• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جہانگیر ترین کیا واقعی حکومت کیلئے مشکل ترین ثابت ہونگے؟

اسلام آباد (فاروق اقداس ، نامہ نگار خصوصی )2018 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی میںاہم کردار ادا کرنے والے جنوبی پنجاب کے اہم سیاسی اور ا نتہا ئی با اثر خانوادوں سے تعلق ر کھنے والی شخصیت جہانگیر ترین خان جو پی ، ٹی ، آئی کے چیئرمین عمران خان کے ذاتی دوست بھی تھے ان دنوں متضاد خبروں اور قیاس میں گھیرے ہوئے ہیں اور گزشتہ روز (جمعہ کو) انہوں نے اپنے گھر میں جس عشائیے کا اہتمام کیا تھا۔

اس میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کی تعداد جو مجموعی طو ر پر بشمول دو صوبائی وزرا کے 30 کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے اس نے ان کے آئندہ کے کردار کے حوالے سے خبروں کا ایک’’ پنڈورہ بکس‘‘کھول دیا ہے ۔

کیونکہ بہر حال یہ تعداداتنی ضرور ہے کہ اگر جہانگیر ترین جن سے یہ ارکان بار بار اپنی وابستگی اور وفاداری کی یقین دھانی کرا رہے ہیں کوئی فیصلہ کر لیتے ہیں تو قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں صورتحال یکسر طور تبدیل ہو سکتی ہے اور ماہرین ایسی صورتحال میں جب جہانگیر ترین اعلانیہ یہ پیغام دے چکے ہیں کہ میں دوست تھا مجھے دشمنی کی طرف کیوں دکھیل رہے ہو؟

 یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انہوں نے دوست کیلئے ’’تھا ‘‘کا صیغہ استعمال کیا ہے اور تنبیہ کی ہے کہ وہ ’’دشمن ‘‘بھی بن سکتے ہیں تاہم جمعہ کی شب عشائیے میں اپنے رفقا کی بھر پور حاضری کے ساتھ جو انہوں نے پاور شو کیا تھا۔

یقیناً انہیں مطلوبہ اعتماد حاصل ہو گیا ہےاوران کے رفقا نے اپنا بیانیہ بھی قدرے تبدیل کر لیا ہے اور وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہمارا وزیر اعظم عمران خان سے کوئی جھگڑا نہیں ہے انہیں بعض عناصر نے گمراہ کیا ہے اور ہم ان سے ملاقات میں تمام حقائق واضح کرنے کے خواہشمند ہیں۔

تازہ ترین