کراچی(تجزیہ: مظہر عباس) ڈسکہ کا الیکشن محض بڑی اپوزیشن پارٹی مسلم لیگ ن کی کامیابی ہی نہیں، اس کی اپنی ایک سیاسی اہمیت ہے. یہ ایسے وقت میں ہوئی ہے جب سیاسی پنڈت اور تجزیہ کار پیش گوئی کررہے تھے کہ نواز شریف کی ان متنازعہ تقریروں کے بعد پارٹی کی مقبولیت ختم ہو چکی ہے جن کے بعد ان میڈیا میں بلیک آؤٹ ہوگیا.
این اے 75 کے نتیجے نے اس سے الٹ ثابت کیا. پیپلز پارٹی سے حالیہ اختلافات کے بعد ڈسکہ کی کامیابی نے مسلم لیگ ن میں نئی روح پھونک دی ہے. اگرچہ علامتی ہی سہی، اس الیکشن میں پیپلز پارٹی کے مسلم لیگ ن کی حمایت کے اعلان نے دونوں جماعتوں میں کشیدگی کسی حد تک ختم کی ہے. یہ اب مسلم لیگ ن اور تقسیم شدہ پی ڈی ایم پر منحصر ہے کہ وہ اس کامیابی کو کیسے لیتی ہیں لیں لیکن یہ اشارے واضح ہیں کہ پی ڈی ایم کو بحال کرنے کی کوششیں کی جائیں گی کیونکہ اسمبلیوں سے استعفوں کا آپشن اب نہیں رہا. ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کی کامیابیوں سے یہ تو واضح ہے کہ اس کا ووٹ بینک برقرار ہے لیکن اس کی لوگوں کو ایجی ٹیشن کے لیے باہر لانے کی صلاحیت اتنی نہیں ہے.
یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے جارحانہ اور متنازعہ بیانیہ کا ووٹروں کے ذہن پر کوئی اثر نہیں ہوا. مسلم لیگ ن اب کتنی احتیاط سے آگے بڑھتی ہے اور اس کی اگلی چال کیا ہوتی ہے یہ دیکھنا دلچسپی کی بات ہوگی.
جہاں تک وزیر اعظم عمران خان اور تحریک انصاف کا تعلق ہے گزشتہ دو ماہ میں ضمنی انتخابات میں پے در پے شکستیں مہنگائی، بیڈ گورننس اور پارٹی میں اندرونی اختلافات کے باعث ان کے زوال کو ظاہر کرتی ہیں.
جہانگیر ترین فیکٹر نے پی ٹی آئی کے اندر مسائل میں اضافہ کیا ہے.یہ بھی کافی حد تک واضح ہوگیا ہے کہ یہی فیکٹر ہے جس کے باعث وزیراعظم سینیٹ الیکشن میں ارکان کےحفیظ شیخ کو ووٹ نہ دینے پر حیران رہ گئے تھے. اگرچہ ڈسکہ کے نتیجے کا جہانگیر ترین کی منی بغاوت سے کوئی تعلق نہیں لیکن اس نے اپوزیشن کی صفوں میں توازن ضرور پیدا کر دیا ہے. اس نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کوتو ہلا کر رکھ دیا ہے جو پہلے ہی وزیراعظم عمران خان کے رحم وکرم پر ہیں.
ان حالات میں پنجاب حکومت اور پی ٹی آئی کیلئے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق بلدیاتی انتخابات کرانا بہت مشکل ہوگیا ہے. اس لئے وہ بلدیاتی انتخابات کو مزید ایک سال تک لٹکا سکتی ہے. اس نے سپریم کورٹ کے پچھلے ادارے بحال کرنے کے حکم پر بھی عمل نہیں کیا.پی ٹی آئی اپنے کارکنوں اور بعض مبصرین کو یہ کہہ کر مطمئن کرسکتی ہے کہ عام انتخابات کے مقابلے میں اس کی کارکردگی بہتر رہی.
اس کے باوجود اچھی بات یہ ہے کہ اس نے انتخابی نتیجے کو تسلیم کیا ہے جو ہماری سیاست میں کم ہی ہوتا ہے. تاہم پی ٹی آئی کا سب سے بڑا مسئلہ اندرونی ہے.
این اے249 کراچی میں بھی انہیں یہی مسائل پیش آسکتے ہیں جہاں 2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی کے فیصل واوڈا نے مسلم لیگ ن کے شہبازشریف کو صرف 700 ووٹوں کے معمولی فرق سے ہرایا تھا. پی ٹی آئی کا یہ نشست برقرار رکھنا آسان نہیں ہوگا.
وزیراعظم عمران خان 2018 میں اپنے 20 ایم پی اے نکال دئیے تھے، لیکن انہیں پتہ ہے کہ اب یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دینے والوں یا ترین کے ڈنر میں شریک ہونے والوں کے ساتھ ایسا کچھ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس کے نتیجے میں وفاقی اور پنجاب حکومتیں گرسکتی ہیں. سو اب دیکھنا ہوگا کہ وزیر اعظم کیا کرتے ہیں؟ ایف آئی اے اور شہزاد اکبر کو کچھ نرمی اختیار کرنے اور ترین سے صلح صفائی کیلئے کہتے ہیں یا زیادہ جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہیں.
خان کیلئے ایک اور مشکل یہ ہوگی کہ دو دھچکوں این اے 75 اور ترین کے بعد اعتماد کیسے حاصل کیا جائے. وزیراعظم اور پنجاب حکومت کے لئے ایک اور مشکل سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق بلدیاتی انتخابات کرانا ہے. عدالت عظمیٰ نے کالعدم ادارے بھی بحال کر دئیے ہیں.
پی ٹی آئی حکومت کو پےدر پے شکستوں کے بعد اعتماد کی بحالی کے لئے بڑے اقدامات کی ضرورت ہے. لیکن عمران ترین صلح کا مطلب مبینہ طاقتور شوگر مافیا کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہو گا.
اگر وہ آگے بڑھنے اور ترین اور مافیا کے دوسرے کرداروں کو بے نقاب کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو وہ اپنی نشستیں کھونے کا خطرہ مول لیں گے.اب جب کہ بجٹ آنے والا ہے اور بجلی کے نرخوں میں بھاری اضافے کی بھی خبریں ہیں جن سے مہنگائی اور بڑھے گی، پی ٹی آئی کیلئے صورت حال کچھ اچھی نہیں ہے۔