• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مذہبی تنظیم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی جانب سے اپنے مطالبات کے حق میں تین روز قبل شروع کئے جانے والے پُر تشدد احتجاج، سڑکوں پر دھرنے، توڑ پھوڑ، آتش زنی، اہم شاہراہوں کی جبری بندش، شہریوں کے معمولات زندگی درہم برہم کرنے، پولیس پر حملوں، تصادم، بعض قیمتی جانوں کے اتلاف اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے سے پیدا ہونے والی افسوسناک صورتحال پر قابو پانے کے لئے بالآخر وفاقی کابینہ کا لاہور، راولپنڈی اور دوسرے متاثرہ شہروں میں پیراملٹری فورسز طلب کرنے کی منظوری دینا حالات کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہےکہ شر پسند عناصر کو احتجاج کی آڑ میں ملکی امن خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے بھی کہا ہےکہ راستے کھولنے کیلئے تمام اقدامات کئے جائیں گے۔معاملے کی ابتدا فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی انتہائی قابل مذمت اشاعت سے ہوئی جس کے خلاف پورے عالم اسلام کی طرح پاکستان میں بھی شدید ردِعمل سامنے آیا ۔ ٹی ایل پی اس کے خلاف سڑکوں پر آ گئی ۔ اس نے فرانس سے سفارتی تعلقات توڑنے اور پاکستان سے فرانسیسی سفیر کونکالنے کا مطالبہ کیا۔ حکومت نے یہ معاملہ پارلیمنٹ میں پیش کر کے اس کا ٹی ایل پی کے اطمینان کے مطابق حل نکالنے کا معاہدہ کیا لیکن اس پر عملدرآمد میں تاخیر ہو گئی جس پر تنظیم کے سربراہ سعد حسین رضوی نے حکومت کو 20اپریل تک کا الٹی میٹم دے دیا جس کے بعد احتجاجی تحریک شروع ہونا تھی۔ اس دوران فریقین میں مذاکرات بھی ہو رہے تھے کہ ٹی ایل پی کی کچھ سرگرمیاں سامنے آئیں جس پر حکومت نے نتائج کا ادراک کئے بغیر سعد رضوی کو گرفتار کر لیا۔ عجلت میں اٹھایا گیا یہ اقدام تنظیم کے کارکنوں کیلئے اشتعال کا سبب بنا اور انہوں نے اپنے لیڈرکی رہائی کیلئے متشددانہ اقدامات شروع کر دیے۔ ان کے احتجاجی دھرنوں سے شاہراہوں پر ٹریفک معطل اور شہری زندگی مفلوج ہو گئی۔ سرکاری و نجی املاک اور پولیس پر تنظیم کے ڈنڈا برداروں نے مبینہ حملے کئے اور صحافیوں کے بعد عام شہریوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔ اسپتالوں میں زیر علاج کورونا مریضوں کیلئے آکسیجن لے جانے والی گاڑیاں اور ایمبولینس ٹریفک میں پھنس گئیں۔ بعض مقامات پر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کوآگ لگا دی گئی۔ ہنگاموں سے اسلام آباد اور راولپنڈی کے علاوہ ملتان، بہاولپور، گجرات، جہلم، منڈی بہائو الدین اور بہاولنگر وغیرہ بھی متاثر ہوئے۔ کراچی میں بھی توڑ پھوڑ اور آتش زنی کے واقعات ہوئے۔ متاثرہ شہروں میں صورتحال خراب ہونے سے بچانے کیلئے رینجرز کو تعینات کر دیا گیا ہے۔ پولیس اور ٹی ایل پی کے کارکنوں میں تصادم سے دو پولیس کانسٹیبلوں اور تین ٹی ایل پی کارکنوں کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات ہیں تاہم ٹی ایل پی نے اپنا جانی نقصان زیادہ بتایا ہے اوروزیر داخلہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ سو سے زائد مظاہرین گرفتار کئے جا چکے ہیں۔ ٹی ایل پی کا کہنا ہے کہ جب تک سعد رضوی کو رہا اور فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالا نہیں جاتا اس کے کارکن سڑکوں پر رہیں گے۔ جہاں تک فرانس سے پاکستان کے تعلقات کا تعلق ہے تو دونوں ملکوں میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد تجارت رکی ہوئی ہے۔ فرانس نے ایک سال سے پاکستانیوں کیلئے کوئی نیا ویزا جاری نہیں کیا اور سفارتی عملے کی تعداد کم ترین سطح پر ہے۔ فرانس میں پاکستان کا کوئی سفیر نہیں البتہ اسلام آباد میں فرانس کا سفیر موجود ہے۔ حکومت اگر تحمل اور تدبر سے کام لیتی تو ٹی ایل پی کے مطالبات کا حل نکل سکتا تھا۔ اسی طرح مذہبی تنظیم نے قانون شکنی کا جو راستہ اختیار کیا وہ بھی غیرمناسب ہے۔ ضرورت اس امرکی ہےکہ تشدد اور ہنگامہ آرائی کی بجائے مذاکرات کی راہ اختیار کی جائے اور معاملے کو پرامن طور پر یکسو کیا جائے۔

تازہ ترین