(گزشتہ دنوں آرٹس کونسل، کراچی میں منعقدہ سندھ لٹریچر فیسٹیول کے افتتاحی اجلاس میں معروف اسکالراورڈائریکٹر، انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ ،ڈاکٹر سید جعفر احمد نے کلیدی خطبہ بہ عنوان ’’سندھ: تہذیب سے تمدّن کے سفر کی دشواریاں‘‘، کے عنوان سے پیش کیاجسے ذیل میں قارئینِ ’’جنگ ‘‘کے مطالعے کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔)
خواتین و حضرات! سندھ لٹریچر فیسٹیول کا یہ سلسلہ میرے خیال میں دو حیثیتوںکاحامل ہے ۔ اوّل، اس کے ذریعے ہمیںسندھ کی تاریخ و تہذیب کے مختلف مدارج اوراس کا ارتقائی سفرسمجھنےکا موقع ملتا ہے۔دوم، اس علم اور آگہی کے پہلو بہ پہلو اس فیسٹیول میں ہم اُن کام یابیوں اور کام رانیوں کی خوشیاں مناتے ہیں جو سندھ نے ماضی اور حال میں فنونِ لطیفہ اور صنعت وحرفت کے شعبوں میں حا صل کی ہیں ۔
تاریخ اور سماجی علوم کے ایک طالب علم کی حیثیت سے اس موقعے پر اظہارِخیال کےلیےجو موضوع میرے ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم زرا یہ دیکھیں کہ سندھ میں تہذہب سے تمدّن کی طرف سفر کی رفتارکیارہی ، یہ سفرکن دشوار گزار راستوں سے ہواہےاور آج اس سفر کو کن آزمائشوں کا سامنا ہے۔ معروف محقّق اور ترقّی پسند دانش ور،سیّدسبطِ حسن نے اپنی مشہور کتاب’ ’’پاکستان میں تہذیب کا ارتقا‘‘ میں وادیِ سندھ کی قدیم تاریخ کا احاطہ کرتے ہوئے جب دیہی معاشرت کے شہری معاشرت کے قالب میں ڈھلنے کا ذکرکیاتواس تبدیلی کو بڑے خوب صورت پیرائے میں بیان کرتے ہوئے لکھا کہ وادیِ سندھ کی دیہی تہذیب نے تمدّن کا لباس ِ فاخرہ پہن لیا ۔ تہذیب سے تمدّن کا سفر تاریخ کے طالب علموں کے لیے ہمیشہ بڑا فکر انگیز موضوع ثابت ہوتا ہے۔بڑا وقیع،علمی سرمایہ اس موضوع پر موجود ہے کہ دیہی معاشرت شہری معاشرت میں کس طرح ڈھلتی ہے۔
یہ صرف چند مظاہر کا مطالعہ نہیں ہوتا بلکہ اس کی بنیادوں میں سماجی رشتوں کی تبدیلی کا مطالعہ جاگزیں ہوتا ہے۔ماہرینِ علوم ِ عمرانیات نے کلچر، تہذیب،تمدّن اور civilizationکی اصطلاحوں میں ایک عرصہ الجھے رہنے کے بعد اب ایک واضح ذہن بنالیا ہے ۔انگریزی کی اصطلاح’’کلچر‘‘کو اب اردو میں بھی یا تو کلچر ہی کہا جانے لگا ہے یا اس کےلیے اردوکا لفظ’’تہذیب‘‘ استعمال ہوتاہے۔ انگریزی میں جس چیزکوcivilizationکہتے ہیں اس کے لیے اردو میں تمدّن کی اصطلاح مخصوص کر دی گئی ہے ۔
تمدّن،تہذیب اورکلچرکی وہ ترقّی یافتہ شکل ہے جو انسان کے شہروں میں آباد ہوجانے کی صورت میں وجود میں آتی ہے۔اور بھی آسان الفاظ میں کہنا چاہیں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دیہی معاشرت مدنی یا شہری صورت اختیارکرتی ہےتو اس شہرکاری (urbanization) کے نتیجے میں سماجی رشتے بھی بدلتے ہیں،تخلیقی اظہارکےنئے مظاہر سامنے آتے ہیں اورایک نیا طرزِ فکر و احساس جنم لیتا ہے۔اس تبدیلی کا ایک بڑا بنیادی حوالہ یہ قرار پاتا ہے کہ جب ایک سرزمین میں تہذیب سے تمدّن کی طرف سفر ایک خاص انداز میںطےہورہا ہوتا ہےتو دیگر ہم عصر معاشروں میں اس کی نوعیت کیاہوتی ہے؟ہم عصر تہذیبوں کاتقابلی مطالعہ ہمیں غوروفکر کا بے پایاں سرمایہ فراہم کرتا ہے۔
ماضی میں سندھ کے تہذیبی رشتے
علی گڑھ یونیورسٹی کے فاضل پروفیسر، عرفان حبیب نے ’’ہندوستان کی عوامی تاریخ‘‘ (People's History of India)میں وادیِ سندھ کی قدیم تہذیب کا موازنہ سمیری اور مصر کی قدیم تہذیبوں کے ساتھ کیا ہے۔نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے ان تہذیبوں کے روابط پر بھی روشنی ڈالی ہے۔جہاں تک وادیِ سندھ کی تہذیب، بالخصوص اس کے دوشہروں، موہن جو دڑو اور ٹیکسلا کے طرزِ تعمیر،شہروں کی منصوبہ بندی،صاف و ہم وار گلیوں ،نکاسیِ آب کے نظام، گوداموں، تالابوں، آلات و اوزار، غرض وہ سب چیزیں جن سے ایک شہری تمدّن وجود پاتا ہے،کا تعلق ہے، ان کے بارے میں تو بے شمار تفصیلات وادیِ سندھ کی ابتدائی دریافتوں کے ساتھ ہی سامنے آنے لگی تھیں۔
لیکن بعد کے برسوں میں جب ماہرین ِ آثارِ قدیمہ اور عہدِ قدیم کی تاریخ پر تحقیق کرنے والے مورخین کے مطالعے سامنے آنا شروع ہوئے تو یہ چشم کشا حقیقت بھی واضح ہوئی کہ عہدِ قدیم کی بعض ہم عصر تہذیبوں کے درمیان تعلقات کار نہ صرف موجود تھے بلکہ یہ تعلقات اُن تہذیبوں سے وابستہ انسانوںکی زندگیوں پر گہرے طور پر اثر انداز بھی ہوتے تھے۔
چناں چہ آسٹریلیا کی کینبرا یونیورسٹی میں ایشیائی تہذیبوں کے پروفیسر اور معروف تاریخ نویس، اے ایل باشم (A.L.Basham) نے اپنی انتہائی قابلِ قدر تصنیف ’’حیرت کدہ ،جو ہندوستان تھا‘‘(The Wonder that was India)میں قدیم وادیِ سندھ کے،دجلہ و فرات یا میسوپوٹیمیا کی سمیری تہذیب کے ساتھ تعلقات کے کئی پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے۔انہوں نے لکھا کہ بحری یا زمینی راستوں سے وادیٔ سندھ کی اشیا میسوپوٹیمیا پہنچتی تھیں۔
وادیِ سندھ کی مخصوص مُہریں اور بعض دیگر اشیاء سمیرکی کھدائی میں اُن تہوں میں ملیں جو دو ہزار تین سو قبل مسیح اوردو ہزار قبلِ مسیح کی درمیانی مدّت سے متعلق تھیں۔اے ایل باشم کا یہ بھی کہنا ہے کہ سمیر سے سندھ کو ہونے والی برآمدات بہت کم تھیں اور جو تھیںوہ قیمتی دھاتوں اورخام موادپرمشتمل تھیں ۔ سمیر میں وادیِ سندھ کی مُہروں کے ملنے سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ سندھ کے کچھ تاجر سمیر میں بس گئےتھے۔
ان تاجروں کا اہم ترین مالِ تجارت کپاس تھی جو ہندوستان کی خاص برآمدی شے تھی جس کی پہنچ بابل تک ہوچکی تھی۔سندھ اور سمیر کے رشتے نے تجارت سے بڑھ کر ان کے اصنام اور ہیروزکی مماثلت میں بھی اظہارپایا۔چناں چہ وادیِ سندھ کی ایک مُہر پر ایک ہیروکا عکس کندہ ہے جو دوشیروں سے نبردآزما ہے۔ یہ عکس سمیر سےملنے والی اُس مُہرسےبہت قریب ہےجس پر کندہ ہیرو،گل گامش دو ببر شیروں کا مقابلہ کررہا ہے۔
ہمارےخِطّے کے، باہر کی دنیا کے ساتھ استوار ہونے والے تہذیبی رشتے اور ان رشتوں کے طفیل دنیا میں ہماری سرخ روئی کا عمل شاید سست رفتار رہا ہو،حالاں کہ یہ رفتاربھی مادّی حالات ہی کی مرہونِ منت تھی، مگر دوسری تہذیبوں کے ساتھ ماضی کے دوطرفہ فیض بخش رشتوں میں بڑا خلل اُس وقت واقع ہوا جب سندھ، باقی ماندہ جنوبی ایشیا کی طرح استعمارکےتسلط کاشکار ہوا۔
تب ایک نو آبادی کی حیثیت سے سندھ ایک خام مال اور غذائی اجناس فراہم کرنے والاخِطّہ بن کر رہ گیا۔ جو چیزیں برطانوی استعمار کو یہاں سے درکار تھیں، وہ سندھ(باقی ماندہ برّ ِصغیر کی طرح)فراہم کرتا رہا۔ یہاں تعلیم کے نظام کا مقصد بھی استعمار کو انتظامی کل پرزے تیّارکرکے دینا تھا۔وہ علم اورتحقیق جو آزادانہ فضا میں،معاشرے کی ترقّی کا موجب بنتی ہے،ہمارا خِطّہ اُس سے محروم رہا۔
اصولاً اس صورت ِ حال کو آزادی کے بعد بدل جانا چاہیے تھا،مگر ہماری آزادی حکم رانی کے رنگ اورحکم رانوں کی رنگت میںتبدیلی سےآگےنہیں بڑھ سکی۔اب ہم ایک جدید نوآبادیاتی ریاست تھے جس کی اقتصادی پالیسیاں عالمی بینک،بریٹن وڈز (Bretton Woods) اور آئی ایم ایف کے احکام کی بنیاد پر بننا قرار پائیں۔ ملک کاتعلیمی نظام اور دیگر شعبوں کی حکمت عملی بھی ان ہی عالمی اداروں کی ہدایات کی مظہر ثابت ہوئی۔ یہاں تک کہ ہم نے اکیسویں صدی میں پہنچتے پہنچتےخود کو بڑی شدّومد کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے عالم گیریت کے دور میں پایا۔
قدامت اپنی جگہ، ہم جدید کتنے ہیں؟
اس دوران ، آزادی کے بعد ہی سے ایک اور رجحان ہمارا شریکِ سفر بن گیا۔ہم اپنی تین، ساڑھے تین ہزار سالہ تاریخ ہی کے انکاری بن گئے ۔ہم نے اپنی تاریخ کی قدامت کو غیر ضروری سمجھا اورسرکارکی ایما پر آٹھویں صدی عیسوی میں عربوں کی سندھ آمد ہماری تاریخ کا اساسی اور بنیادی نقطہ قرار پایا۔اس سرکاری تاریخ نویسی کے جو نقصانات تھے وہ تو سب باشعور لوگوں پرعیاں تھے۔ لیکن اس کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہوا کہ خود آزاد خیال مفکّر اور تاریخ نویس بھی، جنہوں نے سرکاری تاریخ نویسی کی تنگ نائے کو چیلنج کرنے کی ضرورت محسوس کی ، وہ بھی پھر صرف سندھ کی تاریخ کی قدامت پرہی زور دیتے رہ گئے۔
آج بھی صورت حال یہ ہے کہ یا تو ہم آٹھویں صدی میں پھنسے ہوئے ہیں یا صرف اس میںتفاخرمحسوس کرتے ہیںکہ ہماری تاریخ تین ہزارسال یا اس سے بھی پرانی ہے ۔اپنی تاریخ کی قدامت پر تفاخر فطری سی بات ہے،لیکن ہمارےلیے اس سوال کا بھی ہر وقت جواب دیتے رہنا بہت ضروری ہے کہ ہم قدیم تو ضرورہیں،لیکن جدید بھی ہیں یا نہیں؟ ان معنوں میں دیکھیں تو پچھلے سو ڈیڑھ سو سال کی سندھ کی تاریخ تقاضا کرتی ہے کہ اس کا زیادہ گہرا مطالعہ کیا جائے۔ کولونیل دور میں سندھ پر کیا گزری، اسے بھی مطالعۂ تاریخ کا حصہ بنایا جائے اور پھر آج کے دور کے بارے میں سوچا جائے کہ وادیِ سندھ کی تہذیب اگرسمیر، مصر یا یونان کی تہذیبوں کےہم پلّہ تھی تو آج کا سندھ یورپ ، امریکا اور مشرقِ بعید کے ترقّی یافتہ ملکوں کے ہم پلّہ کیوں نہیں ہے؟
ماضی اور حال کے درمیان اگرکوئی مکالمہ دریافت نہ کیا جائے اور ہم عصر معاشروں سے اپنی معاشرت کا موازنہ نہ کیا جائے تو تاریخ کتابوں میںمحفوظ بیانیوںسےزیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔لہذامیں سندھ لٹریچر فیسٹیول میں یہ سوال احباب کے سامنے غور و فکر کے لیے رکھنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں کہ آئیں، دیکھیں قدامت پر بجا طورپر فخر کرنے والے ہم لوگ کتنے جدیدہیں اور ہمارا خِطّہ کتنا جدید ہے ؟ہم اکیسویں صدی کے دو عشرےگزار چکے ہیںتوکیا واقعی اکیسویں صدی ہمارے یہاں آچکی ہے یا ہم اب بھی دو تین صدیاں پیچھے کی زندگی گزار رہے ہیں؟
آج دنیا کہاں ہے، ہم کہاں ہیں؟
تہذیب سے تمدّن تک سفر کے ضمن میں ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ اس بات پر غور کریںکہ آج ہماری شہری معاشرت کے خدوخال کیا ہیں؟ہمارے یہاں شہرکاری کا انداز( pattern of urbanization)کیا ہے ؟ ہمارے شہر اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں کتنے صنعتی بن سکے ہیں؟ ہمارے یہاں شہروں میں انسانی رشتوں کی نوعیت کیا ہے ؟ ہماری تخلیقات اظہار کے کون سےاسلوب اختیارکررہی ہیں؟ بات کو زرا اور وضاحت سے سمجھنے کے لیے شاید یہ کارآمد ہوکہ ہم دیکھیں کہ دنیا کے اور ترقّی یافتہ شہرکس قسم کے مظاہر پیش کرتے ہیں؟ان شہروں نے صنعتی دورسےجست لگاکرڈیجیٹل عہدمیںقدم رکھ لیاہے اوراب اس شعبے میں بھی ان کی کام رانیاں نت نئی شکلیں اختیارکررہی ہیں۔
یورپ کا کوئی بھی بڑا شہر ہو،لندن ہو یا پیرس ، فرینکفرٹ ہو یا وینس،میڈرڈ ہو یاسا لزبرگ ، ہر شہر غیر معمولی تہذیبی سرگرمیوں کا حامل نظرآتا ہے اور یہ بات ان شہروں میں قدم رکھتے ہی سامنے آجاتی ہے ۔ان شہروں میں جدید انفرااسٹرکچراوراختراعات و ایجادات میں ہمہ وقت مصروف تحقیقی ادارے اور جامعات ہی نہیں ہیں بلکہ یہاں تھیٹر ،سنیما،میوزیم ، کنسرٹ ہال، خوب صورت باغ، بچّوں کے کھیلنے کے میدان ہیں اور ان سب کے وسیلے سے زندگی کا ایک تحرّک اور ایک وفور ہمارے سامنے آتا ہے ۔ انسان کی تخلیقی صلاحیّتوںکا اظہارہوتاہے۔ایسا معلوم ہوتاہےکہ واقعی تہذیب نے تمدّن کا بیش قیمت لبادہ اوڑھ لیاہے ۔
آئیں، اپنے ملک کے اور خاص طور سے ملک کے سب سے بڑے شہر،جو سندھ کا دارالحکومت بھی ہے، یعنی کراچی ، پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔شہرکا انفرااسٹرکچر سب کے سامنے ہے۔ٹوٹی ہوئی سڑکیں، ڈھکنوں سے محروم گٹر، کچرا کنڈیاں جو ہفتوں غلاظت اورکچرے سے لبریز رہتی ہیں،شہر کے گندے پانی کے نالے جو سمندر میں گرتے تھے،اب نالوں کے بند ہوجانے کے سبب اپنا غلیظ پانی سڑکوں ، گلیوں اور مکانوں کے اندر پہنچا رہے ہیں۔
شہر کسی منصوبہ بندی سے عاری ،ایک انتشارِمحض کی تصویربن چکاہے۔ایک زمانےمیںکراچی میںتھیٹر ہوا کرتے تھے، وہ اب نہیں ہیں ۔سنیما ہائوس ہوتے تھے، اب ان کی جگہ دکانیں بن چکی ہیں۔کتابوں کی دکانیں ایک ایک کرکے ختم ہوچکی ہیں ۔ان میںسے بیش ترمیں گودام بن چکے ہیں اور اگرکتابوں کےنام پر دکانیںہیںبھی تو اکثر میں کتابیںکم اور اسٹیشنری کا سامان زیادہ ہے۔کھیل کے میدان چائناکٹنگ کی نذر ہوچکے ہیں۔
آرٹس کونسل اور ناپا ،یا یہ ایک،دو فیسٹیول نہ ہوںتو شاید یہ شہر ایک ویران سرائے کا منظر پیش کرے۔اب شہر میں ایک اور طرح کی فصل پک رہی ہے ۔مراقبہ ہال ہیں جن کے باہرچِنگ چی رکشے اور مرسڈیز گاڑیاں ، دونوں ہی قطار،در قطار کھڑی نظر آتی ہیں ۔ پیرس اور لندن کے ٹیوب اسٹیشنوں میں،چائے خانوں اور ریستورانوں میں کلاسیکی مصوّروں کی پینٹنگز کے پوسٹرچسپاں ہوتے ہیں ۔بلوچ کالونی کے پُل کے ایک طرف سے دوسری طرف چلے جائیں تو پُل کے دونوں طرف موجود دیواروں پر چند دوسری اہم شخصیات کے نام پڑھنے کو ملتے ہیں اور یہ ہیں،جنید بنگالی،پرکاش بنگالی، امّاں بنگالن، دائود بنگالی، عامل بابا فخردین بنگالی ، بابا پنڈت وشنو بنگالی اور صدیق بنگالی۔
یہ وہ لوگ ہیں جو شہریوں کے جملہ مسائل حل کرتےہیں۔یہ کالےجادوکاتوڑ کرتے ہیں ، زندگی میں درپیش ہونے والی بندشیں ختم کرتے ہیں۔ملازمتیں دینا ان کے لیے چند پھونکوں کا کام ہے۔یہ محبوب کو قدموں میں لا بٹھاتےہیں۔بُری ساسوں سے بہوئوں کو اور بُری بہوئوں سے ساسوں کو نجات دلواتے ہیں۔غرض، جملہ مسائل کا حل ان کی نیم تاریک دکانوں میں مل جاتاہے۔میں نے ایک طالبِ علم سے مدد لیتے ہوئے پچھوایا تو معلوم ہوا کہ ان میں سے کوئی بھی بنگالی نہیں، یہ سب پنجابی ،اردو بولنے والے ، سندھی ،پختون،بلوچ اورسرائیکی ہیں۔
غرض،وفاقِ پاکستان کی پوری نمائندگی اس سفلی اور کالے’’ علوم ‘‘ کی دنیا میں ہورہی ہے۔ہمارے وفاق نے بنگال کو تو دھکّے دے دے کر خود سے دُورکیا، لیکن بنگال کی ایک سوغات اپنے لیے رکھ چھوڑی۔ جو لوگ ان روحانی بیماریوں میں مبتلا نہیں ہیں وہ سب جسمانی بیماریوں کا شکار ہیں اور ان کے لیے حکیموں اور دیگر معالجین کی خدمات بھی شہر کی دیواروں کے وسیلے شہریوں کے علم میں آجاتی ہیں۔
سائنس سے لاتعلّقی، ٹیکنالوجی کے لیے بے چینی!
سوال یہ ہے کہ ہمارا شہرحقیقی معنوں میںصنعتی شہر کیوں نہیں بن سکا۔گوکہ حکومت سندھ کے اعدادوشمارکےمطابق صوبے میں دو ہزار سے زاید صنعتیں موجود ہیں۔ ادارہ شماریات کے مطابق پینسٹھ فی صدگھروںمیں ٹیلی وژن، سینتالیس فی صدمیں ریفریجریٹر، ستّاسی فی صد لوگوں کے پاس موبائل فون، انتالیس فی صد کے پاس موٹر سائیکل یا اسکوٹر ہیں ۔بہ حیثیت مجموعی شرحِ خواندگی بھی 62.2فی صدسے زیادہ ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنی جدید مصنوعات اور جدید تر وسائلِ مواصلات پر قدرت رکھنے کے باوجود جدید طرزِ فکر اور سائنسی اندازِ فکر ہمارے معاشرے میں کیوں نظر نہیں آتا ؟
جہاں تک سائنسی اندازِ فکرکاتعلق ہےتوہم نے ایک سال میں دیکھا ہے اور اس وقت بھی دیکھ رہے ہیں کہ ایک عالمی وبا کے بارے میں کیا کیا محیّر العقول خیالات ہمارے یہاں پیش کیے گئے۔کچھ نے اسےیہودیوں اور نصرانیوں کی سازش قرار دیا ۔ کچھ نے اسے اپنے کردہ اور ناکردہ گناہوں کا نتیجہ قرار دے ڈالا۔ کچھ نے اس کے وجود سے ہی انکار کردیا۔ ایک بزرگ نے رو رو کر دعا کی کہ یا اللہ اس وبا کا رخ کافروں کی طرف موڑ دے ۔اب دعائیں ہورہی ہیںکہ یااللہ ویکسین(جو کافروں ہی نے دریافت کی) جلد ہم تک پہنچ جائے ۔یہ آج کی بات نہیںہے،برسوں،بلکہ عشروں سے ہم توہّمات اور ضعیف الا عتقا د تصوّرات کے گرداب میں ہیں ۔
نہ ہمارے الیکٹرانکس کے آلات،نہ ہمارے زیر استعمال مشینیں ، نہ ہماری گاڑیاں اور ٹریکٹر اور نہ ہمارے کمپیوٹر ہمارے خیالوں کو آزاد کرسکےہیں ۔پروفیسرخواجہ مسعود نے بڑے پتے کی بات کہی تھی کہ جن معاشروں میں ٹیکنالوجی ، سائنس سے پہلے پہنچ جائے وہ معاشرے آرام و آسائش سے تو ہم کنار ہوجاتے ہیں، لیکن رہتے تقلید کے خوگر ہی ہیں۔سائنس عقل کو بنیاد بناتی ہے،فطرت کے قوانین کو مشاہدے، تحقیق اور تجربے کے ذریعے سمجھنے کا راستہ دکھاتی ہے۔ لیکن سائنس سے لا تعلق رہتے ہوئے ٹیکنالوجی کاحصول ، نئی نظر فراہم کرتاہے اور نہ ہی روایتی اور دقیانوسی خیالات کی تکذیب کرتا ہے،بلکہ اس کے نتیجے میں معاشرے میں ضعیف الاعتقادی ختم نہیں ہوتی، بڑھ جاتی ہے ۔ یہی ہمارا آج کا المیہ ہے۔
آج ہمارا شہر اسی ضعیف الاعتقادی کی زد میں ہے ۔دوسری طرف ایک اہم بات یہ ہے کہ ہم جس سرمایہ دارانہ نظام میں جی رہے ہیں اس نظام کو کسی شئے کے اچھا یابُرا ہونے سے غرض نہیں بلکہ وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ کیا چیز بِکتی ہے اورکس چیز سے مالی منفعت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس نظام نے پہلے عورت کو ایک ادنیٰ مخلوق تصوّر کرتے ہوئے ، اس کی بے لباسی کو مالی منفعت کے لیے استعمال کیا ۔اُن مصنوعات کا بھی ، جن کا کوئی تعلّق عورت کی صنف سے نہیں تھا، انہیں فروخت کرنے کے لیے عورت کواشتہارات میں استعمال کیا۔
پھر جب ایک انتہا کا ردعمل دوسری انتہا کی شکل میں آیا اور بعض حلقوں کی جانب سے یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ معاشروں کی ساری اباحیت عورت ہی کی وجہ سے ہے اور یہ کہ اب اسے برقعے میں رہنا چاہیے ،تویہ دیکھا گیا کہ اس کُلیے کو ماننے والے بھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ چناں چہ حجاب بھی ایک صنعت بن گیا۔ہمیں حیرت نہیں ہوتی جب ہم حجاب کے نت نئے اشتہارات دیکھتے ہیں ۔آئے روز حجاب کےبھی فیشن متعارف ہورہے ہیں۔یہاں تک کہ اب حجاب میں ملبوس نیک بیبیوں کی کیٹ واکس بھی شروع ہوچکی ہیں۔
