• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج اتوار ہے۔ اپنے عزیز از جان بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں سے ملنے ان کی حیات افروز باتیں سننے۔ ان کے سوالات کی پیاس بجھانے کا دن۔ میری تمنّا یہ ہوتی ہے کہ آپ دوپہر کا کھانا ان کے ساتھ کھائیں۔ ان کی شوخیوں سے لطف اندوز ہوں۔

آپ کی پوری ایک ہفتے کی تھکن اتر جائے گی۔ کورونا کی عالمگیر وبا نے پچھلے سال کے رمضان کی رحمتوں برکتوں اور مغفرتوں میں بھی خلل ڈالا تھا۔ اس بار بھی روزوں کے آنے سے پہلے پہلے تیسری لہر پھر تیز ہوگئی ہے۔ پنجاب میں تو بچوں کے بھی متاثر ہونے کی تشویشناک اطلاعات آرہی ہیں۔

آج 4اپریل ہے۔ 42سال پہلے رُونما ہونے والا ایک تاریخی المیہ میرے ذہن پردستک دے رہا ہے۔ اس پر ایک طرف عشق غالب ہے دوسری طرف نفرت کی شدت بھی۔ ان دونوں صورتوں میں معروضی صورت۔ اور زمینی حقائق پس منظر میں گم ہوجاتے ہیں۔

میں جب بھی اپنے صحافتی امور کی انجام دہی کے لیے واشنگٹن گیا ہوں۔ تو وہاں کی صدارتی یادگاروں پر ضرور جانا ہوا ہے۔ قومی یادگار مینار کے آس پاس قریباً سارے امریکی صدور کی الگ الگ یادگاریں ہیں۔جہاں نہ صرف ان کی متعلقہ اشیاء کے عجائب گھر ہیں۔ 

ان کے دَور کے اہم واقعات بھی دیواروں پر نقش ہیں۔ ہر صدر سے متعلقہ مثبت اور منفی معلومات بھی۔ یہ یادگاریں عمارتیں نہیں ہیں تاریخ کے اوراق ہیں۔ آپ یہاں امریکہ کی کئی سو سالہ تاریخ کے خوشگوار فیصلہ کن اور نازک موڑوں سے گزر رہے ہوتے ہیں۔

 غیر ملکی سیاح آتے ہی رہتے ہیں۔ امریکی اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات بھی قطار اندر قطار ان یادگاروں کو بہت محبت اور عقیدت سے دیکھتے ہوئے گھومتے ہیں۔ یوں اپنی تاریخ کے سیاہ و سفید سے آگہی ہوتی ہے۔

مجھے وہاں اکثر خیال آیا کہ ہم اپنے واشنگٹن اسلام آباد میں ایسا کیوں نہیں کرتے۔ جیسی بھی بری بھلی ہے۔ 74سالہ تاریخ ہے تو ہماری ہی ۔ یہ سانحے۔ المیے۔ سیاہ دن۔ شکستیں ہماری ہی رُوداد ہیں۔ ان 74سالوں میں صرف سقوط اور غلط فیصلے ہی نہیں ہوئے ہیں۔ 

ایسے واقعات بھی گزرے ہیں جس پر جشن منائے گئے۔ ان میں تربیلا اور منگلا ڈیم بھی بنے ہیں۔ قومی اسمبلی ۔ صوبائی اسمبلیوں کی عمارات۔ مینار پاکستان۔ آئین۔ 1973-1962-1956 دو ایوانی مقننہ۔ شاہراہیں۔ موٹر ویز۔ جمہوریت کی بحالی کے لیے جدو جہد۔

قائد اعظم‘ قائد ملت سے لے کر اب تک جو حکمران بھی آئے۔ صدارتی نظام لائے۔ پارلیمانی نظام والے طاقتور صدور۔ با اختیار وزرائے اعظم ۔ یہ سب ہم میں سے تھے۔ اگر مارشل لا لگے تو وہ بھی ہمارے جنرلوں نے ہی لگائے۔ ان مارشل لائوں میں بہت اہم اقدامات بھی ہوئے۔ انسانی حقوق پامال بھی کیے گئے۔ جنگیں بھی ہوئیں۔ مشرقی پاکستان الگ بھی ہوا۔ یہ سب ہماری تاریخ کا حصّہ ہیں۔

میں نے قائد اعظم‘ قائد ملت اور ان کے بعد آنے والے سربراہان مملکت و حکومت کی یادگاروں کے حوالے سے باقاعدہ ایک تجویز صدر جنرل پرویز مشرف کو بھی پیش کی۔ ان کے لیے شہید ذوالفقار علی بھٹو کی یادگار بنانا مسئلہ تھا، پھر صدر آصف علی زرداری سے اس سلسلے میں عرض کی۔ 

ان کے لیے صدر جنرل ضیاء کی یادگار شامل کرنا نا پسندیدہ تھا۔

یوں ہم اپنی تاریخ سے، ترتیب سے، حقائق سے اپنی قوم کو بے خبر رکھنا چاہتے ہیں۔ اپنے ماضی کو اپنا نہیں سمجھنا چاہتے۔ اپنی نا انصافیوں۔ اپنے جرائم کا اعتراف نہیں کرنا چاہتے۔ حالانکہ قول فیصل تو یہ ہے کہ :

فطرت افراد سے اغماض تو کرلیتی ہے

کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

ملت کے گناہوں کی پاداش میں ہی ملت مشکلات کا شکار رہتی ہے۔ 4اپریل بھی ایک ایسے ہی ملی گناہ کے ارتکاب کا دن ہے۔

قائد اعظم۔ قائد ملت۔ غلام محمد۔ اسکندر مرزا۔ چوہدری محمد علی۔ مولانا تمیز الدین۔ خواجہ ناظم الدین۔ حسین شہید سہروردی۔ آئی آئی چندریگر۔ فیروز خان نون۔ صدر جنرل ایوب۔ صدر یحییٰ۔ صدر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو۔ صدر جنرل ضیاء الحق۔ 

وزیر اعظم جونیجو۔ صدر غلام اسحٰق خان۔ محترمہ بے نظیر بھٹو۔ میاں محمد نواز شریف۔ صدر جنرل پرویز مشرف۔ ظفر ﷲ جمالی۔ شوکت عزیز۔ آصف علی زرداری یہ سب تاریخ کے کردار ہیں۔ کسی سے نفرت یا ناپسندیدگی اسے تاریخ کے اس دَور سے الگ تو نہیں کرسکتی۔ 

ان کی یادگاریں اسلام آباد میں بنیں۔ ان کے درست غلط فیصلے در و دیوار پر درج ہوں۔ تاریخی تصاویر کے ساتھ تو غیر ملکی سربراہوں۔ سیاحوں کو بھی احساس ہوگا کہ یہ قوم اپنے ماضی سے آنکھیں نہیں چراتی۔ اپنے گناہوں کا اعتراف بھی کرتی ہے۔ اپنی نیکیوں پر فخر بھی کرتی ہے۔ یہ دیواریں آنے والے حکمرانوں کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بھی بجائیں گی کہ ان کے غلط فیصلے بھی دیواروں پر نقش ہوں گے۔ 

آنے والی نسلیں ان کے حوالے سے اچھی یادیں نہیں لے کر جائیں گی۔تاریخ عالم کے اور اپنی تاریخ کے مطالعے کے نتیجے میں ، میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ جمہوریت آمریت کی کشمکش اور تنازع اپنی جگہ کسی حکمران کے بارے میں رائے قائم کرنے کی کسوٹی یہ ہے کہ وہ حکمران تاریخ کے جس موڑ پر مسند نشین ہوا۔ منتخب ہوکر۔ یا غصب کرکے۔ 

اس وقت ملک کو جو چیلنج درپیش تھے۔ ان سے وہ کیسے عہدہ برآ ہوا۔ کیا وہ مطلوبہ اقدامات کرسکا یا نہیں۔ عوام کو جو راحت ملنا چاہئے تھی۔ وہ میسر آئی یا نہیں۔ میری معروضی رائے یہ ہے۔ میں اس کا اظہار بلا خوف کرتا بھی رہا ہوں۔ یقیناً آپ سب کو اس سے اتفاق نہیں ہوگا۔ 

صدر جنرل ایوب خان۔ ذوالفقار علی بھٹو۔ اور صدر جنرل پرویز مشرف تاریخ کے اس معیار پر میرے نزدیک کسی حد تک پورے اترتے ہیں۔ اس پر تفصیل سے لکھتا رہا ہوں۔ بعد میں بھی اس پر بات ہوتی رہے گی۔

آج 4 اپریل ہے۔ 42 سال پہلے ایک منتخب وزیر اعظم کو سرِ دار کھودیا گیا۔ جس نے ملک کو متفقہ آئین دیا۔ آج بھی ملک اسی کے تحت چل رہا ہے۔ جس نے ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا۔ جس پر آج سب فخر کرتے ہیں۔ اور جس نے عالم اسلام کے سربراہوں کو لاہور میں جمع کیا۔ 

ایسی اسلامی سربراہی کانفرنس پھر کبھی منعقد نہیں ہوسکی۔ ضرورت ہے کہ 42 سال بعد اس کی سیاست، دانش اور انداز حکمرانی کا جائزہ نفرت یا عقیدت کی عینک کی بجائے صرف معروضی انداز میں لیا جائے۔ 

یہ خیال رہے کہ وہ پہلے اور اب تک آخری سویلین ہیں جنہیں مکمل اقتدار منتقل ہوا تھا۔ اس کے بعد اب تک صرف شراکت اقتدار ہے انتقال اقتدار نہیں ہے۔

یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ اس کے تاریخی کردار کا جائزہ اس کے دَور سے لیا جائے۔ موجودہ پی پی پی کے حوالے سے نہیں۔

اس پر بھی ہم کسی وقت بات کریں گے کہ عالمی رہنماؤں کی میراث قابل رشک کیوں نہیں ہوتی۔

تازہ ترین