• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر عمران خان حکومت کی کسی پالیسی سے مجھے دلی خوشی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ وہ کامیاب ہو تو وہ تعلیمی نصاب میں قرآن و سنت کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی تاریخ اور مسلمانوں کے رول ماڈلز اور ہیروز کو نئی نسل سے روشناس کروانا ہے تاکہ ہم نہ صرف اپنی دینی تعلیمات کو جان سکیں اور اُن پر عمل کر کے بہتر مسلمان بن پائیں بلکہ اُس روشن اسلامی تاریخ سے ترغیب لیں جب مسلمان دین کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم میں بھی سب سے آگے تھے اور اپنے ایمان، عمل، محنت، اخلاق، علم اور جذبے کی بدولت دنیا میں سب سے بڑی قوت بن کر ابھرے۔ 

عمران خان تعلیمی نصاب کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے میں بڑی دلچسپی لے رہے ہیں اور قرآن پاک لازمی پڑھانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہدایت جاری کر چکے ہیں کہ سیرت النبیﷺ کو لازمی طور پر تعلیمی اداروں میں بچوں کو پڑھایا جائے۔ 

اس سلسلے میں بہت کام ہو رہا ہے۔ میری اطلاعات کے مطابق پنجاب، خیبر پختون خوا، بلوچستان اور آزاد کشمیر میں اس سلسلے میں ضروری اقدامات اُٹھائے جا رہے ہیں لیکن سندھ ابھی بہت پیچھے ہے اور شاید وہاں کی حکومت اپنی روشن خیالی اور سیکولر سوچ کی وجہ سے اُس تعلیمی نصاب کا حصہ نہیں بننا چاہ رہی جس کے لئے باقی سارا پاکستان راضی ہے۔ 

اس بارے میں مَیں پوری معلومات لے کر پھر کبھی لکھوں گا لیکن ابھی جس مسئلہ کی طرف میں وزیراعظم عمران خان اور دوسرے ذمہ داروں کی توجہ دلوانا چاہ رہا ہوں، وہ اس طبقہ کی وہ کوششیں ہیں، جو چاہتا ہے کہ تعلیمی نصاب کو اسلامی تعلیمات کے مطابق مرتب نہ کیا جا سکے۔

 اس سلسلے میں مجھے حکومتی ذرائع سے معلوم ہوا کہ حکومت پر مختلف طریقوں سے دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ حمد و نعت اور دوسرے اسلامی مواد کو لازمی مضامین بشمول اردو اور انگریزی سے نکال کر اسلامیات میں شامل کر دیا جائے۔ اس کی تاویل یہ دی جا رہی ہے کہ غیرمسلم طلبہ کو کیوں حمد و نعت اور دوسرا اسلامی نصاب پڑھایا جائے؟ 

اس سلسلے میں آئین کی شق 20کا حوالہ بھی دیا جارہا ہے۔ میری اطلاعات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کو اس سلسلے میں ابھی تک بریف نہیں کیا گیا۔ نئے نصاب پر کام کرنے والے ایک سرکاری افسر سے میری بات ہوئی تو وہ پریشان دکھائی دیے اور کہا کہ ایک طبقہ جان بوجھ کر کنفیوژن پھیلا کر لازمی مضامین میں سے اسلامی نصاب نکالنے کی کوشش میں ہے۔

 اس سرکاری افسر کا کہنا تھا کہ قرآن پاک کو تعلیمی اداروں میں صرف مسلمان طلبہ کو پڑھایا جائے گا جبکہ لازمی مضامین میں شامل حمد و نعت بھی مسلمان طلبہ کے لئے ہی لازم ہو گی جبکہ غیرمسلم اسٹوڈنٹس کے لئے نصاب کا یہ حصہ پڑھنا نہ لازم ہو گا نہ ہی، اس بارے میں ان سےامتحان میں کوئی سوال پوچھا جائے گا۔ جہاں تک سیرت النبیﷺ کی بات ہے اور اسلامی تاریخ اور اسلامی ہیروز کے متعلق نصاب کا تعلق ہے تو میرے خیال میں تمام طلبہ کو یہ نصاب پڑھانا چاہئے کیوں کہ اس کا تعلق تو تاریخ، علم اور معلومات سے بھی ہے۔

 حضرت محمدﷺ کو پوری انسانیت کے لئے رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا گیا، اس لئے آپؐ کی اسوہ حسنہ کے بارے میں آگاہی پھیلانا ہر اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہونی چاہئے۔ ایک طبقہ اس بات پر بھی اعتراض کر رہا ہے کہ نصاب میں اسلامی تعلیمات کو زیادہ شامل کیا جا رہا ہے۔ 

اس طبقہ کو اصل مسئلہ اس بات پر ہے کہ حکومت نے تعلیمی اداروں میں قرآن پاک اور سیرت النبیﷺ لازمی طور پر پڑھانے کا فیصلہ کیوں کیا ہے؟ کچھ تو اخباروں میں لکھے گئے اپنے مضامین اور ٹی وی ٹاک شوز میں عمران خان کا جنرل ضیا سے تقابل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عمران خان نے تو تعلیمی نصاب کو ضیاء الحق سے بھی زیادہ اسلامی کر دیا۔ 

کوئی پوچھے کہ ایک اسلامی ملک میں اگر بچوں کو اسلام نہیں پڑھایا جائے گا تو اُنہیں کیا کوئی دوسرا مذہب پڑھایا جائے؟ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اعتراض نصاب میں شامل کسی دوسرے مضمون اور مواد کے بارے میں نہیں بلکہ صرف اسلام پڑھانے پر ہے۔ میری تمام ریاستی ذمہ داروں، سیاسی جماعتوں اور اسلامی حلقوں سے گزارش ہے کہ اس سلسلے میں حکومت کا ساتھ دیں۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین