• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کی منگل کے روز وفد کے ہمراہ پاکستان آمد کو اس اعتبار سے اسلام آباد ماسکو تعلقات میں اہم پیش رفت کہا جاسکتا ہے کہ قبل ازیں برسوں سے جاری مختلف سطحوں پر ملاقاتوں، بین الاقوامی اجتماعات کے سائڈ لائن مذاکرات، رابطوں، فورموں میں ہم آہنگی کے مظاہر اور افغان امن عمل میں نمایاں کردار سمیت کئی پیش رفتیں پہلے ہوچکی ہیں۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بیان میں روس کے کسی وزیر خارجہ کی نو برس بعد وطن عزیز آمد کو دوطرفہ تعلقات کا نیا رخ قرار دیتے ہوئے واضح کیا گیا کہ اسلام آباد بتدریج وسعت اختیار کرتے ان تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتا ہے جبکہ روسی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’آج پاکستان ہمارے ملک کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم شراکت دار ہے‘‘۔ بین الاقوامی تنظیموں، بالخصوص اقوام متحدہ اور اس کے خصوصی اداروں میں دونوں ملکوں کےدرمیان مفید و ثمر آور رابطوں کا حوالہ دیتے ہوئے روسی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ماسکو اورا سلام آباد کے درمیان تعاون کی بنیاد اسٹرٹیجک استحکام اور انسداد دہشت گردی سمیت بیشتر امور پر موقف کی یکسانیت ہے۔ روسی وزیر خارجہ نے بھی ’’دی نیوز‘‘ کو دیے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان اور روس تنازعات کوا قوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق حل کرنے کےحامی ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ روس عالمی برادری کے اہم ملک اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے افغان امن عمل سمیت تیزی سےبدلتی دنیا کے متعدد مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور اس باب میں کشمیری عوام سمیت دنیا بھر کے وہ مظلوم عوام ماسکو کی طرف دیکھنے میں حق بجانب ہیں جنہیں اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق دیئے گئے حقوق غصب کئے جارہے ہیں۔ روسی وزیر خارجہ نے افغانستان میں مصالحتی عمل کے حوالے سے پاکستان کے کردار کو سراہا ہے جبکہ انہوں نے پاک روس تجارت کے حجم میں اضافے کی نشاندہی بھی کی ہے جس میں 46فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ 790ملین ڈالرز تک جاپہنچی ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ سردجنگ کے زمانے میں حریف بلاکوں سے تعلق رکھنےوالے دونوں ممالک اپنےمحل وقوع اور بدلتی دنیاکے تقاضوں کے تحت مزید قریب آئیں گے۔ افغانستان میں امن کوششوں کا جلد بار آور ہونا خطے اور عالمی امن کے مفاد میں ہے۔ پاکستان اس باب میں مقدور بھر کاوشیں ماضی سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ 18مارچ کو ہونے والے ٹرائیکا کے افغانستان سے متعلق اجلاس سے ،جس کے انعقاد کے لئے پاکستان نے سرگرم کردار ادا کیا، انٹرا افغان مذاکرات کو تقویت ملنے کا امکان ہے۔ افغان مذاکرات عمل کو وسیع تر کرنے اور نتیجہ آور بنانے کے لئے اگرچہ بہت کچھ کرنا باقی ہے مگر حالات کا رخ حوصلہ شکن نہیں۔روسی وزیر خارجہ کے دو روزہ دورے کے پروگرام میں وفود کی سطح پر مذاکرات کے علاوہ وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت اعلیٰ سول و فوجی قیادت سے ملاقاتیں بھی شامل ہیں ۔ منگل ہی کے روز روس کے ایک وفد نے وزیراعلیٰ سندھ سے ملاقات میں ایک ٹیم اسٹیل ملز کی جدید کاری کے جائزے کے لئے بھیجنے کی بات کی ہے۔ دوسری طرف روسی وزارت خارجہ کے بیان سےواضح ہے کہ پاکستان کے انرجی اور ریلوے سسٹم کی تعمیر نو کے بارے میں بھی مذاکرات جاری ہیں۔ اس کے علاوہ روسی سول ایئرکرافٹ کی فراہمی پر بھی بات کی جارہی ہے۔ کورونا سے پیدا ہونے والی صورتحال بھی یقینی طور پر دونوں ملکوں میں زیر غور ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ اسلام آباد مذاکرات کے نتیجے میں دونوں ملکوں کےتعلقات کی وسعت اور باہمی تعاون میں مزید اضافہ ہوگا۔

تازہ ترین