• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خانِ اعظم نے ایک بار پھر بھارت سے تجارت کی بحالی کے مسئلے پر ہمارے خدشے کو سچ ثابت کر دکھایا۔ کالم کا یہ حصہ یوٹرن لینے سے پہلے کا ہے آخری حصے کی چند سطریں اچانک یوٹرن کے بعد لکھی ہیں۔ خانِ اعظم کا کمال ہے کہ کسی کو ایک پل بھی چین سے نہیں بیٹھنے دیتے۔ دھڑا دھڑ حیران کر دینے والے فیصلے کئے جاتے ہیں کہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ انسان کہاں ٹھہرے اور کہاں آگے بڑھے؟ بیک وقت اتنے سیاسی، معاشی اور سفارتی موضوعات کو چھیڑ رکھا ہے کہ ایک کالم میں یہ کہانی مکمل کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ آج جس موضوع پر لکھ رہے ہیں کل یہ موضوع اپنا عنوان برقرار رکھ پائے گا یا نہیں؟ اب آپ پاک بھارت سفارت کاری کو ہی دیکھ لیجئے کہ گزشتہ کل تک تو مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370کے نفاذ کے بعد یہ باب ایسے بند تھا کہ جیسے کبھی کھلے گا ہی نہیں اور یہ بھی بھول گئے کہ اس آرٹیکل کی بنیاد پر جو ہفتہ وار شامِ غریباں منانی تھی، وہ مقبوضہ کشمیر میں کربلا برپا ہونے کے باوجود کسی ایک ہفتے بھی نہ منائی جا سکی۔ کہاں مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک بھارت سے مذاکرات نہ کرنے کی باتیں اور کہاں آج یہ مقام آگیا ہے کہ مودی سرکار کے ٹس سے مس نہ ہونے کے باوجود خود ہی پاک بھارت تعلقات کے نام پر دو طرفہ تجارت بحال کرنے کے فیصلے مسلط کئے جانے لگے، اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی۔ ہماری خارجہ پالیسی نہ ہو گئی فیصل آباد کا گھنٹہ گھر ہو گیا، جدھرسے چاہیں گھوم پھر کر آجائیں یہ سامنے ہی کھڑا نظر آئے گا۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی تو خانِ اعظم پی ڈی ایم رہنماؤں کو بھارت سے تعلق کی بنیاد پر غداری کے تمغے بانٹ رہے تھے، اب خود ہی بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں، اسے کیا نام دیں؟ چین کے وزیر خارجہ کا ایران سے اسٹرٹیجک معاہدے کے موقع پر یہ کہنا کہ ”ایران کی پالیسی ایک ٹیلی فون کال پر تبدیل نہیں ہوتی“ ظاہر ہے یہ انگلی ہماری طرف ہی اٹھتی ہے۔ پل میں تولہ پل میں ماشہ۔ ماشاءاللہ! اس اونٹ کی کوئی ایک بھی کل سیدھی نہیں کہ کب کہاں کروٹ لے کر بیٹھ جائے اور پھر لاکھ جتن کریں اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ اڑھائی سال سے زائد عرصے کے دوران وفاقی کابینہ سے لے کر ٹاپ بیورو کریسی تک ہمارے خانِ اعظم جتنا آناً فاناً تبدیلیاں کرتے رہےہیں ایسا تو برسات میں بھی نہیں ہوتا کہ یہ بارش کہاں برسے گی؟ اب تو محکمہ موسمیات والوں کی جدید ٹیکنالوجی کا کمال ہے کہ وقت سے پہلے ہی موسم کے حالات بھانپ لیتے ہیں اور بندہ بچنے کا کوئی نہ کوئی ٹھکانہ کر لیتا ہے لیکن خانِ اعظم تو یہ موقع بھی نہیں دیتے۔ چین کے وزیر خارجہ کے بیان کے تناظر میں اگر بات آگے بڑھائیں اور قائداعظم محمد علی جناح کی رحلت کا سال اپنی خارجہ پالیسی سے نکال دیں تو یہ پالیسی دوست دشمن کی پہچان کرنے سے عاری بلکہ عاجز نظر آتی ہے۔ قومی وقار، خود مختاری تو کہیں اس کے پاس سے بھی نہیں گزری، ایک گرین کارڈ وزارتِ خارجہ کے بابوؤں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔ اب ہماری حیثیت تینمیں ہے نہ تیرہ میں، نو من کی دھوبن کس کا بوجھ اٹھائے گی۔ گرین پاکستان کے چیمپئن، بلین ٹری منصوبے کے تخلیق کار، جنگل میں منگل کرنے کے دعوے داروں کی حالت تو سب نے دیکھ لی کہ نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن نے ماحولیات بارے عالمی کانفرنس میں بنگلہ دیش سمیت دنیا کے تمام رہنماؤں کو مدعو کر لیا، نہیں بلایا تو صرف پاکستان کو۔خانِ اعظم جو بظاہر دن رات ماحول کو آلودگی سے پاک صاف کرنے کے دعوےاور تدبیریں تو کررہے ہیں لیکن دنیا سو نہیں رہی، کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ بلین ٹری منصوبے کی آڑ میں کس طرح ٹمبر مافیا نے خیبرپختونخوا، شمالی علاقہ جات اور ملتان میں ایک بڑی ہاؤسنگ اسکیم کے نام پر سینکڑوں ایکڑ پر محیط آم کے باغات اُجاڑ کر ہزاروں درخت کاٹ دیے، اس قتلِ عام پر کوئی حکمران، سیاست دان، موم بتی گروپ، کسی سماجی کارکن و رہنما، عورت، مرد مارچ میں ناچنے گانے والے، والیوں کو یہ توفیق نہ ہو سکی کہ دو آنسو ان قیمتی تاریخی آم کے باغات کاٹنے پر ہی بہا دیتے، کوئی ایک بھی ایسا نہیں۔ دولت کمانے کے نشے میں کسی کو یہ احساس ہی نہ ہوا کہ پاکستان کی دنیا میں اگر تھوڑی بہت خالص پہچان بچی ہے تو انہی آم کے باغات کی مرہون منت تھی جن کی مٹھاس، خوشبو، رنگت، ذائقہ ایسا انمول ہے کہ دنیا ہماری طرف کھنچی چلی آتی ہے۔ ماضی کے حکمرانوں نے پاک بھارت کشیدگی ختم کرنے، امریکہ سے مخصوص حالات میں تعلقات برقرار رکھنے، دوست ممالک سے رشتے مزید مضبوط و مستحکم کرنے میں ”مینگو ڈپلومیسی“ کا سہارا لیا۔آخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ خانِ اعظم نے ہمارا کالم مکمل ہونے سے پہلے ہی ایک بڑا یوٹرن لے لیا۔ بھارت سے مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک تجارتی تعلقات کی بحالی سے انکارکردیا! بس یہی کہا جا سکتا ہے یہ مینگو ڈپلومیسی ہمیں فیصل آباد کے گھنٹہ گھر سے آگے بڑھنے نہیں دیتی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین