک نے پھوپھی، چچی، خالہ اور سوتیلی ماں جیسے ماں بدل پاکیزہ رشتوں کی رُوح بھی پامال کر دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابیاتؓ کی سیرت کے مطالعے کی جتنی ضرورت آج ہے، کبھی نہ تھی۔ ہمارے آس پاس معصوم بچّوں پر بیتنے والے دِل سوز واقعات بکھرے پڑے ہیں کہ جنھیں قلم بند کرتے ہوئے دل کانپ جاتا ہے ، ہاتھ لرز اُٹھتے ہیں۔

سب سےمنفرد ماں

جناب عبدالمطلب کی وفات کے بعد قبیلے کی سرداری، خاندان کی سربراہی اور خانۂ کعبہ کے متولّی کی ذمّے داری جناب ابو طالب کے کندھوں پر آچُکی تھی۔وہ معاشی طور پر خوش حال نہ تھے۔ اپنے سات بچّوں کے علاوہ اب چہیتے بھتیجے کی سرپرستی اور پرورش کی ذمّے داری بھی آپڑی تھی۔ ایسے میں سلیقہ شعار اہلیہ نے صبر وشُکر، قناعت، سلیقہ مندی، فہم و فراست، سنجیدگی و بردباری ، دانش مندی، حکمت اور توکّل علی اللہ کے ساتھ سفید پوشی کا بھرم برقرار رکھا ہوا تھا۔

اُنھوں نے بھتیجے کو اپنی حقیقی اولاد پر ترجیح دیتے ہوئے ماں کے پیار کی کمی کا احساس نہ ہونے دیا۔ گھر کی ہر عُمدہ چیز اور بہترین پوشاک پر پہلے بھتیجے کا حق تھا، بعد میں اپنے بچّوں کا۔ یہ چچی ہی کی تربیت کا اثر تھا کہ ساتوں بچّے حضورﷺ پر جان چِھڑکتے تھے۔ یوں اللہ کے رسولﷺ کے بہن، بھائی آلِ ابو طالب ہی تھے۔ پیار و محبّت کے اس مشک بُو تعلق کے پیچھے حضرت فاطمہؓ بنتِ اسد کا وہ والہانہ کردار ہے، جس کی گواہی رسول اللہؐ بار بار دیا کرتے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سرکارِ دو عالمﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں جن چند خواتین نے آپﷺ کے لیے ماں کا کردار ادا کیا، اُن میں چچی، فاطمہؓ سب سے منفرد حیثیت رکھتی ہیں۔

ماں کی ممتا اور بیٹے کا پیار

نبوّت کے اعلان کے ساتھ ہی اہلِ مکّہ کی محبّتیں، نفرتوں میں بدل گئیں۔ جو کل تک دوست تھے، وہ دشمن بن گئے۔ اس کڑے وقت میںجناب ابو طالب کے ساتھ حضرت فاطمہؓ ہی تھیں، جنہوں نے ممتا کی آغوش فراہم کی اور رُوح کے زخموں پر محبّتوں کے پھائے رکھے۔ نیز، اپنے بچّوں حضرت جعفرؓ اور حضرت علیؓ کے ساتھ اسلام قبول کرکے ’’سابقون الاوّلون‘‘ کے اعزاز سے سرفراز ہوئیں۔ 

آنحضرت ؐ کا دارِ ارقم میں قیام ہو یا شعبِ ابی طالب کی قیدِ سخت، طائف کا سفر ہو یا مکّے کے بازاروں میں ڈھائے جانے والے مظالم، ظلمت و کفر، قہر و غضب اور ابتلاءکے اس دَور میں یہ چچی فاطمہؓ ہی تھیں، جو کبھی رازداری سے تو کبھی اعلیٰ الاعلان حقِ ممتا ادا کرتی رہیں۔ قریش، ابو طالب کے پاس جا کر شکایت کرتے، تو جواب ملتا’’ وہ ماں ہیں اور حضرت محمدﷺ اُن کے بیٹے۔ تم ماں کی ممتا کو بیٹے کے پیار سے کیسے جُدا کر سکتے ہو؟ فاطمہؓ اُن سے اپنے بچّوں سے زیادہ محبّت کرتی ہیں۔ مَیں اُنہیں کیسے منع کر سکتا ہوں؟‘‘ جب اُنھوں نے اسلام قبول کیا، تو اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا’’ مجھے کبھی اِتنی خوشی نہیں ہوئی، جتنی چچیؓ کے اسلام لانے پر ہوئی۔‘‘

نام و نسب

نام فاطمہ،ؓ والد کا نام اسد بن ہاشم بن عبدمناف ہے۔ والدہ کا نام، فاطمہ بنت ھَرِم بن رواحہ ہے۔عبد مناف(ابو طالب) سے حضرت علی المرتضیٰؓ، حضرت جعفر طیّارؓ، حضرت عقیلؓ اور طالب پیدا ہوئے۔ طالب ان میں سب سے بڑے تھے، جن کے نام پر ابو طالب کی کنیت ہے۔ صاحب زادیوں میں اُمّ ِ ہانیؓ، جمانہؓ اور ریطہؓ پیدا ہوئیں۔ (طبقات ابنِ سعد، جلد ہشتم، صفحہ 287) حضرت فاطمہؓ، رسول اللہؐ کے دادا، جناب عبدالمطلب کی بھتیجی تھیں۔ یہ پہلی ہاشمی خاتون تھیں، جن سے ہاشمی اولاد پیدا ہوئی۔

صُورت و سیرت میں یکتا

حضرت فاطمہ ؓ جس دَور میں پیدا ہوئیں، اُس وقت اہلِ قریش کی شرافت، ذلّت و پستی کے گڑھوں میں دفن ہو چُکی تھی۔ معاشرہ سخت اضطراب، انتشار اور زوال وانحطاط کا شکار تھا۔ شرم ناک خرافات اور جاہلانہ رسومات نے انسانی زندگی کو جانوروں سے بدتر کر دیا تھا۔ اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل چُکا تھا۔ قریش اپنے آپ کو دینِ ابراہیمیؑ کا علم بردار اور محافظ سمجھتے ہوئے دوسرں سے افضل و اعلیٰ خیال کرتے تھے۔ اسی احساسِ برتری نے غرور وتکبّر کا رُوپ دھارتے ہوئے اُن کی انفرادی و اجتماعی زندگیوں کو گناہوں کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا تھا۔

عالم یہ تھا کہ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے مقدّس ترین رشتے بھی پامال ہو رہے تھے،یہاں تک کہ اپنی نوزائیدہ بچیوں کو زندہ دفن کر دینا فخر کی بات سمجھی جاتی اور اس کے قصّے محافل میں بیان کیے جاتے۔ ویسے تو اہلِ قریش شریعتِ ابراہیمیؑ سے کوسوں دُور تھے، البتہ خاندانِ بنو ہاشم کی اکثریت دینِ ابراہیمی ؑہی کی پیروکار تھی۔ 

حضرت فاطمہؓ بنتِ اسد خانوادۂ ہاشم کی چشم و چراغ تھیں۔ اپنے حُسن و جمال اور معصومانہ حرکات کی وجہ سے پورا گھرانہ اُن کا گرویدہ تھا۔ خانۂ کعبہ کے متولّی، بنو ہاشم کے بارُعب و بردبار سردار، عبدالمطلب اپنی اس بھتیجی سے بے حد پیار کرتے اور یہ پیار ہی اُن کے ابو طالب سے نکاح کی بنیاد بنا۔اللہ تعالیٰ نے اُنھیں خُوب صُورتی کے ساتھ پاکیزہ سیرت سے نوازا تھا۔ شوہر اور سسرال والوں کے دِلوں پر راج کرنا اُنہیں خُوب آتا تھا۔ جناب ابو طالب نے کسی ساری زندگی دوسری عورت کی جانب دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔ مرتے دَم تک فاطمہؓ بنتِ اسد ہی اُن کی شریکِ حیات رہیں۔

سب سے زیادہ مہربان

شعبِ ابی طالب سے واپسی کے کچھ ماہ بعد ہی جناب ابو طالب اور اُمّ المومنین، حضرت خدیجتہ الکبریٰؓ کی جدائی سے آنحضرت ؐ پر غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ اب قریش کی روک ٹوک کرنے والا کوئی نہ تھا۔آزمائش و ابتلا کے اس کٹھن دَور میں چچی کی آغوشِ محبّت مزید کشادہ ہو گئی۔ وہ حضورﷺ کے دُکھوں پر پیار ومحبّت کا مرہم رکھتیں اور سرپرستی فرماتیں۔ اللہ کے رسولؐ اُس وقت کو یاد کرتے ہوئے فرماتے تھے’’ابو طالب کے بعد اُن سے زیادہ مجھ پر کوئی مہربان نہ تھا۔‘‘

جگر گوشۂ رسول ؐ کو بہو بنانے کی تمنّا

14 نبوی 622عیسوی میں عام مسلمانوں نے مدینہ منوّرہ ہجرت کی، تو حضرت فاطمہؓ بھی اُن کے ساتھ تھیں۔ بچّوں کی شادیاں ہو چُکی تھیں، صرف سب سے چھوٹے بیٹے، حضرت علی المرتضیٰ ؓ ہی باقی بچے تھے۔ ضعیف والدہ کی خواہش تھی کہ مرنے سے پہلے چہیتے بیٹے کا بھی گھر بس جائے۔ دِل کے کسی گوشے میں رسول اللہﷺ کی لختِ جگر، حضرت فاطمۃ الزہرہؓ کو اپنے بیٹے کی دلہن بنانے کی تمنّا بسی ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ تو دِلوں کے حال سے واقف ہے۔چناں چہ حضرت جبرائیل امینؑ بارگاہِ نبوّیؐ میں حاضر ہوئے اور یوں حضرت فاطمہؓ بنتِ رسول اللہﷺ، حضرت فاطمہؓ بنتِ اسد کی بہو بن گئیں۔حضرت علیؓ نے نکاح کے بعد والدہ سے فرمایا’’امّاں جان! اب فاطمہؓ گھر آجائیں گی۔ 

مَیں پانی بَھروں گا اور باہر کا کام کروں گا۔ وہ چکّی پیسنے اور آٹا گوندھنے میں آپ کی مدد کریں گی‘‘(اسد الغابہ 517/5)۔ اُس زمانے میں کنویں سے پانی بھر کر لانا ایک مشقّت کا کام تھا۔ مدینے میں میٹھے پانی کا ایک ہی کنواں تھا، جس کا نام’’بیر رومہ‘‘ تھا، جس کا مالک ایک یہودی کا تھا۔ اسے سیّدنا عثمان غنیؓ نے آنحضرتؐ کے حکم پر خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اب وہ کنواں’’بیر عثمانؓ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ رسول اللہؐ اکثر اپنی ضعیف چچی کے گھر تشریف لے جاتے ،وہاں آرام فرماتے اور اُن کی ضروریات کا خیال رکھتے۔

وصالِ مبارک

5 ہجری،627عیسوی میں نبی کریمﷺ کی جلیل القدر چچی، حضرت فاطمہؓ نے وفات پائی۔ اللہ کے رسولؐ نے حضرت ابو ایّوب انصاریؓ اور چند دیگر صحابہؓ کو جنّت البقیع میں قبر کھودنے پر مامور فرمایا، جب کہ لحد اپنے ہاتھوں سے تیار کی اور قبر میں لیٹ کر معاینہ فرمایا۔ اُن کے کفن کے لیے اپنی قمیص دی۔ صحابۂ کرامؓنے اِس کی وجہ پوچھی، تو فرمایا’’ابو طالب کے بعد ان سے زیادہ میرے ساتھ حُسنِ سلوک کسی نے نہیں کیا، اس بنا پر مَیں نے انھیں اپنی قمیص پہنائی کہ جنّت میں ان کو صلہ ملے اور قبر میں لیٹ گیا کہ قبر کی سختی میں کمی ہو۔‘‘ (اسد الغابہ 517/5)۔ بعض روایات میں ہے کہ آپؐ نے قبر میں لیٹے لیٹے دُعا کی ’’اے اللہ! میری ماں کی مغفرت فرما۔ ان پر رحم فرما اور ان کی قبر کو جنّت کے باغات میں سے ایک باغ بنا دے‘‘۔

چچی کو خراجِ عقیدت

اہلِ سیر لکھتے ہیں کہ رسول اللہﷺ تدفین کے بعد اُن کے گھر تشریف لے گئے۔ آنکھوں سے اشک جاری تھے۔ آپؐ نے وہاں موجود اہلِ خانہ سے فرمایا’’میری ماں کے انتقال کے بعد اُنہوں نے حقیقی ماں کی طرح میری پرورش کی۔ بچپن سے جوانی تک میرے ساتھ شفقت ،محبّت اور پیار کا ایسا تعلق رکھا، جس نے مجھے اپنی حقیقی ماں کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ 

مجھے یاد ہے، بارہا ایسے مواقع آئے کہ جب یہ خود بھوکی رہتیں، لیکن مجھے کبھی بھوکا نہ رہنے دیا۔ خود موٹا جھوٹا پہن لیتیں، لیکن مجھے ہمیشہ اچھی اور صاف پوشاک پہنائی۔ میری ماں کے میرے اوپر بے شمار احسانات ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اللہ ان کی قبر پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائیں گے۔‘‘

تازہ ترین