سائنس سے لاتعلّقی اور سائنسی طرزِ فکر و احساس سے محرومی نے صرف یہی نہیں کیا کہ ہمیں ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کی راہ پر لگادیا،ہماری رجعت پسندانہ سوچ کو مستحکم کیا اور ضعیف الاعتقادی کو ماضی کے مقابلے میں زیادہ راسخ کردیا بلکہ سائنسی سوچ کے فقدان نے ہمیں چیزوں کی اصل قدرسمجھنے اورمحسوس کرنے کے لائق بھی نہیںچھوڑا۔ہماری زندگیاں ایسی ڈگر پر گام زن ہیں،جس کی سمت کا ہمیں ادراک تک نہیں ۔ صورت یہ ہے کہ’’ رَو میں ہے رخشِ عمر کہاں دیکھیے تھمے، نَے ہاتھ باگ پہ ہے ، نہ پا ہے رکاب میں‘ ‘۔
تہذیب سے تمدّن کی سمت سفر میں ہماری یہی بے خبری ، اور شعور ناآشنائی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ماضی پر نظر ڈالیں تو تاریخ میں جب جب ہم نے اپنی آنکھوں کو کھلا رکھا، اپنی استعدادبہ روئے کار لائے ، وہ زندہ حرف تخلیق کیے، جو دنیا کو اپنی طرف متوجّہ کرسکتے تھے ، تو ہمیشہ ایسے موقعوں پر ہمارا دوسری دنیا کے ساتھ ایک بامعنی تعلق استوار ہوا ۔
دنیا کو باور ہوا کہ وہ ہی ہمارے لیے فیض بخش نہیں ہے بلکہ ہم بھی اُس کے لیے فیض کا ذریعہ ہیں۔تاریخ میں ایسی صدیاں گزریں جب یورپ تاریک عہد سے گزر رہا تھا اور عربوں نے اسی زمانے میں نہ صرف قدیم یونانی افکار سے استفادہ کیا بلکہ انہیںتنقیدکی کسوٹی پرپرکھا،ان میں اضافہ کیا۔انہوں نے ان افکار کو اپنے عہد کے مطابق مفیدِمطلب بنایا اور پھر جب یہی افکار ایک مرتبہ پھر مغرب میں پہنچے تو یہ وہاں نشاۃ الثانیہ کا اہم وسیلہ ثابت ہوئے۔
یہیں سے یہ حقیقت بھی واضح ہوئی کہ دو تہذیبیں آپس میں تعلق قائم کریں، آپس میں مکالمہ کریں ، تو دونوں کو اس کا فائدہ پہنچتاہے ۔لیکن اس بامعنی تعلّق کے لیے ضروری ہے کہ دونوں کے پاس ایک دوسرے کو دینے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور ہو۔ بدقسمتی سے مسلم معاشرے اپنے سماجی نظاموں کے زیر ا ثر، خاص طور سے فیوڈل معاشرے کے استحکام کے بعداور استعمار کی غلامی کے زمانے میں علم اورفکرکی تخلیق سے دور ہوتے چلے گئے ۔تب ان کے پاس دنیا سے لینے کےلیےتوتھا، لیکن دینے کے لیے کچھ زیادہ نہیں تھا ۔یہ ہی نہیں بلکہ جب مسلم معاشرے استعمار کے تسلّط کا شکار ہوئے تو اُن کی رہی سہی خوئےتحقیق بھی ماند پڑگئی۔اور وہ جو اقبال نےکہاتھا’’ بندگی میں گُھٹ کے رہ جاتی ہے اِک جوئے کم آب‘‘،تو یہی ہمارے ساتھ ہوا۔
عالم گیریت کا جبر
آج ہم عالم گیریت کےدور میں رہ رہے۔ یہ ہمارے زمانے کی سب سے بڑی، سب سے نمایاں حقیقت بن کر ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی پر اثر انداز ہورہی ہے۔تاریخی نقطۂ نظر سے گلو بلائزیشن کوئی آج وجود میں آنے والی صورت ِ حال یا رجحان یا آج کا عالمی مظہر (phenomenon) نہیں ہے۔ یہ چار پانچ صدیوں سے جاری رجحان ہے ۔لیکن اس کی یہ سبک رفتاری ہمارے زمانے کا واقعہ ہے۔عالم گیریت کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی عوامل اور مظاہر بھی ہیں مگر اساسی طورپر اس کا محرّک اقتصادی ہے۔یہ رجحان سرمایے کے فروغ اور سرمایہ دارانہ نظام کے وسعت حاصل کرنے سے عبارت ہے۔
لہٰذا اس کی شروعات بھی سرمایہ دارانہ نظام کے آغاز کے ساتھ ہی ہوچکی تھی ۔ سرمائے کی سرشت میں ہے کہ یہ پھیلنا، آگے بڑھنا اوردوردرازخِطّوں تک اپنی عمل داری قائم کرنا چاہتا ہے ۔چارپانچ صدیوں سے یہ اس روش پرکار بند تھا، رکاوٹیں دُورکررہا تھا، بندشیں ناکام بنا رہا تھا۔ ہمارے عہد تک پہنچتے پہنچتے یہ بیش تر رکاو ٹیں دُورکرچکاہے،قومی ریاستوںکی اقتصادی سرحدیں نرم پڑتی جارہی ہیں ، سرمایے کی ایک سے دوسری جگہ منتقلی آج جتنی آسان اور معمول کی چیز بن چکی ہے،اتنی پہلےکبھی نہیں تھی ۔ نئی کرنسیاں وجود میں آرہی ہیں جن کی کوئی قومی شناخت نہیں ہے،یہ مختلف ملکوں میں استعمال ہوتی ہیں ۔
یہ ہی نہیں،بلکہ اب کاغذ کی کرنسی کا دور ختم ہورہا ہے۔پلاسٹک کے کارڈ کرنسی کی نمائندگی کررہے ہیں اور دنیا بھر میں زیر استعمال ہیں۔اب آن لائن ادائیگیاں ہورہی ہیں۔ آن لائن ہی کرنسیوں کے تبادلے ہورہے ہیں۔ مواصلات کے نت نئےزرائع نے دنیا کو جوڑ دیا ہے۔ معلومات کی ترسیل لمحوں میں ہو رہی ہے۔ معلومات کا جتنا خزانہ آج بنی نوع انسان کے پاس پہنچ چکا ہے ، اتنا پہلے کبھی نہیں تھا۔صدیوں کا علم کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ کا ایک بٹن دبانے سے نظروں کے سامنے آجاتا ہے ۔
اس محیر العقول عالم گیریت کے جہاں ان گنت فیض بخش مظاہر ہیں وہیں یہ بھی ہے کہ اس میں ایک طرح کا جبر، ایک جارحیت بھی شامل ہے ۔یہ ایک ایسے نظام کی ترقی یافتہ شکل ہے جس میں سرمائےکی حرکیات بنیادی کردار کی حامل ہے۔ اس نظام میں آغاز ہی سے سرمایہ ، انسان پر مقدّم رہا ہے اور اب جب یہ سرمایہ سر چڑھ کر بول رہا ہے تو اس کی، ہرشئے کو مغلوب کرلینے کی سرشت بھی کہیں زیادہ شدّت اختیار کرچکی ہے۔
علاقائی کلچر معدوم ہورہے ہیں ، چھوٹی زبانیں منظر سے غائب ہورہی ہیں ، انسان کی وہ اختراعات جو مقامی سطح پر اُسے صدیوں سے سہارا دیتی چلی آرہی تھیں، آناً فاناً ختم ہورہی ہیں۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان پر انسان کی حکم رانی کا وہ نظام جو اُس وقت سے چلا آرہا تھا جب سے انسانی معاشرہ طبقوں میں تقسیم ہوا تھا، وہ نظام آج سب سے زیادہ کریہہ شکل اختیار کرچکا ہے۔ وہ افراد اور خاندان، کاروباری اور مالیاتی ادارے جو عالم گیریت کے اس رجحان میں کلیدی مراکز میں فائز ہیں یا جنہیں اس پر اجارہ داری حاصل ہے ، وہی دنیا کے مالک و مختار بن چکے ہیں ۔کروڑوں انسان اب وہ زندگی گزار رہے ہیں جو اُن سے گزروائی جارہی ہے۔
عالم گیریت کو انسان دوست بنانے کی ضرورت ہے
سوال یہ ہے کہ عالم گیریت کے رجحان کی اس استحصالی جہت کا مقابلہ کیسے کیا جائے، کیسے یہ ممکن بنایا جائے کہ جدید ٹیکنالوجی سے ، استفادہ بھی کیا جائے اور سرمایہ دارانہ گلوبلائزیشن کے مُضر اور انسانیت کش پہلوئوں اور اس کے استحصالی کردار سے نہ صرف محفوظ رہا جائے بلکہ اس کا مقابلہ بھی کیا جائے۔اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ معاشرے میں انصاف کے قیام کی انسان کی دیرینہ خواہش اور عہد ساز کوششیں تج دینے کے بجائے ، انہیںمہمیز دی جائے۔ان میں جدّت لائی جائے ،ان کوششوں کا دائرہ زیادہ سے زیادہ اُن لوگوں تک پھیلایا جائے جو آج انسانیت کش اور ذلت آمیز حالات میں زندگی گزارنےپر مجبورکردیے گئے ہیں ۔
عالم گیریت کو وسیع تر انسانیت کے لیے مفید بنایا جاسکتا ہے ، لیکن سب انسانوں کے لیے یہ فیض بخش اُس وقت ہی بن سکے گی جب وہ لوگ جو آج اس کے عتاب کا شکار ہیں، آج کی جدید ایجادات اور اختراعات کو ایک منصفانہ معاشرے کے قیام کے لیے صرف استعمال ہی نہ کریں بلکہ خود بھی اس لائق ہوں کہ نئے راستے نکالیں ، نئی اختراعات پرقادر ہوں اورعالم گیریت کو ایک عوام دوست رُخ فراہم کرنے کے قابل بن سکیں ۔
آئیں ،بات کو ایک مرتبہ پھر اپنے خِطّے کی طرف لے آتے ہیں۔تہذیب سے تمدّن کی سمت سفر میں عالم گیریت کی موجودہ نہج، موجودہ جارحانہ روش،ایک بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی ہے ۔ ہمارا ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دنیا جب گلوبل ہوئی اور اس کے گلوبل ہونے میں بعض خِطّوں ، ممالک اور معاشروں نے زیادہ اہم کردار ادا کیاتو اُس وقت ہم اس عالم گیریت کے محرّک نہ بنے، نہ ہمارے پاس کوئی اپنی سائنسی تحقیق تھی، نہ ہم نے ٹیکنالوجی میں اپنی کوئی کارکردگی دکھائی تھی، نہ سرمایہ ہمارے پاس تھا جو اس عالم گیریت میں اپنا بھی کوئی حصہ ڈالتا۔
لہذا ہوا یہ کہ قبل اس کےکہ ہم عالم گیریت کےمحرّکین میں شامل ہوتے، اپنا کچھ مال مسالہ لے کر جاتے اور اس عالم گیریت کو بڑھاوا دینے میں کوئی حصہ لیتے، اس نے ہمیں آلیا۔ ہمارے لیے یہ عالم گیریت کم ازکم پہلے مرحلے میں تو بیرونی حملہ ہی تھی، حملہ نہ کہنا چاہیں تو بیرونی طور پر ہم کوحلقہ بہ گوش کرلینے والا اقتصادی و تہذیبی رجحان کہہ لیجیے۔ دوسرے مرحلے میں ہم اس کا حصّہ بنے تو ہماری حیثیت اس عالم گیریت کو قبول کرلینے والے، اس کا کارندہ بن جانے والے حصّے دار کی تھی۔
ہم عالمی سطح پر پھیلنے والی کھلی منڈی کے صارف بنے ، دوسری دنیا کی مصنوعات کے خریدار بنے۔عالمی منڈی کی افرادی قوّت بنے، دوسرے ملکوں میں اپنی قوّتِ محنت کو فروخت کے لیے لے جانے والے محنت کش بنے۔ اور ان ساری خدمت کے عوض مل جانے والی تھوڑی بہت خوش حالی سے شاداں و فرماں ہوتے رہے۔ لیکن ہماری اپنی تخلیقی صلاحیتیں کیا ہوئیں؟ہماری اپنی بھی ایجادو اختراع کی کوئی فیکلٹی تھی یا قدرت نے ہمیں تخلیق اور تحقیق کی صلاحیتوں سے بالکل ہی تہی رکھا تھا؟
تہذیب سے تمدّن کی طرف سفر میں ایک دوسری بڑی رکاوٹ خود ہمارے اداروں کا کردار اور اُن کی سوچ ہے ۔یہ ادارے جدید شہریت کی طرف سفر میں معاون ہونے کے بجائے اس میں رکاوٹ کا ذریعہ بن رہے ہیں ۔چناں چہ بجائے اس کے کہ آئینی اور جمہوری طریقوں سے معاشرے کے ساتھ جڑتے، یہ ادارے خود کو معاشرے سے بلند تصوّرکرتے ہوئے اسے صرف کنٹرول کرنے کی حکمت عملی پر کاربند ہوتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں یہ لوگوں میں تقسیم کو ختم کرنے اور اور اُن کے درمیان جمہوری معاملت کا ذریعہ بننے کے بجائے عوام کے حلقوں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ لیکن بہ حیثیت مجموعی اس حکمت عملی کا نتیجہ ریاست کی رِٹ کے خاتمے کی شکل میں نکلتا ہے اور جب یہ رِٹ ختم ہوتی ہے تو پیدا ہونے والے خلا کو مافیاز پُر کرتے ہیں ۔ملک کے عموماً اور سندھ کے بڑے شہر خصوصاً ،مافیائوں کی زد میں آچکے ہیں لہٰذا شہروں کی فطری نشوونما نہیں ہوپارہی۔
مندرجہ بالا اُمور کے علاوہ ہم تعلیم اور سیاست کے موضوع پر بھی علیحدہ سے تفصیلی گفتگو کرسکتے ہیں۔ لیکن جن تین امور کی طرف نشان دہی کی گئی ہے یہ بنیادی نوعیّت کے حامل ہیں اور سندھ کے شہروں کے حقیقی تمدّنی مراکز بننے کے نقطہ نظر سے ان اُمور پر غور کرنا شاید کارآمد ثابت ہو۔