• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خبریں اگر درست ہیں تو اسٹیٹ بینک آف پاکستان ترمیمی بل 2021وہی بدنامِ زمانہ اینفیلڈ رائفل ہے، جس کے کارتوس پر ایک ایسے جانور کی چربی تھی جس کا نام لینا بھی حرام خیال کیا جاتا ہے اور اب قوم سے اس کو چبانے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ اگر ہم اس کی پارلیمان سے منظوری کو روکنے کے لئے ہر ممکن قوت بروئے کار نہ لائے تو خدانخواستہ ایک آزاد اور خود مختار پاکستان کو خیر باد کہہ سکتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک حکومت کا مالیاتی نمائندہ بھی ہے اور تمام بینکوں کا بینک بھی۔ بینکوں کے بینک کی حیثیت سے یہ ملکی اور غیرملکی کرنسی کی منڈی کی نگرانی اور حسبِ ضرورت اس میں خرید و فروخت بھی کرتا ہے اور حکومت کے مالیاتی نمائندہ کی حیثیت سے قوم کی دولت کا امین ہوتا ہے اور حسبِ ضرورت حکومت کو قرضہ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ بھی کرتا ہے۔ گویا یہ حکومت کیلئے کریڈٹ کارڈ کا کام کرتا ہے۔ جمہوری اصولوں کے تحت تو یہ قوم کی ملکیت ہے لیکن غلامی کی اس روش کے مطابق جو ہمارے ہاں جڑ پکڑ چکی ہے، اسٹیٹ بینک کو ایک ایسی انتظامیہ کے حوالے کیے جانے کی تجویز ہے، جو کہنے کو تو حکومت کی طرف سے تعینات ہوتی ہے لیکن حقیقت میں آئی ایم ایف کی چنیدہ ہے۔

اس تجویز کا منبع مغربی سیاسی فلسفہ کی ایک تاریخی نظریاتی بحث ہے جس میں اُن ممالک کی معیشت میں حکومت کے کردار پر اختلاف رہا ہے۔ نصف صدی بعد، 1980کی دہائی میں انگلینڈ اور امریکہ میں بہ یک وقت دو متشدد دائیں بازو کی حکومتیں بر سر اقتدار آئیں جن کا موقف تھا کہ حکومت کو معیشت سے مکمل طور پر خارج کر دینا چاہئے تاکہ نجی سرمایہ دار ہی اپنی دولت میں اضافہ کر سکیں اور نتیجے کے طور پر قومی دولت میں بھی اضافہ ہو۔ اسی تجویز کا ایک ذیلی حصہ یہ تھا کہ مرکزی بینک بھی حکومتی نگرانی اور روک ٹوک سے حتیٰ الوسع آزاد ہو، اور حکومت نہ منصوبہ بندی کرے نہ بجٹ کے ذریعہ معیشت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرے۔

مرکزی بینک کی آزادی کے حق میں دلائل سیاسی بھی ہیں اور معاشی بھی۔ سیاست کہیں کی بھی ہو، اس کا مقصد ایک عادل حکومت کا قیام ہے، جو قانون کے تابع ہو اور بلا استثنیٰ ہر شہری کا خیال بھی رکھے اور اس کو جوابدہ بھی ہو۔ ہم اب تک ایسی حکومت نہیں قائم کر پائے لیکن آنکھ بند کر کے امریکہ و برطانیہ کی پالیسیوں کی نقالی کرتے ہیں، جن کی کامیابی ایسے ہی قانون اور عادل حکومت کے قیام کی مرہونِ منت ہے۔ پاکستان میں جمہوریت عوام پر، امراء کے ذریعہ، ان امراء کے بینکروں کی ، ما ورائے قانون حکومت کا نام ہے۔ یہی وہ بنیادی حقیقی فرق ہے جس کی وجہ سے وہی پالیسی جس کے انگلستان اور امریکا میں مفید ہونے پر گفتگو ہو سکتی ہو، ہمارے معروضی حالات میں پاکستان میں یقینی طور پر مہلک نظر آتی ہے۔

ہماری سیاسی مشکل یہ ہے کہ ہم ایسے قوانین نہیں بنا سکے جو طاقتور کو پابند کر سکے۔ پارلیمان کے ارکان، بجائے ان لوگوں کی دیکھ بھال کرنے کے جن کے وہ نمائندہ ہیں، اپنی جیبیں بھر کے کسی بیرونی ملک منتقل ہونے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ اور یہ کاروبار ایسا چل پڑا ہے کہ حال ہی میں انہوں نے ایک قانون بنا ڈالا ہے جس کے تحت اب بیرونی ممالک کے شہری (جو پاکستانی شہریت کے بھی حامل ہوں) پاکستانی قوم کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔ حکومت کے باقی شعبوں کی طرح معاشی انتظامیہ کے تمام ہی قائدین ایسے افراد رہے ہیں جو قوم کو جواب دہ نہیں ہیں اور جو ایک پٹاخے کی آواز پر ملک سے باہر جانے والی پہلی پرواز پر سوار ہو جاتے ہیں۔اس صورتحال میں قوم کے نمائندوں کی یہ مجبوری کہ ان کو وقتاً فوقتاً کرسی حاصل کرنے کے لئے ووٹ لینے پڑتے ہیں۔ وہ کمزور سا کچا دھاگا ہے کہ جس پر جیسی تیسی برائے نام ہی سہی ’’حکومت‘‘ کا نام چسپاں ہے ۔ یہ ترمیم اسٹیٹ بینک کو عملی طور پر قوم کے سامنے جوابدہی کی دسترس سے باہر کر کے اس دھاگے کو مزید کمزور کرنے کی تجویز ہے۔

معیشت پر اس آزادی کا کیا اثر ہو گا؟ اس کے حق میں دلیل یہ ہے۔ اولاً یہ کہا جاتا ہے کہ جب حکومت مرکزی بینک کو اپنے بجٹ خسارے کو پورا کرنے پر مجبور کرتی ہے تو افراطِ زر میں اضافہ ہوتا ہے جو کہ مالیاتی استحکام اور دیر پا پیداواری نمو پر منفی اثر ڈالتا ہے، پھر یہ کہا جاتا ہے کہ مرکزی بینک کو حکومت سے آزاد کر کے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔اسٹیٹ بینک کو حکومت اور قانون سے آزاد کرنا سیاسی اور معاشی غلطی کے ساتھ ساتھ خاکم بدہن ملکی سالمیت کو بھی خطرہ میں ڈالے گا۔ حکومت یقیناً پیسے ضائع کرتی ہےلیکن بسا اوقات یہ اہم ترین اور نا گزیر خرچے بھی برداشت کرتی ہے۔ امن کے زمانے میں یہ کیسے مفید ہو سکتا ہے کہ حکومت کے زر مبادلہ اور ملک کے تمام محصولات و اخراجات ایک ایسے ادارے کے ذریعہ سے ہوں جو ایک تحریری معاہدہ کے تحت ہماری حکومت کے لین دین کے بارے میں غیر ملکی اداروں کو مخبری کرے؟ اور اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو کیا ہم ایسے وقت میں ملک کا بہتردفاع کر سکیں گے جبکہ ہمارے ملک کی پوری اعلیٰ مالی انتظامیہ پہلی گولی چلتے ہی بيرون ملک کے لئے پروازپکڑ چکی ہو گی؟حماد اظہر صاحب کا وزیر خزانہ کے لئے چناؤ اس سنگین مسئلہ کے حل کی طرف بہت اچھا قدم ہے اور اس رخ پر سنجیدہ سوچ کی ضرورت ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین